گزشتہ دنوں برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن اور سٹن ٹرسٹ نے نوجوانوں کی نفسیاتی صحت کے حوالے سے ایک سروے کیا جس میں 13 ہزار سے زائد نوعمر افراد سے معلومات حاصل کی گئیں۔ اس سروے کے نتائج نہ صرف حیرت انگیز ہیں بلکہ مغرب کے مستقبل کی پیش بندی بھی کررہے ہیں۔ سروے کے نتائج کے مطابق نصف سے زائد نوعمر لڑکیاں ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ ایک چوتھائی یعنی 25 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے نفسیاتی مسائل کے باعث خود پر تشدد کیا۔ 54 فیصد لڑکیاں شدید نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔ 11 فیصد نے بتایا کہ سالِ گزشتہ انہوں نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔ اس تحقیق میں لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان بھی ایک دلچسپ موازنہ موجود ہے۔ لڑکوں میں خود پر تشدد کی شرح 11 فیصد اور خودکشی کی کوشش کی شرح 5 فیصد ہے، یعنی لڑکیوں کے مقابلے میں نصف ہے۔ تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ خود پر تشدد کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق طبقہ امراء سے تھا۔ اور جن کے والدین کی آمدنی نسبتاً کم ہے اُن میں یہ رجحان بھی کم پایا گیا۔ سٹن ٹرسٹ کے چیئرمین کے مطابق تقریباً 44 فیصد نوجوان اِس وقت شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، جبکہ سال 2017ء میں یہ شرح 35 فیصد اور سال 2007ء میں 23 فیصد تھی۔ سال 2021ء میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق نوعمر لڑکے لڑکیوں میں خود پر تشدد کی شرح میں 6 سال کے عرصے میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔
یہ برطانیہ کی بات ہوئی۔ اب دنیا کی سیاسی قیادت کرنے والے اور سپر پاور ملک امریکہ میں ذہنی صحت کی صورت حال ملاحظہ فرمائیں:
سی این این اور قیصر فیملی فانڈیشن کے اشتراک سے کئے گئے ایک نئے سروے کے مطابق امریکی بالغان کی بھاری اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ امریکہ کو ذہنی صحت کا بحران درپیش ہے۔
سروے کے مطابق ہر 10 میں سے 9 امریکی بالغ افراد کے مطا بق انہیں اس بات پر یقین ہے کہ امریکہ میں آج ذہنی صحت کا بحران ہے ۔
سروے رواں موسم گرما میں 2 ہزار امریکی بالغان کے قومی سطح پر حاصل کردہ نمونوں کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔
سروے میں حصہ لینے والوں کی اکثریت ادویات کے استعمال کی وبا کو بحران سمجھتی ہے، جبکہ نصف سے زائد نے بچوں اور نوعمر افراد میں ذہنی اور بالغان میں شدید ذہنی بیماری کو بحران قرار دیا ہے۔
سٹن ٹرسٹ اور یونیورسٹی کالج لندن کی اس رپورٹ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کیا یہ نفسیاتی مسائل محض کورونا کی وبا کی وجہ سے ہیں، یا ان میں اضافے کی وجہ کورونا ہے؟ لیکن محققین نے اس کو نوجوان نسل میں ایک بڑھتا ہوا رجحان قرار دیا اور محض کورونا اس میں اضافے کی وجہ نہیں بلکہ نوجوان نسل میں خود پر تشدد اور خودکشی کے رجحانات میں اضافے کو شدید تشویشناک قرار دیا ہے۔
دنیا کے دو ترقی یافتہ اور مغربی دنیا کے نمائندہ ممالک کی صورت حال کے بعد اب اپنے ملک ہندوستان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ ہمارے یہاں 2016 میں ہوئے ’نیشنل مینٹل ہیلتھ سروے‘ کے مطابق ہندوستان دنیا میں ذہنی بیماریوں کے لیے ٹاپ ممالک میں شامل ہے اور پوری دنیا کے 15فیصد ذہنی مریض صرف ہندوستان میں ہیں۔ ظاہر ہے اس میں ایک وجہ ہندوستان کی کثیر آبادی بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تعداد آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہے۔ سروے کے مطابق ملک کی آبادی کا 14فیصد حصہ ذہنی صحت کو لے کر علاج و معالجہ کا ضرورت مند ہے اور پوسٹ کووڈ-19 کے حالات میں یہ تناسب 20فیصد ہوگیا ہے۔ یہاں 56 ملین یعنی 5 کروڑ ساٹھ لاکھ افراد مینٹل ڈس آرڈر یا ڈپریشن کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر سال دو لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں اور قارئین جانتے ہیں کہ خود کشی بہ ذات خود ذہنی بیماری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر اس تعداد میں خود کشی کی کوشش کرنے والوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد کافی بڑھ جاتی ہے۔ یہ صورت حال عام سماج کی ہے اور اس سلسلے کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اس معاملے میں خواتین کی اکثریت ہے جس کے اسباب و عوامل پر یہاں بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔
ابھی چند ماہ قبل Deloitte Indiaنامی ادارے نے ایک سروے کیا جو 2021 کے نصف آخر سے شروع ہوکر 2022 کے اوائل تک چلا۔ اس کا موضوع تھا ’مینٹل ہیلتھ اینڈ ویل بیٹنگ ان دی ورکس پلیس‘ اس سروے میں 3995 مردو خواتین کو شامل کیا جو مختلف کمپنیوں میں برسرِ روزگار تھے۔ سروے کے نتائج چونکا دینے والے تھے۔ اس کے مطابق ہندوستان کی 80 فیصد ورک فورس میں مینٹل ہیلتھ اشوز رپورٹ کیے گئے۔ سروے میں اس صورت حال کے سبب، کام کا نقصان اور کمپنیوں کو ہونے والے مالی خسارے کا بھی جائزہ لیا گیا تھا جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ایسا کیوں ہے اس کا قارئین اندازہ لگائیں کہ برسرِ روزگار اور اطمینان بخش تنخواہ پانے والے کمپنیوں کے کارکنان آخر ذہنی امراض کا شکار کیوں ہیں اور وہ بھی اس بڑی تعداد میں۔
اس رپورٹ کا مقصد امریکہ، برطانیہ یا ملک کی صورت حال پر تنقید یا تجزیہ نہیں بلکہ قارئین کو اس صورتِ حال سے آگاہ کرنا ہے جو پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیتی نظر آتی ہے اور جس پر پوری دنیا کے ماہرین سماجیات اور نفسیات گہری تشویش ظاہر کررہے ہیں، تاکہ ہم صورتِ حال سے آگاہ رہیں اور اپنے گھر، خاندان اور قریبی سماج کا تحفظ کرنے کی فکر کرسکیں۔
اس سلسلے میں ایک بات جو یقینی ہے اور جس کا ماہرین سماجیات و نفسیات بھی اقرار کرتے نظر آتے ہیں، یہ ہے کہ موجودہ دور میں، جو حقیقت میں اپنی فطرت کے اعتبار سے مادہ پرستی کا دور ہے، انسانوں کی زندگی میں ایک زبردست روحانی خلاء پایا جاتا ہے۔ اس روحانی خلا کو نہ تو دولت و شہرت پُر کرپارہی ہے، اور نہ زندگی کو میسر عیش و آرام۔ یہاں زندگی کو یا انسانی جسم کو تو سب کچھ میسر ہے، مگر انسانی روح بالکل محروم کردی گئی ہے اور اس کے سکون و اطمینان کا نہ تو کوئی انتظام ہے اور نہ اس کی فکر۔ اس کے بالکل برخلاف اسلام اپنے ماننے والوں کے جسم و روح دونوں کو غذا فراہم کرنے کا انتظام کرتا ہے۔ رشتوں کا احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی اور اس سے ملنے والا قلبی و ذہنی سکون، اللہ کی یاد اور اس پر توکل، انسانی کی خدمت اور اس پر ملنے والے اجر کا وعدہ اور سب سے اہم اس دنیا کے بعد کی زندگی میں کامیابی کا تصور انسانوں کو اس دنیا کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے ایسا بے نیاز کردیتا ہے کہ وہ سب معمولی بن جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کا تصور ایک ایسی مضبوط ذہنی سوچ پیدا کردیتا ہے جس میں کوئی کیفیت بھی سیندھ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اور یہی ذہنی و نفسیاتی صحت کا آئرن ڈوم ہے جو موجودہ تہذیب کے پاس نہیں ہے۔ وہ نہ مشرق میں ہے اور نہ مغرب میں۔ البتہ جو سماج جس قدر روحانی طاقت رکھتے ہیں وہ اسی قدر محفوظ ہیں اور محفوظ رہیں گے۔ll