دین کے لیے خواتین کی جدوجہد

تحسین عامر ناندیڑ

عورت اور مرد میںجسمانی ساخت اور فطری کاموں کے لحاظ سے یقینا فرق ہے مگر دینی فرائض کی ادائیگی اور اخلاقی پابندیوں کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں۔ بچوں کو جنم دینا، انہیں دودھ پلانا، ان کی پرورش کرنا، یہ عورتوں کی جسمانی ساخت اور ان کی فطرت کا تقاضا ہے مگر ایمان لانا، عقائد کو درست رکھنا عبادات امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینا، دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کرنا، اسلامی نظام کے قیام و استحکام کی جدوجہد کرنا، ان تمام امور میں عورتیں مردوں کے ساتھ شامل ہیں۔ قرآن کریم نے جہاں اولو العزم انبیا و رسل اور اہل ایمان کا تذکرہ کیا ہے وہیں پر ایمان و کردار کے لحاظ سے پاک دامن خواتین کی توصیف بھی کی ہے۔ فرعون کی بیوی اور سیدہ مریم بنت عمران کو قرآن نے جہاں سراہا ہے، وہیں ایمان و عمل سے محروم عورتوں، حضرت نوح کی بیوی حضرت لوط علیہمالسلام کی بیوی اور ابولہب کی بیوی کی مذمت بھی کی ہے۔

قبول اسلام اور فروغ اسلام میں صحابہ کے ساتھ صحابیات نے بھی جرأت و بہادری، جانثاری اور ایثار و قربانی کے نمونے پیش کیے ہیں۔ تاریخ اسلام علم و عمل میں یکتا خواتین کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔

سید الانبیاؐ پہلی وحی کے نزول پر جس خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے تھے اس میں ڈھارس بندھانے والی سیدہ خدیجہ الکبریٰ تھیں۔ آپ سیدہ خدیجہ کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے تھے؛

’’خدا کی قسم، مجھے خدیجہ سے اچھی بیوی نہیںملی، وہ ایمان لائیں، جب سب لوگ کافر تھے، انھوں نے میری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھٹلایا، انھوں نے اپنا مال مجھ پر قربان کر دیا جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا، اور اللہ نے انہی کی بطن سے مجھے اولاد دی۔

علم و فقہ کی بات کیجیے تو حضرت عائشہ کے سامنے بڑے بڑے علما زانو تلمذ تہ کرتے نظر آتے ہیں۔ میدان جنگ کی بات ہو تو ام عمارہ تلوار کے جوہر دکھاتی نظر آتی تھیں۔ غرض یہ کہ صحابہ کرام کے ساتھ صحابیات بھی ساری تکلیفیں سہتی رہیں۔ ہجرت حبشہ کرنے والے قافلے میں بھی صحابیات شامل ہیں، دیگر ظلم و ستم سہنے بھی صحابیات پیچھے نہ تھیں۔ اسلام کے لیے شہادت کے مرتبہ پر پہنچنے والی حضرت سمیہؓ سرفہرست ہیں۔

ہجرت کے وقت (مدینہ) نبی پاک کا ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دیا۔ اس سفر مبارک کی پشتیبانی کرتی ہوئی ’’ذات النطاقتین‘‘ حضرت اسما بنت ابوبکر نظر آتی ہیں۔ انھوں نے ظالم ابوجہل کا بوتھپڑ تو کھا لیا لیکن ہجرت کے راز کو اس کے سامنے نہ اگلا، اور تین دن تک غار ثور میں کھانے پینے کی چیزیں بلا خوف بھیجتی رہیں۔

حضرت ام سلمیٰ کا واقعہ ہجرت بھی صبر و استقامت کی ایک جگر پاش کہانی سمیٹے ہوئے ہے ۔قبیلے والوں نے پہلے شوہر سے جدا کیا، پھر بیٹا بھی چھین لیا اور وہ حسرت و یاس کی تصویر بنی ہر روز اس مقام جدائی پر آکر بیٹھ جاتیں۔ دکھ سہے لیکن ان کے ایمان اور اسلام کے اندر کوئی بال برابر دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ دوسری طرف ہمیں قریش کے بڑے خاندانوں کی غلامی میں کچھ صحابیات نظر آتی ہیں جن پر آخری حد تک ظلم کیے گئے لیکن ان کی استقامت رہتی دنیا تک مثال بن گئی۔ اپنی جانوں پر ظلم و ستم سہتے صحابہ کرام کے ساتھ صحابیات نے وہ استقامت دکھائی کہ اللہ نے نصرت بھیجی اور دین اسلام غالب ہوا۔ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ قائم ہوئی۔بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات ملی۔ انسانیت نے سکھ کا سانس لیا۔

قرونِ وسطیٰ سے صدیوں کے فاصلے نے ایک بار پھر انسانوں کو انسانوں کی غلامی میں دھکیل دیا ہے۔ منکرین اللہ اوررسول کا تو تذکرہ کیا، نام نہاد اہل ایمان کی حکمرانی نے اذیت اور ظلم کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ کفار مکہ کو بھی شرم آجائے۔

مصر کی سرزمین کو دیکھئے جو گزشتہ نصف صدی سے اہل ایمان کے لیے تنگ کر دی گئی ہے اور وہاں مکی دور کے مظالم دہرائے گئے اور آج بھی دہرائے جا رہے ہیں لیکن آفرین ہے ان خواتین پر جنھوں نے مردوں کے ساتھ ساتھ ہر صعوبت برداشت کی اور آج بھی کرتے ہوئے اپنے دین پر قائم ہیں۔

حق و باطل کی کشمکش میں خواتین کا کردار کیا تھا؟ ان کی قربانیاں کس درجے کی تھیں، ان کی تفصیل پڑھ کر لفظ استقامت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ شاید یہی وہ استقامت ہے جس پر رب کریم نے فرشتوں کے نزول کی بشارت دی ہے یہ ان قربانیوں کی لازوال داستان ہے جو صنف نازک نے رقم کی ہے۔ مصری حکمرانوں نے تحریکی خواتین کو جیلوں میں بند کیا۔ اذیت کے تمام حربے پاکباز و معزز ذخواتین پر آزمائے گئے ۔ لیکن آفرین ہے ان صابروشاکر خواتین پر جنھوں نے اپنے مردوں کے شانہ بشانہ تمام مظالم سہے۔ بہادری کی ایسی مثالیں بھی ہمیں ملتی ہیں جہاں حالات کے جبر میں رونے دھونے اور پریشان ہوکر ہاتھ پیر چھوڑ کر ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے بجائے ظلم و سفاکیت کا مقابلہ کیا اس فہرست میں زینب الغزالی کا نام نمایاں ہے۔

ان بہادر خواتین کی جدوجہد میں ہماری خواتین کے لیے اہم راہ نما خطوط موجود ہیں مثلاًایک ماں کٹھن حالات میں اپنے بچوں کی بہترین پرورش کیسے کرتی ہے اور کس طرح انھیں بہادر اور وقت و حالات سے پنجہ آزمائی کا خوگر بنا کر پروان چڑھا سکتی ہے۔

شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کی صابرانہ رفاقت کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت بھی ایک اہم سبق ہے کہ اس کے لیے پرعزم جدوجہد کا شاید وقت آگیا ہے۔

۲۰۱۹ اور ۲۰۲۰ کی خواتین کا کردار بھی تاریخ کے پچھلے ادوار سے کچھ کم نہیں۔ ان طالبات اور خواتین نے شجاعت، بہادری، حوصلہ مندی اور استقامت کی جو مثالیں پیش کی ہیں اور کر رہی ہیں ان کو تاریخ میں یاد کیا جاتا رہے گا۔ چند ماہ کے بچوں سے لے کر تو ۹۰ سال تک کی خواتین اس تحریک میں شامل ہیں۔ یقینا ان باہمت و مستعد خواتین کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ کیوں کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ کسی بھی کوشش کو ضائع نہیں کرتا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں