ہم میں سے کون ہے جو ملک کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی شخصیت ے ناواقف ہوگا۔ انہیں ہندوستان کی اکلوتی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی زندگی مصروفیات و مشغولیات سے پُر تھی۔ ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے اور عملی طور پر سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے انہیں گھر سے باہر بہت وقت بتانا پڑتا لیکن اس کے باوجود اگر ان کی آپ بیتی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ بحیثیت ماں اپنی ذمہ داریوں سے بہ خوبی واقف تھیں۔ انہیں احساس تھا کہ بچوں کو ان کی کس قدر ضرورت ہے، اوران کی بہترین تعلیم وتربیت کے لیے انہیں وقت دینا کتنا اہم ہے۔ چنانچہ اپنی آپ بیتی میں وہ لکھتی ہیں کہ ’’سیاسی جدوجہد کی وجہ سے میرا بچپن تنہائی اور عدم تحفظ میں گزرا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے بچوں کو پورا وقت دینا چاہتی تھی۔ ایک بچے کے لیے ماں کی محبت اور توجہ اتنی ہی بنیادی اور ضروری ہے جتنی کسی پودے کے لیے دھوپ اور پانی۔ کسی بھی ماں کے لیے اس کی سب سے پہلی ترجیح اس کے بچے ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک مخصوص انداز میں ماں پر انحصار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری زندگی کا اصل مسئلہ یہی تھا کہ میں عوام کے لیے اپنی ذمہ داریوں اور گھر اور بچوں کے فرائض کے درمیان ہم آہنگی کیسے پیدا کروں۔‘‘ انھوں نے چھوٹی عمرمیں اپنے بچوں راجیو گاندھی اور سنجے گاندھی کو آیا کے سپرد کرنا گوارا نہیں کیا اور اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر ان کی دیکھ ریکھ کرتی تھیں۔ جب دونوں بچے اسکول جانے کی عمر کو پہنچ گئے تب وہ کوشش کرتیں کہ ان کے اسکول سے آنےسے پہلے وہ خود کو فارغ کرلیں تاکہ بچوں کو اچھا وقت دے سکیں۔ جب بچے اور بڑے ہوئے تو بورڈنگ اسکول میں ڈال دیا، لیکن یہاں بھی ان کا کہنا ہے کہ میں ہفتے میں ایک یا دو چٹھی ضرور لکھتی تاکہ بچے مطمئن رہیں کہ ماں انہیں بھولی نہیں ہے اور جب وہ چھٹیوں میں گھر آتے تو زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے ساتھ میسر وقت بھرپور طریقے سے گزارنا چاہیے تاکہ بچے مطمئن ہوسکیں۔ چاہے میں کتنی ہی تھکی ہوتی یا بیمار ہوتی میں نے کبھی بھی بچوں کے ساتھ کھیلنے اور پڑھنے سے گریز نہیں کیا۔
وہ لکھتی ہیں کہ ’’سنجے ابھی بہت چھوٹا تھا تو اس کے ایک کلاس فیلو کی والدہ ہمارے گھر آئیں۔ وہ میرے عوامی کاموں پر تنقید کرنے لگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارتی۔ سنجے کو یہ بات بہت بری لگی، وہ دوڑتا ہوا آیا اور بولا ’’میری ماں کو بہت سے اہم کام کرنے ہوتے ہیں، اس کے باوجود وہ ہمارے ساتھ کھیلتی ہیں اور اس سے زیادہ وقت ہمیں دیتی ہیں جتنا کہ آپ اپنے بچوں کو دیتی ہیں۔‘‘
ان کا ماننا تھا کہ بچوں کی متوازی شخصیت کی تشکیل کا انحصار ماں کے رویے اور تربیت پر ہوتا ہے۔ ماں کا فرض ہے کہ وہ بچے میں خود نظمی اورکردار کی مضبوطی پیدا کرے۔ ہر جائز و ناجائز خواہشات پوری نہ کرتے ہوئے ضرورت کے مطابق حالات کو سمجھنا سکھایا جائے۔ والدین کا فریضہ ہے کہ وہ بچوںکی تربیت اس طرح کریں کہ نہ تو بچوں کی شخصیت پر ہماری چھاپ پڑے اور نہ ان پر ہماری خواہشات کی تکمیل کا بوجھ ہو۔ بلکے بچے اپنے جذبات و احساسات اور خواہشات کے ساتھ جئیں۔ ہماری ذمہ داری ان کی رہنمائی کرنا ہے ناکہ زبردستی اپنی مرضی منوانا۔
سرسید احمد خاں کی والدہ
یہ کہا جاتا ہے کہ ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جسے ایک حساس اور ذمہ دار ماں کی گود مل جائے تو یقیناً ایسے بچے کو بڑا آدمی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
چنانچہ سرسید احمد خاں کے بڑا آدمی بننے کے پیچھے ان کی والدہ محترمہ عزیز النساء بیگم تھیں۔ وہ ایک سلیقہ مند، دیندار، متقی اور بارعب خاتون تھیں۔ سرسید احمد خاں نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ اگرچہ ان کی تعلیم اس عہد کے اعتبار سے درمیانے درجے کی تھی لیکن ان کا طرزِ تدریس نہایت مشفقانہ تھا۔ بقول سرسید احمد خاں جب وہ انہیں پڑھاتی تھیں تو ایک طرح کا ڈنڈا اپنے قریب رکھ لیتی تھیں، صرف تنبیہ اور ڈرانے کے لیے۔ اس کا انھوں نے کبھی استعمال نہیں کیا۔
بچوں کی تربیت کے حوالے سے سرسید احمد خاں کی والدہ نہایت بااصول، سخت اور عادل تھیں۔ تمام تر سہولیات کے باوجود حفظ مراتب اور ادب لحاظ میں بالکل رعایت نہیں کرتی تھیں۔ ان کا نوکر کو تھپڑ مارنے والا واقعہ نہایت مشہور ہے۔ اور آپ کی والدہ کی کمال تربیت کی منہ بولتی تصویر بھی ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں میری عمر گیارہ بارہ سال تھی میں نے ایک نوکر کو جو بہت پرانا اور بوڑھا تھا کسی بات پر تھپڑ ماردیا۔ جب والدہ کو معلوم ہوا تو گھر سے نکال دیا اور کہا کہ یہ جہاں جانا چاہے چلا جائے۔ یہ گھر میں رہنے لائق نہیں ہے۔ تین دن بعد خالہ کے ساتھ معافی تلافی کے لیے آئے۔ ماں نے کہا کہ اگر وہ نوکر اس کا قصور معاف کردے تو میں معاف کردوں گی۔ نوکرکو بلایا گیا جب اس نے معاف کردیا تب کہیں جاکر ماں سے بھی معافی ملی اور گھر میں رہنے کی اجازت بھی ملی۔
سرسید احمد خاں جب دہلی میں منصف مقرر ہوئے تو ہمیشہ گاڑی میں بیٹھ کر باہر جاتے تھے۔ ان کی ماں نے انہیں نصیحت کی کہ جہاں تم کو پابندی سے جانا ہو، وہاں بعض اوقات تم پیدل جاؤ اور بعض اوقات سواری پر۔ کون جانتا ہے کہ کل تمہارے پاس گاڑی ہو یا نہ ہو۔ ایسی عادت رکھو جو ناموافق حالات میں بھی جاری رہ سکے۔ چنانچہ ماں کی اس نصیحت پر انھوں نے زندگی بھر عمل کیا۔ ماں کی ہی تربیت کا اثر تھا کہ سرسید احمد خاں انیسویں صدی کی تابندہ اور متحرک شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ وہ بیک وقت ماہر دینیات، عالم، مصلح، ماہر تعلیم، مدبر اور صحافی تھے۔ انھوں نے نئے ہندوستان میں مسلمان کی تعمیرو ترقی میں اہم رول ادا کیا۔
تھامس ایلوا ایڈیسن کی ماں
تھامس ایلواایڈیسن تاریخ کا عظیم ترین موجد اور سائنس داں ہے۔ اپنی بہت ساری ایجادات میں سے وہ خاص طور پر بلب اور فونو گراف کی ایجاد کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس کی والدہ کے متعلق ایک بہت ہی مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ چھوٹا تھا تو ایک دن اسکول سے آیا اور ایک سر بمہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا کہ استاد نے دیا ہے اور کہا ہے کہ اپنی ماں کو دے دینا۔ ماں نے کھول کر پڑھا، اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور پھر اس نے باآواز بلند پڑھا ’’تمہارا بیٹا ایک جینئس ہے، یہ اسکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے اور یہاں اتنےاچھے استاد نہیں جو اسے پڑھا سکیں۔ سو آپ خود ہی اسے پڑھائیں۔ ‘‘ اس کے بعد اسے پڑھانے کی ذمہ داری والدہ نے لے لی۔ وہ اسے کھیل کود کے ذریعے پڑھاتی تھیں۔ حالانکہ ایڈیسن کے سات بھائی بہن تھے، لیکن ماں ان پر پوری توجہ دیتی۔۔ سالوں بعد جب ایڈیسن ایک مشہور سائنس داں کے طور پر مشہور ہوگئے اور ان کی والدہ کی وفات ہوگئی تو ایک دن وہ پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ رہے تھے تو انہیں وہی خط ملا جو اسکول سے لائے تھے۔ خط کھولا تو اس پر لکھا تھا’’آپ کا بیٹا انتہائی کند ذہن اور ناکارہ ہے، ہم اسے اب مزید اسکول میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘ اس دن ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا: ’’تھامس ایڈیسن ایک ذہنی ناکارہ بچہ تھا پر ایک عظیم ماں نے اسے صدی کا سب سے بڑا سائنسداں بنادیا۔‘‘
یہ طاقت ہوتی ہے ماں کے پیار اور الفاظ کی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور بطور احسن نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!ll