اسلام کے پیش نظر جس معاشرے کی تشکیل ہے اس معاشرے میں مساجد کا رول بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلامی معاشرہ مسجد سے گہری وابستگی رکھتا ہے اور اس کی طرف بار بار رجوع ہوتا ہے، رب سے اپنے تعلق کو مضبوط اور خوب مضبوط کرنے کے لیے بھی اور بندوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست اور مطلوبہ انداز میں جاری رکھنے کے لیے بھی۔ مساجد سے تعلق ہمارے ایمان کی علامت بھی ہے اور ایمان کی عملی و فکری تربیت کا ذریعہ بھی۔ قرآن کہتا ہے:
’’اللہ کی مسجدوں کے آباد کار تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت کو مانیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ (التوبۃ:۱۸)
یہ خدائے ذوالجلال کی جانب سے امت مسلمہ کے لیے ایک شاندار انتظام ہے، اپنے رب سے وابستگی کا، اپنے رب کی ہدایات سے وابستگی کا اور اپنے جیسے دوسرے بندگانِ خدا سے وابستگی کا۔
رب کائنات کی جانب سے اس وابستگی کو یقینی بنانے کے لیے انتظام بھی خوب کیا گیا ہے، روزانہ پانچ وقت باجماعت نماز کے لیے لازمی حاضری کی صورت میں بھی اور ہفتہ میں جمعہ کے روز بڑے اجتماع میں لازمی شرکت کی صورت میں بھی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے میں مساجد کی اہمیت اور معاشرے کی تشکیل میں مساجدکے غیرمعمولی رول کی بہت ہی شاندار اور بہت ہی عملی مثال قائم کی ہے۔ یہ مثال اللہ کے رسولؐ کی پوری زندگی میں اسی آب وتاب کے ساتھ قائم رہی، اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی اسی آب وتاب کے ساتھ جاری رہی۔ دور نبوی کی مساجد اور ان مساجد کی سرگرمیاں، بالخصوص مسجد نبوی کے سلسلے میں وارد روایتوں میں موجود تفصیلات، اسلامی معاشرے میں مساجد کے مطلوبہ رول سے متعلق بہترین رہنمائی پیش کرتی ہیں۔
تاریخ اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں پنج وقتہ نمازوں کے لیے پورا مسلم معاشرہ جمع ہوتا تھا، مرد بھی جمع ہوتے تھے، خواتین بھی جمع ہوتی تھیں اور بچے بھی جمع ہوتے تھے، اور مسجد میں سب کے لیے اُن کے مناسب حال صفیں متعین ہوتی تھیں۔ نمازوں کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب بھی کسی اجتماعی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی آپ خطاب فرمایا کرتے تھے، اس وقت بھی پورا مسلم معاشرہ وہاں موجود ہوتا تھا، مرد بھی موجود ہوتے تھے اور خواتین بھی موجود ہوتی تھیں۔جمعہ کے دن آپ کا معمول تھا کہ اس بڑے اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے ہفتہ بھر کے تناظر میں ضروری اور عملی قسم کی رہنمائی پیش فرماتے، اس وقت بھی پورا معاشرہ، مرد بھی اور خواتین بھی، مسجد میں موجود ہوتا۔ اس کے علاوہ آپؐ کا معمول تھا کہ مختلف اوقات میں مسجد میں ٹھہرتے، وہاں آپ کی مجلس لگتی، جہاں مردوخواتین سب کے لیے موقع ہوتا کہ وہ حسب ضرورت مختلف امور کے سلسلہ میں آپ سے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی رہنمائی حاصل کرسکیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک بار خواتین نے مطالبہ کیا کہ بہت سے مسائل وہ ہیں جو اس طرح کی مجلسوں میں وہ نہیں پوچھ سکتی ہیں، لہٰذا ایک دن اُن کے لیے مختص کردیا جائے، جس میں وہ اپنے مخصوص مسائل کے سلسلے میں واضح رہنمائی حاصل کرسکیں۔ ان مجلسوں کے علاوہ بھی جب کبھی آپ ضرورت محسوس کرتے، مسجد میں جمع ہونے کا حکم دے دیتے اور سارا مدینہ آپ کو سننے کے لیے بیتابی کے ساتھ وہاں موجود ہوتا۔ مسجد نبوی میں منعقد مجالس محض تذکیری یا دینی مجالس ہی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ ان مجالس میں کافی تنوع پایا جاتا تھا، کبھی شعروشاعری کی مجلس منعقد ہوتی اور شاعر رسول حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر شعرائے رسول سامعین کو محظوظ کررہے ہوتے، اور کبھی کسی قسم کا مسابقہ منعقد ہوتا، جہاں شرکائے مسابقہ اپنے اپنے جوہر دکھارہے ہوتے اور وہاں موجود دیگر افرادبھی محظوظ ہورہے ہوتے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ کچھ حبشی اپنے مخصوص کھیل کھیل رہے تھے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپؐ کی اوٹ میں کھڑی وہ کھیل دیکھ رہی تھیں۔
’’صفہ‘‘ مسجد نبوی کی سرگرمیوں کا ایک اہم ترین حصہ تھا۔ یہ طالبانِ حق کے لیے بھی ایک شاندار ٹھکانہ تھا اور کمزور وپریشان حال افراد کے لیے بھی ایک بہترین ٹھکانہ تھا۔ دن میں یہاں تعلیمی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں اور رات میں ضرورت مند افراد یہاں قیام کرتے تھے۔ صفہ سے متعلق اِن افراد کے کھانے پینے کا نظم معاشرے کی ذمہ رہتا تھا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے بھی اِن کے لیے کھانا آتااور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہاں سے بھی۔
مسجد نبوی خدمت خلق کا مرکز بھی تھی۔کوئی مسافر، پریشان حال، مسکین، ضرورت مندآگیا تو اُس کو یہاں بہترین سہارا ملتا۔ مشہور واقعہ ہے کہ قبیلہ مضر کے لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو تقریباً ننگے بدن، کمبل یا عبالپیٹے ہوئے اور گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر آپؐ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا۔ آپؐ گھر کے اندر گئے اورپھر فوراً ہی باہر نکل آئے اور حضرت بلالؓ سے اذان دینے کے لیے کہا۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی، آپؐنے نماز پڑھائی اور پھرحاضرین سے خطاب فرمایا۔ آپؐ نے سورۃالنساء کی پہلی آیت اور سورۃ الحشر کی ۱۸ ویں آیت پڑھی اور اس کے بعد فرمایا: ’’ہر شخص اپنے دینار و درہم، کپڑے، گندم اور جو کی مقدار میں سے صدقہ و خیرات کرے۔‘‘ پھر فرمایا : ’’(خیرات کرو) چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ لوگ آتے گئے اور کھانے کی چیزوں اور کپڑوں کے ڈھیر لگاتے چلے گئے، جسے دیکھ کر رسول اللہﷺکا چہرہ آفتاب کی طرح چمک اٹھا۔
مسجد نبوی اس کے علاوہ دوسری سماجی ضرورتوں کی تکمیل بھی کرتی تھی، وفود تشریف لاتے تو انہیں وہاں ٹھہرایا جاتا، رسول پاکﷺ یہیں آکران سے ملاقاتیں کرتے اور ان کے سامنے اپنے مشن کا تعارف کراتے، یقینا یہ وفود مسلمان نہیں ہوتے تھے، بلکہ روایات میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ آپؐ نے ایک بار نجران کے ایک بڑے عیسائی وفد کو مسجدنبوی میں ٹھہرایا۔ طائف کے مشرک وفد کو بھی آپؐ نے خاص اہتمام کے ساتھ مسجد میں قیام کرایا، اور صحابہ کرامؓ کو اس بات کی ہدایت کی کہ ان کا قیام اس طرح ہونا چاہیے کہ تلاوت قرآن کی آواز ان کے کانوں تک آسانی سے پہنچ سکے۔ اسی طرح آپؐ سے ملنے دور دراز سے مہمان تشریف لاتے تو مسجد نبوی ہی میں ان کے قیام اور ان کی ضیافت کا نظم کیا جاتا۔
یہ نبوی معاشرے میں مسجد نبوی کے غیرمعمولی رول کی چند اہم جھلکیاں ہیں، حالانکہ مسجد نبوی کا رول اس سے کہیں زیادہ اہم اور اس سے کہیں زیادہ وسیع اطراف وجوانب کا حامل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسجد نبوی ایک آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر دنیا بھر کی مساجد کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔
صورتحال یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کا یہ اہم ادارہ اپنے کردار سے بڑی حد تک محروم ہوگیا ہے۔ زمانے کی گرد اِس پر کچھ ایسی چڑھی کہ یہ اپنے کردار کی وسعت اور ہمہ گیری سے بھی محروم ہوگیا اور اپنی افادیت اور تاثیر سے بھی۔ دھیرے دھیرے اس سے وابستگی کا دائرہ بھی کافی محدود اور تنگ ہوتا چلا گیا۔
آج کے گئے گزرے حالات میں بھی بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ روحانی اور فکری طور پر مساجد سے بڑی حد تک وابستگی اور تعلق رکھتا ہے، اور یہاں سے اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور مشکلات میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ذہنی طور پر خود کو آمادہ محسوس کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد کو دوبارہ اسلامی تبدیلی کا بنیادی مرکز بنایا جائے۔ اس کی افادیت کو نہ تو پنج وقتہ نمازوں اور تاثیر سے محروم خطباتِ جمعہ تک محدود رکھا جائے، اور نہ ہی مکاتب اور حفظ وتجوید کے کلاسیز تک محدود کردیا جائے۔
اسلامی تبدیلی کا بنیادی مرکز پہلے مرحلے میں کم از کم اس طور پر بنایا جائے کہ معاشرہ ہر ہر قدم پر یہاں سے دینی رہنمائی حاصل کرسکے، بالخصوص انسانی زندگی میں پیش آنے والے معاملات سے متعلق صحیح اور بروقت دینی رہنمائی کا یہاں بھرپور انتظام ہو، چاہے یہ معاملات عائلی زندگی سے متعلق ہوں، چاہے کاروباری زندگی سے متعلق ہوں، چاہے زندگی کے دوسرے کسی شعبے سے متعلق ہوں۔
اس کے لیے مسلم معاشرے کو دوبارہ اس مرکزسے وابستہ کرنا ہوگا۔ اس سے وابستگی کے دائرے کو اسی طرح وسیع کرنا ہوگا جس طرح یہ عہد نبوی میں تھا۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اس سے وابستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی شخصیت کی تزئین اور اپنے گھر کی تعمیر ربانی ہدایات سے واقفیت کی بنیاد پر اور ان کے مطابق کریں۔ بچوں کو بھی اس سے وابستہ کرنا ہوگا تاکہ ان کی اُٹھان مسجد میں آتے جاتے ہوئے اور اسلامی ماحول اور اسلامی رہنمائی سے انسیت اور لگاؤکے ساتھ ہو۔
مساجد میں امام کے منصب پر ایسے فرد کا تقرر کرنا ہوگا (۱) جو معاشرے کے درمیان رائج زبان میں اور معاشرے کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو کرسکتا ہو۔ (۲) جو دین اور دینی معاملات کا کم ازکم اتنا فہم رکھتا ہو کہ وہ معاشرے میں اٹھنے والے معمول کے مسائل کو سمجھ سکے اور ان کے سلسلے میں دینی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے سکے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ مسلم معاشرے کی اس مرکزسے عہدنبوی جیسی وابستگی اسی صورت ممکن ہوسکے گی جبکہ اس کی افادیت اور تاثیر میں مطلوبہ حد تک اضافہ ہو، یہاں تک کہ معاشرہ اس کے اندر خود بخود اپنے لیے کشش اور لگاؤ محسوس کرنے لگے۔ مساجد کے منبر سے ہونے والے عربی زبان کے خطبات جن کو سمجھنے سے سامعین مکمل طور پر قاصر ہوتے ہیں، بیانات کے نام پر کچھ ایسے پندونصائح جن کا سامعین کی عملی زندگی سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا، یا پھر دوران تقریر ایسے مطالبات جو نہ تو شریعت میں مطلوب ہیں اور نہ ہی عام سماج کے لیے ان مطالبات کو پورا کرنا ممکن ہے، ان خطبات، بیانات اور تقاریر کے اندر سوائے حصول ثواب کے ’’عنصر‘‘ کے ایسا کچھ نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر وہ مسلم معاشرہ کے عام افراد کو اپنی جانب متوجہ کرسکیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف مساجد اپنے حقیقی کردار اور اپنی حقیقی تاثیر سے محروم ہیں۔ دوسری طرف ان مساجد کا دامن تنگ سے تنگ تر کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر خواتین جو ملت کا نصف حصہ ہیں، مساجد میں داخلہ اور مساجد کی سرگرمیوں میں شرکت سے یکسر محروم ہیں۔ چنانچہ یہ اسلامی شریعت سے واقفیت بہم پہنچانے والے اور زندگی میں درپیش مختلف امور ومسائل سے متعلق اسلامی تعلیمات سے متعارف کرانے والے، اور بار بار کی تذکیر سے احکام الٰہی کو ذہنوں میں جاگزیں کرانے والے ایک اہم اور مستقل ربانی انتظام سے محروم رہ جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ خود اپنی زندگی میں پیش آنے والے مختلف عائلی وغیر عائلی مسائل کو شرعی عدالتوں کے ذریعہ حل کرانے کے بجائے مختلف غیر شرعی عدالتوں کا چکر کاٹتی پھرتی ہیں اور پھر یہی خواتین اور ان خواتین کے مقدمات کے سلسلے میں آنے والے عدالتی فیصلے مسلم پرسنل لا اور شرعی قوانین کے تحفظ کے لیے ایک چیلنج بن جاتے ہیں۔ بہرحال مساجد کو ان کے حقیقی کردار سے وابستہ کرنا بھی ضروری ہے اور ان کی افادیت کے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی قرآن وسنت کی رہنمائی بھی ہے اور یہی ملت کے موجودہ حالات کا تقاضا بھی ہے۔lll