ذکر ایک رپورٹ کا

شمشاد حسین فلاحی

بچوں کی پیدائش کا عمل ماؤں کے جہاں خوشی و مسرت اور تکمیل ذات کا ذریعہ بنتا ہے وہیں ان کی صحت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور بعض اوقات وہ زندگی او رموت کی کشمکش سے دو چار ہوجاتی ہیں۔ یہ کیفیت اس صورت میں ہوتی ہے جب بچے کی پیدائش فطری طور پر مطلوب اور محبوب ہو لیکن اگر اس عمل کو ناپسندیدہ اور غیر مطلوب بنا کر ضائع کرنے کی کوشش کی جائے تو زندگی لازمی طور پر بڑے دور رس منفی اثرات کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اسقاط حمل کو ناپسندیدہ اور مجرمانہ عمل تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے قوانین بنے ہوئے اور اگر اس کی قانونی اور اخلاقی اجازت ہے بھی تو انتہائی طبی ایمرجنسی کی صورت میں ہے۔ ہمارے ملک میں بھی میڈیکل ٹرمینیشن آف پریکننسی ایکٹ نافذ ہے جو ۱۹۷۱ میں بنا گیا۔ اس ایکٹ میں پہلی ترمیم ۲۰۰ میں کی گئی اور حالات و کوائف کے مطابق بنایا گیا جب کہ حالیہ ترمیم ۲۰۱۴ میں کی گئی جو اب تک کی جدید ترین تبدیلی ہے۔

آٹھ بنیادی دفعات پر مبنی اس قانون میں صرف طبی اور سماجی اسباب ہے اس عمل کی اجازت دی گئی ہے اور اسکی مدت کی بھی ت۴عین کردی گئی ہے جن کی رو سے ۲۰ ہفتوں سے زیادہ مدت کے حمل کو گرایا نہیں جاسکتا۔ اس کے باوجود ہمارے ملک میں اس کی جو صورت حال ہے وہ چشم کشا ہے۔ اس میں دورائے نہیں ہیں کہ عمل اخلاقی اور قانونی پر اعتبار سے جرم ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف آگاہی اور بیداری صحت اور سماج دونوں کے لیے لازمی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں خاص طور پر اس کی وجہ لڑکی اور لڑکے کے درمیان تفریق ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی وجوہات ہیں جو پوری دنیا میں پھیلی اخلاقی گندگی سے جڑی ہیں۔ یوروپی ممالک میں تو اس اخلاقی گندگی کو بھی جواز حاصل ہے اور اس کے سبب پیدا ہونے والے بچوں کو بھی سماجی اور قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن ہمارا سماج ابھی اس معیار کو نہیں پہنچ پایا ہے جہاں ان اخلاقی برائیوں کو جواز اور اعتبار حاصل ہوجائے اس لیے ہمارے ملک میں دونوں طرح کے اسقاط قانونی اور غیر قانونی طریقوں کے علاوہ ساتھ ساتھ خطرناک ذرائع اور وسائل بھی استعمال کیے جاتے ہیں جو خواتین کی صحت کے لیے قاتل ہیں۔ واضح رہے کہ ہمارے ملک کا مذکورہ قانون اگر اس عمل کی اجازت دیتا ہے تو وہ معروف، معتبر اور اہلیت کے حامل طبی اداروں کے ذریعے ہی انجام دینے کی شرط لگاتا ہے۔

حالیہ دنوں میں کئی ملکوں سے شائع ہونے والے دنیا کے معروف طبی جرنل لا نسٹ نے ہندوستان میں اسقاط حمل پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے ماحصل ہے کہ ہندوستان میں ہر تین میں سے ایک حمل اسقاط پر منتج ہوتا ہے۔ کتنی حیرت انگیز، شرمناک اور تشویشناک بات ہے آپ اندازہ کیجیے۔ اس رپورٹ میں اور بہت سے چشم کشا حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ ان حقائق پر رپورٹ تیار کرنے کا مقصد اپنے قارئین کو یہ بتانا ہے کہ اکیسویں صدی کا ترقی یافتہ ہندوستان میں جس میں خواتین کے حقوق کا دور دورہ ہے وہ حقیقت میں اپنی زندگی اور صحت کو لے کر دنیا کے کون سے پائیدان پر کھڑی ہیں۔

لانسٹ میگزین کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۵ میں 15.6 ملین (ایک کروڑ چھپن لاکھ) اسقاط حمل ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں تقریبا نصف یعنی ۴۸ فیصد وہ تھے جو غیر مطلوب (ان انٹینڈڈ) تھے۔ ان میں تقریبا آٹھ لاکھ خوایتن نے اس کام کے لیے ایسے غیر محفوظ اور غیر صحت مندانہ طریقے اختیار کیے جن سے نہ صرف صحت بلکہ زندگی تک کو خطرہ لاحق تھا۔ اسقاط کیلیے مارکیت میں موجود گولیوں کا استعمال سب کامن ذریعہ تھا جسے تقریبا 12.7ملین (یعنی ایک کروڑ ستائس لاکھ) خواتین نے اختیار کیا جن کا تناسب 81فیصد بنتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بائیس لاکھ خواتین نے اس کام کے لیے سرجیکل میتھڈ اختیار کیا۔

اس پورے تناظر کی خاص منفی بات یہ رہی کہ محض 22فیصد یا 3.4 ملین اسقاط ہی عوامی صحت کے مراکز میں انجام پائے جب کہ 73 فیصد جن کی تعداد 11.5 ملین ہوتی ہے کسی بھی قسم کے مرکز صحت سے باہر انجام دیے گئے جب کہ آٹھ لاکھ ایسے تھے جو غیر رسمی طبی خدمات فراہم کرنے والوں نے انجام دیے۔

ان اعداد و شمار کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے واقعات اسقاط حمل جو عوامی سہولیات کے مراکز میں ہو جن کی تعداد 3.4 ہے وہ سال گزشتہ 2014-15 کے مقابلے پانچ گنا زیادہ ہے۔ 2014-15 کے اعداد و شمار اسے محض 701,415 بتاتے ہیں جب کہ تازہ اعداد و شمار تیس لاکھ چالیس ہزار بتاتے ہیں۔

اس تحقیق سے وابستہ چندر شیکھر صاحب کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے ان اعداد و شمار میں پبلک پرائیویٹ اور این جی اوز کا ڈاٹا بھی اس میں شامل کیا ہے، اس کا مطلب صاف ہے کہ گزشتہ سال کے اعداد و شمار میں محض سرکاری اداروں کے اعداد و شمار تھے اور اسی وجہ سے یہ تعداد تقریباً پانچ گنا کم نظر آتی تھی۔ ڈاکٹر چندر شیکھر انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز مبئی کے فرنلٹی شعبہ کے پروفیسر ہیں۔ مذکورہ پروفیسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر چار میں سے ایک خاتون یعنی 25 فی کی پہلی پسند سرکاری مراکز صھت ہی ہوتے ہیں لیکن وہاں دست یابی آسان نہیں ہے۔ محقق کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بعد حکومتی سطح پر کی جانے والی کوششوں میں مزید توسیع کی ضرورت پر غور کیا جانا چاہیے۔

ہمارے ملک میں اسقاط حمل کا تناسب 47/1000 ہے اور عمر کا تناسب 15-49 سال ہے جب کہ پاکستان میں موجود تناس سے کم ہے جو ۵۰ ہے اور نیپال و بنگلہ دیش سے زیادہ ہے جو بالترتیب ۴۲ اور ۳۹ ہے۔

واضح رہے کہ ہندوستان میں موجود MTP act کے مطابق سرجیکل اسقاط صرف تربیتگ یافہت عملہ اور ڈگری یافتہ ڈاکٹروں کے ذریعے حکومت کے رجسٹرڈ طبی مراکز میں ہی کیا جاسکتا ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ کہاں کہاں کیا کیا جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کیوں کہ حکومت محفوظ اسقاط کے مراکز قائم کرنے اور طبی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے اس لیے لوگ مجبورا غیر محفوظ طریقے اور غیر معتبر و غیر مستند مراکز سے فائدہ اٹھانے پر مجبور ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ کون بتائے کہ ان اسباب و وجوہات سے کیوں سماج و معاشرے کو محفوظ بنانے کی فکر کیوں نہیں کی جاتی ہے جو اس اخلاقی پستی اور طبی و صحت کے خطرناک مقامات تک کھینچ لے جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب تک بنیادی خامیوں اور خرابیوں کو سماج اور معاشرے سے دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس طرح کی تمام کوششوں کی حیثیت شاخوں کو تراشتے اور جڑوں کو پانی دینے کے مانند ہوگی اور یہی کچھ ہم مغربی دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں