رسول اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پرائیویٹ اور پبلک، دو حصوں میں منقسم نہیں تھی۔ آپ جیسے گھر سے باہر نظر آتے تھے، ویسے ہی گھر کے اندر بھی تھے۔ آپ کی گھریلو اور بیرونی، دونوں زندگیوں میں حد درجہ مطابقت تھی۔ آپ کی نجی اور گھریلو زندگی ایک کھلی کتاب کے مثل تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ صرف یہ کہ کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ گھر والوں، خادموں اور قریبی لوگوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ آپ کو جس حال میں بھی دیکھیں اور جو کچھ کرتے یا کہتے ہوئے پائیں اسے بغیر کسی ادنیٰ تامل کے دوسروں سے بیان کرسکتے ہیں۔
کسی بھی فرد کی اندرونِ خانہ زندگی اس کی شخصیت کی بہترین عکاس ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ باہر کی زندگی میں، جب وہ دوسرے انسانوں کے روبرو ہوتا ہے، تقدس کا لبادہ اوڑھ لیتا ہو اور اپنی اصل شخصیت سے مختلف صورت میں خود کو ظاہر کرتا ہو، لیکن وہ اپنے گھر والوں کو اندھیرے میں رکھنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس کی تمام خوبیاں اور خامیاں ان کی نگاہوں کے سامنے رہتی ہیں۔ اس لیے کہ فرد کی عظمت کو جانچنے اور پرکھنے کی بہترین کسوٹی اس کی اندرونِ خانہ مصروفیات ہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ وہ دوسروں کو جس تقویٰ، دین داری اور پرہیزگاری کی تبلیغ کر رہا ہے، اس پر وہ خود کتنا عمل کر رہا ہے اور اپنے بیوی بچوں سے کتنا عمل کروا رہا ہے؟ جس دین کی اقامت کا وہ علم بردار بنا ہوا ہے، اس کو اپنے گھر میں کس حد تک قائم کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے؟ جس سادگی و قناعت، ایثار و قربانی اور خلوص و للہیت کے فضائل وہ دوسروں کے سامنے بیان کر رہا ہے، اس کی جھلک اس کی اپنی گھریلو زندگی میں کس حد تک نظر آتی ہے؟ اس کسوٹی پر ہم رسول اللہؐ کی حیاتِ طیبہ کو پرکھیں تو وہ عظمت کے انتہائی اعلیٰ معیار پر نظر آتی ہے۔ بیویاں عموماً شوہروں کے رازوں کی امین ہوتی ہیں۔ وہ ان کی کمزوریوں کو چھپاتی اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالتی ہیں، لیکن ازواجِ مطہرات کا حال یہ تھاکہ انہوں نے رسول اللہؐ کی اجازت سے آپ کی خلوت کے ایک ایک معاملہ کو محفوظ رکھا اور پوری سچائی اورامانت و دیانت کے ساتھ اسے امت تک منتقل کیا ہے۔ اس طرح آپؐ کی اندرونِ خانہ زندگی بھی اپنی تمام تفصیلات و جزئیات کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ ہم جس طرح مستند معلومات کی روشنی میں یہ جانتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ گھر سے باہر جب صحابۂ کرامؓ کے ساتھ ہوتے تھے تو کیا سرگرمیاں انجام دیتے تھے؟ اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب آپ دوسرے انسانوں کی نگاہوں سے دور خلوت کدوں میں اپنی ازواجِ مطہرات اور بچوں کے درمیان ہوتے تھے تو آپ کا رہن سہن کس طرح کا ہوتا تھا؟ اور آپ کیا کرتے تھے؟ اس طرح ہم آپؐ کی جلوت کی زندگی کی طرح خلوت کی زندگی کو بھی اپنے لیے نمونہ بنا سکتے ہیں۔
’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کاہلی، بڑھاپے، گناہ اور قرض سے۔ قبر کی آزمائش اور قبر کے عذاب سے، جہنم کی آزمائش اور جہنم کے عذاب سے، مال داری کی بری آزمائش سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں فقر کی آزمائش سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے، اے اللہ! میری خطاؤں کو برف اور اولے کے پانی سے دھودے، میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح صاف کردے جیسے تونے سفید کپڑے کا میل کچیل صاف کر دیا۔ میری خطاؤں اور میرے درمیان اتنی دوری کردے جتنی مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔‘‘
آں حضرتﷺ کی بہت سی دعائیں ام المومنین حضرت عائشہؓ اور آپؐ کے خادمِ خاص حضرت انسؓ سے مروی ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ ان دعاؤں کا اہتمام گھر میں کثرت سے فرماتے تھے۔
گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا
کارِ دعوت کی بے شمار مصروفیات کے باوجود آں حضرتؐ گھر کے چھوٹے بڑے کاموں کے لیے وقت نکال لیتے تھے اور ان کی انجام دہی میں اہل خانہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کے شاگرد اسود بن زیدؒ نے ایک مرتبہ ان سے دریافت کیا:
’’نبیؐ جب گھر میں ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟‘‘ حضرت عائشہؓ نے مجمل انداز میں جواب دیا:
’’آپؐ اپنے گھر والوں کے کاموں میں مصروف ہوتے تھے، لیکن جوں ہی اذان سنتے فوراً نماز کے لیے گھر سے نکل جاتے تھے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ اس سوال کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا:
’’آپؐ بھی دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے، اپنے کپڑوں سے جوں نکالتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے اور گھر کے دوسرے کام انجام دیتے تھے۔‘‘
بیوی بچوں کی دل داری
آں حضرتؐ گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بھی خاصا وقت گزارتے تھے۔ آپؐ ان کے ساتھ نرمی اور ملائمت سے پیش آتے، خوش طبعی اور ہنسی مذاق کرتے اور ان کے ساتھ محبت و اکرام کا معاملہ فرماتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہو اور گھر والوں کے ساتھ معاملے کے تعلق سے میں تم میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘
ایک مرتبہ مسجد نبوی کے صحن میں کچھ حبشی لوگ نیزوں کے ذریعے کرتب دکھا رہے تھے۔ حضرت عائشہؓ کو وہ کھیل دیکھنے کی خواہش ہوئی۔ آپؐ نے انہیں اوٹ میں کرکے پورا کھیل دکھایا اور جب تک وہ خود اکتا کر چلی نہیں گئیں، آپؐ مستقل کھڑے رہے۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے آپ کو گیارہ عورتوں کا قصہ سنایا۔ اس قصے میں ہر عورت اپنے شوہر کی خوبیاں اور خامیاں بیان کرتی ہے۔ گیارہویں عورت، جس کا نام ام زرع تھا، اپنے شوہر کی تعریفوں کے پل باندھتی ہے۔ آں حضرتؐ پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ یہ طویل قصہ ام المومنین کی زبانی سنتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں:
’’میں تمہارے لیے اسی طرح ہوں، جس طرح ام زرع کے لیے ابوزرع تھا۔‘‘
اسی طرح آپ بچوں کو پیار کرتے، ان کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آتے، ہنسی مذاق کرتے، ان کے ساتھ کھیلتے اور انھیں گود میں لے کر بوسہ دیتے تھے۔
آپ اپنے چچا عباس بن عبد المطلبؓ کے بچوں عبد اللہ، عیبداللہ اور کثیر کو ایک قطار میں کھڑا کرتے اور فرماتے: ’’جو میرے پاس سب سے پہلے دوڑ کر آئے گا اسے فلاں فلاں چیز دوں گا۔‘‘ وہ سب دوڑ کر آتے، کوئی پیٹھ پر گرتا تو کوئی سینے پر اور آپ ان سب کو بوسہ دیتے۔‘‘
سیدہ فاطمہؓ آپ سے ملاقات کے لیے خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپؐ کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے، ان کو بوسہ دیتے اور انھیں اپنی جگہ بٹھاتے۔ ان کے بچوں حضرت حسنؓ و حسینؓ بڑی صاحب زادی حضرت زینبؓ کی بچی امامہؓ، آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کے بچے اسامہؓ اور دوسرے بچوں کے ساتھ آپؐ کے پیار و محبت کے واقعات کثرت سے کتب احادیث میں مروی ہیں۔
اہلِ خانہ کی تربیت
آں حضرتؐ گھر میں بیوی بچوں کے دینی و اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ خود نوافل و تہجد کا اہتمام فرماتے تو بسا اوقات اہل خانہ کو بیدار کرکے اپنے ساتھ شریک کرلیتے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: ’’نبیؐ نماز پڑھتے تھے، میں آپ کے بستر پر سوئی ہوتی تھی۔ آخر میں جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بیدار کرتے اور میں بھی وِتر پڑھ لیا کرتی تھی۔‘‘
حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں: ’’ایک رات نبیؐ بیدا رہوئے۔ اس موقعے پر آپؐ نے ازواجِ مطہرات کو بھی بیدار کرنے کے مقصد سے زور زور سے فرمایا: ’’پاک ہے اللہ کی ذات، آج رات کتنے فتنے نازل ہوئے ہیں اور رحمت الٰہی کے کتنے خزانے اترے ہیں؟ کوئی ہے جو ان کمروں والیوں کو جگا دے؟ کتنی عورتیں ہیں جو اس دنیا میں لباس و زیورات سے آراستہ ہیں، لیکن آخرت میں وہ عریاں ہوں گی۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ایک رات میں اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ بنت الحارثؓ کے پاس ٹھہر گیا۔ اس رات رسول اللہؐ کی باری ان کے یہاں تھی۔ آپؐ رات میں اٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے سوچا کہ میں بھی آپؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاؤں۔ چناں چہ میں جاکر آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ آپؐ نے میرے بال پکڑے اور مجھے کھینچ کر اپنی دائیں جانب کرلیا۔
گھر میں بیوی بچوں کے درمیان مختلف طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر کبھی کوئی بات آپ ناشائستہ یا غیر معیاری محسوس کرتے تھے تو فوراً ٹوک دیتے تھے اور بیوی بچوں کی محبت اظہار حق میں مانع نہ ہوتی تھی۔
ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپؐ دوسری ازواج کی موجودگی میں ان کا تذکرہ کثرت سے اور بڑی محبت سے کرتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضرت عائشہؓ کو اس پر کچھ ناگواری ہوتی۔ ایک موقعے پر انہوں نے اس کا اظہار کردیا۔ کہنے لگیں: ’’کیا آپ اس بڑھیا کو بار بار یاد کرنے لگتے ہیں، جب کہ اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیویوں سے نوازا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا:
اِنِّیْ قَدْ رُزِقْتُ حُبُّھَا ’’ان کی محبت میرے اندر رچ بس گئی ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے اس موقعے پر حضرت خدیجہؓ کے احسانات یاد کیے اور مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی سے مجھے اولاد عطا کیں۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے سامنے دوسری ام المومنین حضرت صفیہؓ کا تذکرہ ہونے لگا۔ حضرت صفیہؓ پست قد تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے تعریض کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے کہا: ’’وہ تو بس اس قدر ہیں؟ آں حضرتﷺ کے روئے انور پر ناگواری کے اثرات ظاہر ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’تم نے ایسی بات کہہ دی ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو اس کا پانی بھی کڑوا ہوجائے۔‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ایک بار میں نے آں حضرتﷺ کے سامنے ایک شخص کی نقل اتاری تو آپؐ نے فرمایا:’’مجھے چاہے جتنی بڑی دولت حاصل ہوجائے، پھر بھی کسی شخص کی نقل اتارنے سے مجھے خوشی نہیں ہوگی۔‘‘
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے لڑکے عمر (جوان کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہؓ سے تھے۔ آں حضرت کی پرورش میں تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کی موجودگی میں کھانا کھا رہا تھا۔ میرا ہاتھ لقمہ اٹھاتے وقت پلیٹ میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، آپؐ نے مجھے ٹوکا اور فرمایا:
’’لڑکے، اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔‘‘