راستے

نسیم محمد جان

میں جہاں کھڑاتھا، وہاںسے کئی راستے آگے جاتے ہوئے دکھائی پڑ رہے تھے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ کچھ لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ ان کے چہرے پر تجربے کی کھنچی لکیریں ان کی عمر کی چغلی کھا رہی تھیں۔ میں اس جگہ کے لیے نووارد تھا۔ میں نے ان میں سے ایک شخص سے پوچھا:

’’قبلہ ہمیں اس سفید محل تک پہنچنا ہے، جس کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے۔ ہم بہت دور سے آرہے ہیں۔ کیا آپ ہماری مدد کریں گے؟‘‘

’’کیوں نہیں جی! اسی راستے پر آگے چلے جاؤ۔ یہاں سے تقریباً ایک فرلانگ کی دوری پر ایک راستہ دائیں جانب جاتا ہے۔ اسی پر ہولینا۔‘‘

ہم بے حدخوش تھے۔ میں نے ان کی آنکھوں کی طرف دیکھا اور شفقت کے وجود کا قائل ہوگیا۔ ابھی ہم دوچار ہی قدم آگے بڑھے تھے کہ آواز آئی:

’’بھئی میں خود وہاں جانا چاہتا تھا مگر جانے دو اس قصے کو، تم لوگ صحیح راستے پر ہو۔‘‘

ہم آگے بڑھ گئے۔ راستہ صاف ستھرا تھا۔ کنارے کنارے سایہ دار درخت خاموشی سے کھڑے تھے۔ کچھ دور پر ایک عوامی کنواں تھا۔ ہمارے چند ساتھی اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ مجھے اپنے شہر کا نلکا یاد آرہا تھا۔ جو وقت پر کھلتا ہے اور وقت پر بند ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے چند سال یا چند دہائیوں بعد تو ہم سب کو پیاس بھی وقت ہی پر محسوس ہونے لگے۔ اب مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہم صحیح راستے پر ہیں۔ میں نے اپنے ہم سفروں کی طرف دیکھا، وہ سب مسکرا رہے تھے۔

’’اب ہم لوگ پہنچ جائیں گے۔‘‘

’’ہاں مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔‘‘

’’دیکھو وہی راستہ دائیں جانب جارہا ہے۔‘‘

ہم سب دائیں جانب والے راستے پر مڑچکے تھے۔ کچھ لوگ بائیں جانب والے راستے پر نظر آرہے تھے۔ خیال ہوا کیوں نہ ان لوگوں کو غلط راستے پر جانے سے روک دیا جائے۔

’’اجی اپنی خبر لو، یہ بائیں جانب والا راستہ ہی سفید محل تک جاتا ہے۔‘‘

اور ہم میں سے چار کی کمی ہوگئی۔ یہ راستہ جس پر اب ہم لوگ مصروف سفر تھے۔ ایک ہری بھری جھیل کے کنارے کنارے جارہا تھا۔ ہمارا ایک ساتھی یکایک چیخنے لگا:

’’رکتے کیوں نہیں۔ یہ جھیل کتنی خوبصورت ہے۔ یہ مسکراتے ہوئے کنول کیوں تمہیں اچھے نہیں لگتے۔ کس مٹی کے بنے ہو؟‘‘

میں نے نظر بھر کر جھیل کو دیکھا اور اس کی مقناطیسی مسکراہٹ سے لطف اندوز ہونے لگا مگر دوسرے لمحے ہوش آیا، ہماری منزل تو یہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ جھیل کے اندر اس طرح اچھل رہے تھے ، جیسے اسی جھیل کے کیڑے ہوں۔ اب مجھے ساری جھیل ایک فریب معلوم ہونے لگی۔ ریشمی دھاگوں کا جال۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو منع کیا مگر ان میں سے چند نے میری بات نہیں مانی اور قافلے سے دوچار کی پھر کمی ہوگئی۔ ہم کچھ دور اور آگے بڑھے تو پتہ چلا۔ یہ راستہ یہیں ختم ہوجاتا ہے۔ آگے گہری کھائی تھی۔ کھائی کے اوپر کا پل ٹوٹا ہوا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا ہر ایک کو یہ یقین ہوگیا کہ ہمارے ساتھ پھر دھوکا ہوا ہے۔ ہم لوٹ کر اس بائیں جانب والے راستے پر جانا چاہتے تھے۔ ہم سب واپس ہوئے۔ ہم نے ان ساتھیوں کو بھی ڈھونڈا مگر وہ نہ مل پائے۔ وہ لوگ اب اس جھیل کا ایک جز بن گئے تھے۔

اب ہم دوسرے راستے یعنی بائیں جانب جارہے تھے۔ یہ راستہ کچھ دشوار تھا۔ سڑک پر پڑے ہوئے پتھروں کے ٹکڑوں کو شاید نمی کی تلاش تھی۔ یہ ہمارے تلوؤں میں بری طرح چبھ رہے تھے۔ آس پاس کی سبھی پہاڑیاں بالکل ننگی کھڑی تھیں جیسے جنم جنم کی پیاسی ہوں، سبزے کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ ٹھکاوٹ کے احساس نے ہمارے قدموںکو بو جھل کردیا تھا۔ یکایک ایک ہم سفر کو نہ جانے کیا ہوگیا، وہ آگے جانے سے انکار کررہا تھا۔ وہ بار بار ہمیں یقین دلارہا تھا کہ پہاڑیاں مخملی گھاس سے ڈھکی ہیں۔ سفید محل یہی ہے۔ یہیں ٹھہر جاؤ۔ مجھے غصہ آرہا تھا۔ میں نے فوراً پوچھا:

’’تمہیں پیاس لگ رہی ہے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تم بھوک محسوس کررہے ہو؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’کیا تمہیں سفر کی تکان کا احساس ہے؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

اب میرے سوالوں کا بیگ خالی ہوچکا تھا۔ ہم سب آگے بڑھنے کے سوا اور کیا کرسکتے تھے۔ وہ وہیں ٹھہر گیا۔ ابھی ہم دو چار کیلومیٹر ہی گئے تھے کہ ایک بزرگ سے ملاقات ہوگئی۔ ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی کشش تھی، وہ مسکرا رہے تھے۔

’’تم لوگ نووارد معلوم ہوتے ہو۔‘‘

’’ہاں‘‘

’’تمہیں سفید محل جانا ہے نا!‘‘

’’جی ہاں، ہم سب وہیں جارہے ہیں۔‘‘

’’میں وہاں کئی بار جاچکا ہوں۔‘‘

’’ہاں…؟‘‘

’’ہاں… چلو میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔‘‘

ہم سب بے حد خوش ہوگئے۔ سورج بالکل سر پر مسکرا رہا تھا۔ دھوپ کی تمازت نے برا حال کردیا تھا۔ حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔

’’پیاس لگی ہے بابا!‘‘

’’چلو میں تمہیں پانی پلاتا ہوں۔ بس یہاں سے ایک کیلومیٹر کی دوری پر صاف شفاف چشمہ ہے۔‘‘

ہم جلد سے جلد اس چشمے تک پہنچ جانے کی کوشش کررہے تھے۔ عجیب وغریب ٹیڑھے میڑھے راستوں پر مسلسل چلتے رہنے کے بعد یہ خوش خبری ملی۔

’’بس اس سایہ دار پیڑ کے نیچے۔‘‘

میں نے اس پیڑ کو غور سے دیکھا اور پھر تعجب سے بابا کی شکل دیکھنے لگا۔ اس پیڑ میں ایک بھی پتہ نہیں تھا۔ صرف جھلسی ہوئی سیاہ سیاہ شاخیں۔ اب ہم لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔ مجھے بے حد غصہ آرہا تھا۔ وہاں صرف ایک گڈھا تھا، جس کا پانی تقریباً خشک ہوچکا تھا۔ سوائے سرخ سرخ کیچڑ کے وہاں کچھ نہ تھا۔ حلق کے کانٹے بغاوت پر تلے تھے۔ مگر میں نے طے کیا ایسا پانی میں ہرگز نہیں پی سکتا۔

سب پر بابا کا رعب غالب تھا۔ میں نے اپنے پاس کھڑے ساتھی کے کان میں اپنی بات کہی۔ اس نے دوسروں تک پہنچادی۔ مگر کچھ لوگ آنکھیں بند کیے اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ ہم میں سے جن کی آنکھیں کھلی تھیں حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اور خاموشی سے الگ ہوکر ایک دوسرے راستے پر چل پڑے۔ یہ راستہ آگے جاکر کچھ کشادہ ہوگیا۔ ایک شخص راستے پر کھڑا تھا۔ آگے جانے سے روک رہا تھا۔ بار بار کہہ رہا تھا یہی راستہ سفید محل تک جاتا ہے۔ مگر بغیر کپڑوں سے آزادی حاصل کیے یہاں سے آگے نہیں بڑھ سکتے، ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہمیں سفید محل کی خوبیاں معلوم تھیں۔ سڑک کی ایک طرف میدان میں بہت سارے لباس پھینکے پڑے تھے۔ خیال ہوا یہ سارے کپڑے شاید ان لوگوں کے ہیں، جو ہم سے پہلے منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ اب ہم کپڑوں سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ کچھ دور جاکر یہ راستہ ایک میدان میں ختم ہوجاتا تھا۔ یہاں ایک بھیڑ تھی۔ ہر شخص کا چہرہ نوروانی ہورہا تھا جیسے اندر سے بھرپور سکون اور مکمل اطمینان جھانک رہا ہو۔ ہم جب ان کے قریب پہنچے، توایک آدمی ایک سمت اشارہ کرنے لگا۔ وہاں ایک بزرگ آنکھیں بند کیے عبادت میں مشغول تھے۔

’’حضور ہمیں سفید محل جانا ہے، راستہ نہیں ملتا؟‘‘

’’کیوں نہیں ملتا؟‘‘

’’بس ہم اتنا جانتے ہیں کہ نہیں ملتا۔‘‘

’’تم اپنی آنکھیں بند کرو۔‘‘

میرے کچھ ساتھیوں نے اپنی اپنی آنکھیں بند کرلیں، یکایک ان کے چہرے روشن ہوگئے، وہ دیوانوں کی طرح چیخنے لگے۔

’’ہم سفید محل تک پہنچ گئے۔‘‘

’’ہم سفید محل میں ہیں۔‘‘

میں اور میرے وہ ساتھی جن کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ یکایک انہیں کیا ہوگیا۔ مگر ان کے روشن چہروں سے انکار ممکن نہیں تھا۔ بزرگ اب مسکرارہے تھے۔

’’مل گئی ! تمہاری منزل۔‘‘

’’ہاں، ہاں— نہیں نہیں۔‘‘

’’کیا نہیں کہنے والوں نے میرے حکم کی تعمیل نہیں کی۔‘‘

’’کیا مطلب —؟‘‘

’’کیا تم لوگوں نے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’اب تمہیں کبھی اپنی منزل نہیں مل پائے گی۔ تمہارے لیے یہ سفید محل نہیں ہے۔ تم لوگ اب واپس جاسکتے ہو۔ لوٹ جاؤ۔‘‘

’’مگر ہم بہت طویل راستے طے کرکے یہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘

’’بھٹکتے رہنا اب تمہاری قسمت بن چکی ہے۔ واپس جاؤ، اب تو تم وہاں بھی نہیں پہنچ سکتے، جہاں سے چلے تھے۔ اور تم لوگ اپنا کچھ بھی یہاں سے واپس نہیں لے جاسکتے۔‘‘

میں نے اپنے ان ساتھیوں کی طرف دیکھا، جن کی آنکھیں بند تھیں۔ ان کے چہرے روشن ہوگئے تھے۔ وہ اب اس میدان کی بھیڑ کے ایک جزو بن چکے تھے۔ میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بوجھل قدموں کے ساتھ واپس آرہا تھا۔ ہمارے پا س جو سب سے قیمتی شے تھی وہ بھی لٹ چکی تھی۔ ہمارے سامنے ایک لق دق ریگستان منہ پھاڑے کھڑا تھا۔ میں اس اژدہے کی جسامت دیکھ کر کانپ گیا، سوچ رہا تھا کاش میری آنکھیں بند ہوسکتیں۔ اس وقت!ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں