دُبلا ہونے کی خاطر

ادیبہ بزمی

خدا جانے کیا ہوا کہ موٹاپا ایک دم رحمت خداوندی بن کر مجھ پر نازل ہوا اور مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ جب کہنے سننے والوںنے کرسیوں اور چارپائیوں کی حالت پر ترس کھانے کی درخواستیں پیش کیں تب بھی مجھے یقین نہ آیا کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے۔ البتہ میںکبھی کبھی اپنے جثے پر ایک نظر ڈال کر یہ تسلی کرلیتی تھی کہ سچ مچ کہیں صورت حال قابو سے باہر تو نہیں ہوگئی۔ بدنصیبی سے ہمیشہ ہی میری نظروں نے مجھے دھوکا دیا اور میںلاعلمی میں موٹاپے کی منظور نظر بنتی چلی گئی۔ لیکن اس لاعلمی کا دور آخر ختم ہو کر رہا۔

ایک روز کپڑوں کی تلاش میں ایک ایسی قمیص پر نظر پڑی جو اپنی فراخی کے باعث معتوب گردان کر اس خیال سے ایک کونے میں ڈال دی گئی تھی کہ کبھی بشرط فرصت ’’آبکار‘‘ کو اس فراخی سے نجات دلا کر انسانیت کے جامہ میں لایا جائے گا۔ جونہی وہ نظر آئی تو اس کی درستی کی سوجھی۔ لیکن اسے زیب تن کرنے کی دیر تھی کہ غفلت کے پردے ایک ایک کر کے آنکھوں سے اٹھ گئے۔ ’’ناہنجار‘ نے چہار جانب سے جسم، عریض کو یوں شکنجہ میں جکڑ لیا کہ اس سے رہائی مشکل ہوگئی۔ اب اس صداقت پر ایمان لانے ہی بنی کہ جان زار موٹاپے کا شکار ہی نہیں بلکہ ’’شاہکار‘‘ بن چکی ہے۔

’’اب کیا ہو؟ موٹاپے کے اس عذاب سے کس طرح نجات ملے۔‘‘

’’اس کا تو بس ایک ہی علاج ہے‘‘ کسی نے مشورہ دیا ’’صبح و شام ورزش کرو ! ورزش۔‘‘

مگر کس قسم کی ورزش؟ مشورہ دینے والے اس بارے میں قطعا کوئی رہنمائی نہ کرسکے۔ تاہم انیسہ بیگم اس معاملے میں خاصا تجربہ رکھتی تھیں۔ وہ جب ملیں تو باتوں کے دوران میرے جسم و جثہ کا بھی جائزہ لیتی رہیں۔ آخر نہ رہ سکیں اور بول پڑیں ’’برا نہ مانئے مجھے آپ کے اس موٹاپے سے اختلاف ہے۔‘

’’کوئی تدبیر؟‘‘ میں نے اپنی لاچاری دکھائی۔

’’ایک ورزش ہے بڑی آسان اور آزمائی ہوئی، روزانہ صرف پانچ منٹ صرف ہوں گے۔‘‘

’’ارے جلد بتاؤ‘‘ میں اس کم خرچ بالا نشین قسم کے نسخے پر ریجھ گئی۔

’’اوں ہوں! زبانی نہیں یوں ’’اور وہ جھٹ اپنا لاڈلا میری گود میں تھما، عملی مظاہرے پر تل گئیں۔

بات سہل سی معلوم ہوئی اس لیے دوسرے ہی دن اس پر عمل کرنے کی ٹھانی۔ مگر صبح اٹھتے ہی جو ترنگ آئی تو یکے بعد دیگرے ورزش کی کئی قسم کے نسخوں پر عمل کر ڈالا۔ یعنی پہلے انیسہ بیگم کا بتایا ہوا نسخہ آزمایا۔ جب اس سے جی کو تشفی نہ ہوئی تو ایک اور ورزش اتنی دیر جاری رکھی کہ طبیعت کی ساری جولانی رفو چکر ہوگئی۔

دوسرے دن بھی اس منصوبے کو جیسے تیسے نبھایا مگر تیسرے دن پتا چلا کہ صورتِ حال دگرگوں ہے، یعنی ورزش تو کجا بستر سے اٹھنا ہی مشکل تھا۔ بدن کا جوڑ جوڑ شدید درد میں مبتلا، حرکت کرنا دو بھر اور بچاری توند جس کے ’حجم‘ کو کم کرنے کے لیے یہ سب پاپڑ بیلے جا رہے تھے، اس کی حالت ان مارا مار جھکولوں سے پکے پھوڑے کے مانند ہوگئی تھی۔ جان کی سلامتی بہرحال مطلوب تھی لہٰذا اس نامعقول ورزش سے دستبردار ہونا پڑا۔

تنگ آکر کم خوری کے نسخے پر عمل شروع کیا اور جب کمزوری بڑھنا شروع ہوئی تو اپنے حسابوں سمجھے کہ تیر نشانے پر بیٹھ گیا۔ مگر ایک ’نیک نہاد‘ ڈاکٹر نے ایسا ورغلایا کہ اس کے مشورے کا قائل ہونا پڑا۔ ’’کم خوری سے مستقل فائدہ ہرگز نہ ہوگا، اس سے اور بھی نقصان ہوسکتا ہے۔‘‘ اب تو بڑی مایوسی ہوئی کہ اچھا خاصا نسخہ ناکام ہوگیا۔

ادھر میں جی چھوڑ بیٹھی تھی ادھر کچھ ’’ہم حجم‘‘ سہیلیاں نت نئے تجربوں میں مصروف تھیں۔ انہی صف اول کی مجاہدات میں خالدہ بیگم بھی تھیں۔ وہ دبلا ہونے کے فن پر مکمل عبور حاصل کرچکی تھیں اور فاتح اعظم بن کر میدان پر میدان ما رہی تھیں۔

ملنے تو آتی ہی نہ تھیں بس ہر بار فون پر یہی بتاتیں کہ دبلا ہونے کے لیے بڑے سخت جتن کر رہی ہیں۔ کس قسم کی جتن؟ میں ہر بار ان کی آواز پر سراپا اشتیاق بن جاتی مگر ظالم وہ تیر بہدف نسخہ بتا کر نہ دیتی۔

آخر ایک دن جب وہ اپنے حسابوں نزاکت کے سانچے میں ڈھل کر سینک سلائی بن چکی تھیں، درشن دینے چلی آئیں۔ دیکھ کر خاصی عبرت ہوئی کہ پہلے تو اچھی بھلی آدمی کا بچہ تھیںتاہم ان کا ’ہیولا‘ میرا ایمان متزلزل کر کے رہا۔ کچھ بھی نہیں تو اس نے منوں تھپے ہوئے گوشت کو تو اتار پھینکا ہے۔

میں جانتی تھی کہ لوگ اپنے مجرب نسخے آسانی سے نہیں بتاتے۔ ایسے راز بڑے ہتھکنڈوں سے اگلوانے پڑتے ہیں لہٰذا باتوں کے دوران میں ان کے جسم و جثہ کا تعریفی نظروں سے جائزہ لیتی رہی۔

’’ارے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ آخر میری مسلسل نشانہ بازی نے اثر دکھایا۔

’’خدا نظر بد سے بچائے، بالکل سانچے میں ڈھلی ہوئی لگ رہی ہو۔‘‘ میں نے جان بوجھ کر مبالغہ سے کام لیا۔

’’اے ہے تو… تم… تم بھی تو۔‘‘ وہ ہکلائیں۔

’’اے خاک! لو اور سنو، تمہارے تو پاسنگ بھی نہیں۔‘‘ میںنے کسر نفسی دکھائی۔

’’تو چاہتی کیا ہو؟‘‘ وہ ذرا نرم پڑیں۔

’’یہی کہ وہ نسخہ مجھے بھی بتاؤ جو تم نے استعمال کیا ہے۔‘‘

’’رہنے دو، تمہارے بس کا نہیں ہے یہ روگ۔‘‘

’’کیوں نہیں ہے! کہو نا کہ تم مجھے بتانا ہی نہیں چاہتی ہو۔‘‘ میںنے دھونس جمائی۔

’’اچھا تو لو!‘‘ وہ ایک دم جوش میں آئیں۔ ’’ہمت ہے تو آجاؤ میدان میں ایک ماہ مسلسل فاقہ کرو۔‘‘

’’ایک ماہ مسلسل فاقہ…؟ کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ میری روح لرز اٹھی۔

’’ہاں ہاں! بالکل ضروری ہے یہ۔‘‘

’’لعنت تمہارے اوپر، مجھے مارنے پر تلی ہو۔‘‘

’’بس مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ تم سے کچھ نہ ہوگا۔‘‘

’’تمہیں مبارک ہوں اپنے فاقے زدہ منصوبے میں تو ہار آئی۔ میں نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔

’’بھدابھد۔ یا اللہ یہ آج کیا آفت نازل ہوئی گھر پر۔‘‘ سوتے سے جو میری آنکھ کھلی تو ایسا معلوم ہوا جیسے سڑک کٹ رہی ہو۔ اٹھ کر دیکھا تو ہمشیرہ و صاحبہ مع بچوں کی پوری کھیپ کے سامنے رسہ ٹاپنے کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ بچے بچارے گم سم اپنے فن کی مٹی پلید ہوتے ریکھ رہے تھے۔

’’ارے ارے! دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا۔‘‘

’’چپ رہو جی۔‘‘ وہ ہکلائیں۔ سانس تھا کہ قابو ہی میں نہ آتا تھا مگر بولیں ’’خود بے ہنگم ہو، اب چاہتی ہو کہ سب ایسے ہوجائیں!‘‘

’’مگر اس دوپہر میں تو آرام کرلیا ہوتا۔ ایس بھی کیا افتاد؟‘‘

’’افتاد کیسی؟ ہم رسی کو دنا سیکھ رہے ہیں۔‘‘

’’لیکن کیوں؟‘‘

’’اے ہے، تمہیں اتنا بھی پتا نہیں۔‘‘ وہ جھلاگئیں۔ ’’بہترین ورزش ہے یہ موٹاپے کے لیے۔‘‘

’’لعنت ہے ایسی ورزش پر! مجھ سے تو یہ اچھل کود کبھی نہ ہو۔‘‘ میں نے احتیاطاً پیش بندی کی۔

’’ارے کوئی مشکل نہیں، لو آؤ تو ذرا۔‘‘ انھوںنے مجھے پھسلایا اور کود کر رسی میری طرف لے آئیں۔

’’توبہ کرو پھر کوئی وقت بھی ہوا شام کو دیکھیں گے۔‘‘

’’لیکن انھیں پسینے میں تربتر دیکھ کر آخر میں بھی پھسلی کہ یہ تو چربی پگھلانے کا بہترین حربہ ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے میرے ارد گرد رسّی کے چکروں کی بارش شروع کردی۔ پھاپھٹ، پھٹاپھٹ! رسی گردش میں تھی۔ بہتیرا منع کیا لیکن ہمشیرہ صاحبہ باز ہی نہ آئیں۔ آخر سر پر منڈلاتی ہوئی رسی سے جب مفر کی کوئی صورت نہ دیکھی، تو جھنجھلا کر میں نے ان کا ساتھ دینے کی کوشش کی۔ کودتے کودتے میرے پاؤں شل ہوکر رہ گئے لیکن رسّی میرے پاؤں تلے سے نکل کر نہ دی۔

’’کوئی بات نہیں، بس دو چار دن لگیں گے۔‘‘ اس خیال سے کہ کہیں میں جی نہ چھوڑ بیٹھوں، انھوں نے مجھے تسلی دی، مگر میں خوب جانتی تھی کہ یہ نرا فریب ہے، اسکول کے زمانے میں دن تو کیا ہفتوں اس مشق کی نذر ہوگئے لیکن کامیابی نہ ہوسکی اور ہم جولیوں میں ہمیشہ ایسے موقعوں پر اپنی سبکی ہی ہوئی۔

دس پندرہ دن جوں توں یہ منصوبہ چلا مگر نہ تو اس فن کی ہی کچھ شدبد ہوئی اور نہ موٹاپا کم ہونے کے آثار دکھائی دیے۔ ایک پیچ و تاب کا عالم طاری تھا۔ تھک ہار کر دونوں فنکاروں نے اس فن کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھالیا۔

آخر میری بیٹی کی محبت نے جوش مارا، پہلے تو وہ میرے جملہ منصوبوں کو شک اور حیرت سے دیکھتی رہی مگر جب دیکھا کہ میں واقعی دبلا ہوئے بغیر چین سے نہ بیٹھوں گی تو اسے مجھ پر بڑا ترس آیا۔

’’امی آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ وہ بڑے پیار سے آکر مجھ سے لپٹ گئی، میں شام کو آپ کے ساتھ بیڈ منٹن کھیلوں گی، سب ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘

’’ارے ہاں بیٹی! مگر تمہیں اتنی فرصت کہاں؟‘‘

’’آپ فکر نہ کیجیے، کچھ بھی ہو بس کل سے یہ منصوبہ شروع۔‘‘

بھلا ایسے میں اس سے حیل و حجت کیا کرتی، وہ میرے فائدہ ہی کی تو کہہ رہی تھی۔

دوسرے دن شام کو ابھی میں قیلولے کے بعد بستر ہی پر تھی کہ صاحبزادی صاحبہ ریکٹ ہلاتی ہوئی میرے سر پر آموجود ہوئیں۔

’’چلئے اب پانچ بج چکے ہیں۔‘‘ اس نے دوسرا ریکٹ میرے بستر پر ٹکا دیا۔ ریکٹ کی موجودگی میں تفصیلی سوال کی گنجائش ہی نہ تھی۔

’’ہاں ہاں ابھی چلتے ہیں۔‘‘ میں نے بڑے پیار سے اسے بہلایا اور اخبار اٹھا لیا۔ گھبراہٹ میں جلدی جلدی اخبار کے صفحے الٹنے شروع کیے۔ مارے بیڈ منٹن کے ہول کے ایک لفظ بھی پلے نہیں پڑ رہا تھا مگر وقت گزاری کے لیے یہ ضروری تھا تاکہ اس مشقت سے کچھ تو بچ سکوں۔ پروائے ناکامی، ابھی میری اخباری معلومات بیچ میں ہی تھیں کہ صاحبزادی صاحبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انھوں نے بغیر کچھ کہے اخبار جھپٹ کر ریکٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ اب تو بادل نخواستہ اٹھنا ہی پڑا۔ صاحب زادی نے کورٹ میں قدم رکھتے ہی اعلان کیا:

’’پوائنٹ، وائنٹ کچھ نہیں، یونہی کھیل ہوگا۔‘‘

میں نے سوچا، چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا، ضابطہ کی پابندیوں سے تو جان چھوٹی مگر اس شریر نے تو وہ ہاتھ دکھائے کہ میں ساری چوکڑی بھول گئی۔ یعنی بے ترتیبی میں بڑی ترتیب سے یہ حرکت شروع کی کہ ابھی شٹل کاک جال کے پاس پھینکی، تو ابھی اک دم دور بائیں کونے پر اور میں سنبھل بھی نہ پاتی کہ وہ تیسرا ہاتھ کورٹ کے داہنے سرے پر دیتی۔

’’ہیں، ہیں، ہیں۔‘‘ میں نے اسے تنبیہ کرنا چاہی مگر سانس قابو میں ہی نہ تھا بولا ہی نہ گیا۔

’’ہاں لیجیے۔‘‘ مزید شرارت سے اس نے اب کی بار شٹل کاک جو اچھالی تو زمین سے دو فٹ اچھل کر اسے قابو میں کرنا پڑا۔ دس منٹ کے اس عمل سے ہی میں پسینے میں نہا گئی۔ اک ذرا ہاتھ روکا کہ سامنے جو نظر پڑی، ہمسایوں کے بچے باڑھ سے لگے میری اس اچھل کود سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

’’لاحول ولاقوۃ! اچھا تماشا بنایا تم نے میرا، بس ٹکٹ لگادو۔‘‘

غصے میں، میں کبھی اپنی ہیئت کو دیکھتی اور کبھی سامنے کھڑے بچوں کی فوج کو۔

’’تو آپ گھبراتی کیوں ہیں؟‘‘ اس نے الٹا مجھے قائل کیا۔

’’میں کیوں گھبراتی؟ نامعقول بچے، ادھر ہی تکے جا رہے ہیں۔‘‘

اس وقت ساری معصوم شکلیں مجھے شیطانی چہرے نظر آرہے تھے، جی چاہتا تھا کہ پکڑ کر سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دوں۔

ایک تو گرمی کے مارے جی ہول رہا تھا اوپر سے بیٹی کا تقاضا کہ مزید کھیلو۔ اور وہ نالائق بچے ٹلنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ تنگ آکر میںنے ریکٹ پھینک دیا۔

دوسرے دن بیٹی کے ہاتھ میںریکٹ دیکھتے ہی میں بدکی۔ ’’بھئی ان شیطان بچوں کا تو کچھ کرو،یوں تکتے ہیں جیسے میں کوئی مداری ہوں۔ ’’اچھا، یہ بات ہے، تو آپ ٹیبل ٹینس کھیلئے۔‘‘ صاحبزادی صاحبہ نے بڑی ہوشیاری سے دوسرا پانسہ پھینکا۔

’’ارے ہاں! یہ ٹھیک ہے! رات کو کھیلا کریں گے۔‘‘ میں نے سوچا کہ ٹیبل ٹینس میں نہ تو جان لیوا بھاگ دوڑ ہوگی اور نہ رات کو وہ شیطان بچے مجھے دیکھ سکیں گے۔

لیکن جب بھی کھیلنے کا ارادہ کیا یا تو بچے مصروف ہوتے ہیں یا میں ہی سرشام تھک ہار کر پڑ جاتی ہوں۔

’’امی ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کھیلنے سے جان بچاتی ہیں!‘‘ تینوں بچے جب کبھی شرارت سے مجھے چڑاتے ہیں تو میں سٹپٹا کر رہ جاتی ہوں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں