گذشتہ رات گھرمیں دعوت تھی۔ اب صبح کے وقت پورا گھر میدانِ کار زار کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ جگہ جگہ خالی پلٹیں، گلاس، ٹشو پیپر اور مونگ پھلی کے چھلکے پھیلے ہوئے تھے۔سارہ اپنی ماسی سکینہ کے ساتھ مل کر برتنوں سے نبردآزمائی میں مصروف تھی۔ سکینہ نے میز پر سے پھلوں کے چھلکے اٹھا کر پھینکے‘ تو کیلے کا ایک چھلکا سارہ کے پائوں پر آ گرا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا، تو صحیح سالم کیلا تھا۔
سارہ نے حیران ہو کر پوچھا ’’تو نے ثابت کیلا کیوں پھینک دیا؟‘‘ ’’باجی گلا ہوا تھا…‘‘ اْس نے بے پروائی سے جواب دیا۔ سارہ نے دیکھا، کیلا ایک طرف سے ذرا سا نرم ہو رہا تھا۔ اس نے اْسی وقت چھیل کر کھا لیا اور آہستہ سے بڑبڑائی ’’۸۰روپے درجن کے کیلوں کے ساتھ یہ سلوک۔ اْف توبہ…‘‘
آدھے برتن دھونے کے بعد سکینہ نے بریانی کے دیگچے کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے ’’بھوک‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ سارہ نے اسے بریانی، مرغ کڑاہی، روغنی نان اور پھل ٹرے میں سجا کر دیے۔ سب چیزوں سے اچھی طرح انصاف کرنے کے بعد جب وہ ٹرے سنک میں رکھنے آئی‘ تو یہ دیکھ کر سارہ کا دماغ بری طرح گھوم گیا کہ بریانی کی آدھی پلیٹ چھوڑ دی گئی تھی۔
سالن بھی کافی مقدار میں بچا ہوا تھا اور اس میں نان کے ٹکڑے تیر رہے تھے۔ پلیٹ میں لتھڑی سویٹ ڈش بھی بے قدری کی داستان سنا رہی تھی۔ سارہ بے اختیار چیخ پڑی! ’’اتنا کھانا پلیٹوں میں کیوں بچایا؟ تجھے ہزار مرتبہ کہہ چکی ہوں کہ جتنا کھانا چاہیے‘ الگ برتن میں نکال لیا کر۔ میرے گھر کا رزق کوڑے میں نہیں جائے گا۔ میرے میاں کی حق حلال کی کمائی اتنی فالتو نہیں کہ اٹھا کر کوڑے میں ڈال دوں۔‘‘
اس مرتبہ بھی ماسی شان بے نیازی سے گویا ہوئی ’’باجی! لوگ تو شاپر بھر بھر کر سالن اور گوندھا ہوا آٹا کوڑے کے ڈھیر پر پھینکتے ہیں۔ اگر میں نے تھوڑا سا کھانا پھینک دیا‘ تو کون سی قیامت آ گئی۔‘‘ ماسی کے خیالات سن کر سارہ نے اپنا سر پکڑ لیااور دکھ سے سوچا، ہمارے آقائے دو جہاںؐ نے تمام عمر رزق کی کیسی مثالی قدر کی کہ دستر خوان پر گرے ٹکڑے تک چن چن کر کھائے اور انگلیوں پر لگے ہوئے ذرات تک کو چاٹ لیا۔ آج آپؐکی امت کے خوشحال لوگوں کا تو کہنا ہی کیا،مفلس اور بدحال لوگ بھی رزق کو پیروں تلے روند رہے ہیں۔
’’کیسے بدتمیز اور نافرمان ہیں یہ… ’’مگر میری بیٹی بھی تو کبھی کبھی کھانا بچا دیتی ہے۔‘‘ اگلے ہی لمحے اس کے ضمیر نے سوال کیا۔ یہ تو ان پڑھ اور جاہل ہے۔ اس نے کون سی حدیث کی کتابیں پڑھی ہیں جو اسے اللہ اور رسولؐ کے احکامات کے بارے میں معلومات ہوں؟ قیامت کے روز ماتحتوں کے بارے میں مالکوں سے پرسش ہو گی‘ تو میں نے کب اسے تعلیم دی یا کوئی اچھی بات مدلل طریقے سے بتائی ہے جو اس کی کم علمی پر سیخ پا ہو رہی ہوں… یہ سوچ کر اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اس نے پھر آج اپنا فرض ادا کرنے کا فیصلہ کیا جیسا کہ پیارے نبیؐ کا فرمان ہے: ’’پہنچاتے رہو میری طرف سے خواہ تھوڑی سی بات۔‘‘
’’چل اندر آ کر بیٹھ، میں تجھے کھانے کے آداب کے بارے میں بتائوں۔‘‘
ماسی سکینہ بھی خوشی خوشی ٹھنڈے کمرے میں سکون کا سانس لینے آ گئی۔ سارہ نرمی سے گویا ہوئی ’’قرآن مجید کی سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ’’کھائو اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔‘‘
اس آیت میں کھانے پینے کی اجازت کے بعد ’لاتسرفو‘ یعنی ضرورت سے زیادہ استعمال کر کے برباد نہ کرنے کی شرط لگائی ہے اور یہی اللہ کا حکم ہے۔
’’برتن میں کھانے کا کوئی حصہ رہ جائے، تو اس کو انگلی سے چاٹ کر صاف کر دینا چاہیے۔ اس کی بڑی فضیلت ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایسے شخص کے لیے برتن استغفار کرتا اور کہتا ہے کہ تجھے اللہ تعالیٰ اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح تو نے مجھے شیطان سے محفوظ رکھا۔‘‘ (احمد و ترمذی)
سکینہ دلچسپی سے ہمہ تن گوش تھی۔ سارہ نے مزید بات آگے بڑھائی: ’’ مشہور محدث، ہدیہ بن خالد کو خلیفہ مامون الرشید نے کھانے کی دعوت دی۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ ٹکڑے جو دسترخوان پر پڑے ہوئے تھے، محدث اٹھا اٹھا کر کھانے لگے۔ مامون نے حیران ہو کر کہا ’’اے شیخ! کیا آپ ابھی سیر نہیں ہوئے؟‘‘
’’انھوں نے فرمایا‘ میں سیر ہو چکا۔ لیکن مجھ سے حمادؒ نے ایک حدیث بیان فرمائی ہے کہ جو شخص دسترخوان پر گرے ہوئے ٹکڑے چن کر کھائے‘ وہ مفلسی اور فاقہ سے بے خوف ہوجائے گا۔ میں اسی حدیث پر عمل کر رہا ہوں۔‘‘ ’’یہ سن کر مامون بے حد متاثر ہوا۔ اس نے خادم کو اشارہ کیا کہ وہ ایک ہزار دینار رومال میں باندھ کر لائے۔ مامون نے یہ ہدیہ بن خالدؒکی خدمت میں پیش کر دیا۔ ہدیہ نے فرمایا ’’یہ اس حدیث پر عمل کی برکت ہے۔‘‘
’’اسی طرح حضرت جابرؓ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے ہوئے خود سنا ’’تمھارے ہر کام یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی شیطان تم میں سے ہر ایک کے ساتھ رہتا ہے۔ لہٰذا جب کھانا کھاتے وقت کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے، تو اسے چاہیے کہ اس کو صا ف کر کے کھا لے اور شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ پھر جب کھانے سے فارغ ہو، تو اپنی انگلیوں کو بھی چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ کھانے کے کس حصے میں خاص برکت ہے۔(صحیح مسلم)
’’بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کھاتے ہوئے کوئی چیز گر جائے، تو اس کو اٹھا کر کھا لینے سے محتاجی، برص اور کوڑھ کی بیماری سے حفاظت رہتی ہے۔ اولاد حماقت سے محفوظ رہتی ہے اور عافیت عطا کی جاتی ہے۔(مدارج النبوۃ)
’’لہٰذا اگر کھاتے وقت کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے، تو اسے متکبر لوگوں کی طرح نہ چھوڑو بلکہ ضرورت مند اور قدر دان بندے کی طرح اٹھا لو۔ اگر نیچے گرنے کی وجہ سے اس پر مٹی لگ جائے‘ تو صاف کر کے لقمہ کھا لو۔ کھانے کے وقت بھی شیطان ساتھ ہوتا ہے۔ اگر گرا ہوا لقمہ چھوڑ دیا جائے، تو وہ شیطان کے حصے میں آئے گا۔‘‘
سکینہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ کہنے لگی ’’باجی! یہ باتیں تو مجھے معلوم نہیں تھیں۔‘‘ سارہ نے لوہا گرم دیکھ کر مزید چوٹ لگائی ’’ایک اور نصیحت آموز اور حیرت انگیز قصہ بیان کیا۔ ’’بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک زمیندار کی فصل ہر سال بہت اچھی ہوتی۔ وہ بڑا خدا ترس تھا۔ اس فصل میں سے غریبوں اور محتاجوں کا برابر حصہ نکالتا۔
مگر پھر بھی دل میں ڈر رہتا کہ نجانے میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس بے حساب رزق میں سے پوری طرح فائدہ پہنچاتا بھی ہوں یا نہیں! کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اللہ کی پکڑ میں آ جائوں۔ وہ شخص ایک بزرگ کے پاس گیا اور عرض کیا کہ میں اپنی فصل کا حساب کرتے کرتے اور سنبھالتے سنبھالتے تھک جاتا ہوں۔ ہر وقت فکرمند رہتا ہوں کہ ایسا نہ ہو غریبوں کا حق ادا نہیں کر سکوں۔ آپ کوئی ایسی ترکیب بتا دیں جس سے میری فصل کی پیداوار کم ہو جائے۔
’’بزرگ بولے‘ اس مرتبہ ایسا کرو کہ مکئی کی ایک روٹی پکوائو۔ جب وہ ٹھنڈی ہو جائے، تو اپنی زمین پر جائو اورچلتے چلتے گھوڑے پر بیٹھ کر یہ روٹی کھانا۔ ’’اگلے سال وہ آدمی بزرگ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا اور بولا کہ حضرت اس مرتبہ تو میری فصل پہلے سے بھی زیادہ ہوئی ہے۔ بزرگ نے پوچھا، میں نے تمھیں جو عمل بتایا تھا وہ تم نے کس طرح کیا؟ اس نے کہا، حضرت! میں نے مکئی کی روٹی گھوڑے پر بیٹھ کر کھانی شروع کی۔
جب روٹی کا کوئی ٹکڑا نیچے گرتا، میں گھوڑا روک کر اْترتا اور اْسے اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا۔ آگے چلتا۔ پھر کوئی ٹکڑا گرتا، میں پھر اتر کر اسے اٹھا کرکھاتا اور پھر آگے بڑھتا۔ اس طرح میں نے بڑی دیر بعد وہ روٹی ختم کی۔ ’’بزرگ نے فرمایا، تو اللہ کے رزق کی اتنی قدر کرتا ہے۔ اللہ تیرا رزق کم کر ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’اس قصے سے یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کی نعمتوں کی قدر دانی اور عزت کرنے سے ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ بے قدری و پامالی کرنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور ان میں کمی آتی ہے۔ اگر ہم کسی کا دیا تحفہ فالتو سمجھ کر کوڑے میں پھینک دیں، تو وہ آئندہ ساری زندگی ہمیں کبھی دوبارہ تحفہ نہیں دے گا۔ مگر اللہ تو ایسا غفور الرحیم ہے کہ ہم روزانہ اپنے گھر کے بچے ہوئے سالن، روٹی اور دوسرا رزق بیکار سمجھ کر کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔ وہ پھر بھی اگلے دن اسی طرح بے شمار اور مزیدار نعمتیں عطا کر دیتا ہے اور ہم سے کچھ بھی چھینتا نہیں۔‘‘
’’بات ختم ہوتے ہی سکینہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کا چہرہ بدلتے خیالات کی گواہی دے رہا تھا۔ وہ احساس شرمندگی سے چور لہجے میں بولی: ’’ہاہ! باجی، مجھے تو ان باتوں کا پتا ہی نہیں تھا۔ نہ مجھے خود پڑھنا آتا ہے نہ کسی نے کبھی رسول اللہؐکی پیاری باتیں پڑھ کر سنائیں۔ ہم جاہل لوگ تو آپؐ کی کسی سنت پر عمل نہیں کرتے۔ الٹا رزق کی بہت ناقدری کرتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہم ساری عمر فاقہ کشی ہی میں مبتلا رہتے ہیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے، آج آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اب تو یہ سب باتیں میں اپنے بچوں اور سارے خاندان والوں کو بھی بتائوں گی۔‘‘
وہ پھر توبہ توبہ کرتی ہوئی اٹھ کر کام میں لگ گئی۔ اور سارہ یہ سوچ کر کہ اس نے محبوبؐخدا کی ایک امتی کو گمراہی سے بچا لیا، دل ہی دل میں مسکرانے لگی۔