رسول پاکﷺ اور رمضان المبارک

زینب حسین غزالی

مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بہترین نعمتیں ملی ہیں، ان میں سے ایک عظیم نعمت رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہے۔ یہ مہینہ خیر و برکت اور اللہ کی رحمتوں کا خزانہ لیے ہوئے ہر سال ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے اور بخشش و مغفرت کے طلب گاروں کو دنیا بھر میں رحمت کا خزانہ تقسیم کرتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جو ہم سب کے لیے اسوہ، آئیڈیل اور نمونہ ہیں، عملی طور پر اس ماہِ مبارک کو جس طرح گزار کر دکھایا ہے وہی مبارک طریقہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے اور اسی پر ان سارے فضائل کا ایک مسلمان مستحق ہوسکتا ہے، جن سے احادیث کا ذخیرہ بھرا پڑا ہے۔

آئیے! ذرا ہم بھی دیکھیں کہ رسول کریمؐ اس ماہِ مبارک کو کس ذوق و شوق سے گزارتے تھے؟

اہمیت اور تیاری

اللہ کے رسولﷺ کے نزدیک رمضان المبارک کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ آپؐ دو مہینے پہلے سے اس کے لیے تیاریاں شروع کر دیتے تھے:

٭ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تھا تو آپ کا جذبہ شوق بڑھ جاتا تھا۔ اللہ سے دعائیں شروع کردیتے تھے کہ ’’اے اللہ! ہمین رمضان المبارک تک زندہ رکھ۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوجاتا تو آپؐ یہ دعا پڑھا کرتے: ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لیے برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔‘‘ (طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد)

٭ رمضان کے چاند کی رویت میں کہیں غیر یقینی پن نہ ہونے پائے، اس لیے شعبان کے چاند دیکھنے کے لیے خاص اہتمام کرتے تھے اور لوگوں میں بھی اعلان کردیتے تھے کہ: ’’رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کی بھی خوب چھان بین کی جائے؟‘‘ (ترمذی)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ شعبان کے مہینے میں (دنوں کے گننے کا) جتنا اہتمام کیا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے مہینے میں نہیں کرتے تھے۔ (ابوداؤد)

٭ رسول اللہ رمضان کے استقبال، اس کی آمد پر اپنی خوشی کے اظہار اور قبل از وقت اس کی تیاری کے لیے شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے بھی رکھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں:

’’(رمضان کے علاوہ) میں نے شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں اللہ کے رسولؐ کو کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ (بخاری، مسلم)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ خوشی کے اس موقع پر ’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوجاتا تو آپؐ ہر قیدی کو آزاد کرتے تھے اور ہر سائل (مانگنے والے) کو اپنے جود و کرم سے نوازتے تھے۔‘‘ (شعب الایمان، للبیہقی)

٭ شعبان کے مہینے میں اور خاص طو رپر اس کی آخری رات میں اور رمضان کے شروع کے دنوں میں اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے رمضان کی اہمیت پر خطبے ارشاد فرماتے، اس کے فضائل بیان کرتے اور اس رحمت والے مہینے کی قدر کرنے پر ابھارتے، تاکہ پہلے سے وہ اس کے انتظار میں رہیں اور پوری طرح یکسو ہوکر اس مبارک مہینے کی رحمتوں اور برکتوں سے مالامال ہوں۔ مثال کے طور پر کبھی فرماتے: ’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری) کبھی یہ الفاظ ارشاد فرماتے: ’’رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘ (مسلم)

حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا: ’’ابن آدم کے ہر عمل میں اس کی نیکیاں دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہیں، البتہ روزے کا معاملہ اس سے کچھ مختلف ہے، اس لیے کہ وہ تو (صرف) میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بندہ اپنی شہوتوں اور کھانے پینے کی چیزوں کو صرف میرے لیے چھوڑتا ہے۔‘‘ ایک مرتبہ فرمایا: ’’روزے دار کے لیے دو طرح کی خوشیاں ہیں: ایک خوشی تو افطاری کے موقعے پرہوتی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے موقع پر ہوگی۔‘‘ پھر ایک بار لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بے ہودہ باتوں سے اور چیخنے چلانے سے پرہیز کرے بلکہ اگر کوئی گالی دے یا جھگڑ ا کرے تو صاف کہہ دے کہ میں تو روزے سے ہوں۔‘‘ (بخاری ومسلم)

ایک خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے اے خیر کے چاہنے والے! آگے بڑھ اور اے برائی کے چاہنے والے باز آجا، اور اللہ کے نزدیک جہنم سے رہائی حاصل کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں اور یہ سلسلہ ہر رات چلتا رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی) اور اس مہینے میں اللہ نے ایک ایسی رات بھی رکھی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کے خیر سے محروم رہا وہ حقیقی خیر سے محروم ہے۔‘‘ (مسند احمد، نسائی)

ایک طویل خطبہ جو شعبان کی آخری رات میں دیا تھا، اس کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’اے لوگو! ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہو رہا ہے، جو بڑا بابرکت مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں نمازوں کو سنت قرار دیا ہے۔ جو شخص کسی بھی خیر کے کام کے ذریعے اس مہینے میں اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی دوسرے مہینے میں اس نے کسی فرض کو انجام دے دیا ہو اور اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرنے والے کی مثال دوسرے مہینوں میں ستر فرائض کے ادا کرنے والے کی طرح ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے او رصبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ بھائی چارگی کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)

٭ اس مہینے کی عظمت اور ا سکے احترام کے پیش نظر فرمایا: اس مہینے میں جو شخص اپنے غلاموں (یا خادموں) کے بوجھ کو ہلکا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتا ہے او رجہنم کی آگ سے اس کو نجات دیتا ہے۔‘‘ (ایضاً)

سحری و افطار

رمضان کے مہینے میں روزے کی ابتدا آپؐ سحری سے کرتے اور اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’سحری کیا کرو، اس لیے کہ سحری میں برکت ہوا کرتی ہے۔‘‘ (بخاری مسلم) کبھی فرماتے: ’’سحری کے کھانے کے ذریعے دن کے روزے میں طاقت حاصل کرلیا کرو‘‘ (حاکم) کبھی اس طرح ترغیب دیتے: ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔‘‘ (صحیح ابن حبان) سحری کے کھانے کو برکت والا کھانا قرار دیتے تھے۔ (ابو داؤد) اور کھجور کو سحری کے لیے بہتر سمجھتے۔ خود بھی عام طور پر سحری میں کھجور اور پانی ہی پر اکتفا فرماتے اور تنہا سحری کرنے کے بجائے اپنے ساتھیوں کو بھی عام طور پر اس کھانے میں شریک فرمایا کرتے تھے۔ اور سحری بالکل آخری وقت میں کرتے۔

اللہ کے رسولﷺ افطار کا بڑا اہتمام فرماتے تھے اور اس کی ترغیب دیا کرتے تھے کہ: ’’غروب کے بعد فوراً افطار کیا جائے اس میں تاخیر بالکل نہ کی جائے۔‘‘ فرماتے تھے: ’’لوگ جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، خیر (اچھی حالت) پر رہیں گے۔‘‘ (بخاری و مسلم)۔ وقت ہونے کے بعد افطار میں مزید تاخیر کو آپؐ یہود و نصاریٰ کی عادت قرار دیتے تھے۔ افطار میں کھجور کو پسند فرماتے اور کہتے تھے کہ اس میں برکت ہوتی ہے اور اگر کھجور نہ ہو تو پھر پانی کو ترجیح دیتے، اس لیے کہ یہ پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ افطار کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے: اللہم لک صمت و علی رزقک افطرت (ابوداؤد)۔ اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا۔‘‘ پھر یہ دعا بھی پڑھا کرتے: ذہب الظمأ وابتلت العروق و ثبت الاجر ان شاء اللہ (ابوداؤد، نسائی) ’’پیاس بجھ گئی اور رگیں تر ہوگئیں، اگر اللہ چاہے تو یقینا اجر چابت ہوگا۔‘‘ (بدلہ مل کر رہے گا)۔‘‘ اپنے دوستوں کے یہاں بھی کبھی افطار کیا کرتے اور اس وقت یہ دعا پڑھتے: افطر عندکم الصائمون و اکل طعامکم الابرار و نزلت علیکم الملائکۃ (دارمی) ’’تمہارے یہاں روزہ دار افطار کیا کریں اور نیک لوگ تمہارا کھانا کھایا کریں اور فرشتوں کا آپ پر نزول ہوا کرے۔‘‘ او رروزہ افطار کرانے کی خاص طور پر ترغیب دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’جس کسی نے روزہ دار کو افطار کرایا یا کسی غازی (اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے) کے لیے وسائل مہیا کیے تو اس کو بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ ایک صحابی نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! ہر آدمی کے پاس کہاں اتنا مال ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی افطار کرا سکے۔‘‘ اس پر ارشاد فرمایا: ’’یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو عطا فرماتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گلاس پانی پر افطار کرائے۔‘‘

(شعب الایمان، للبیہقی)

دن کی مشغولیت

رمضان کے مہینے میں اور دنوں کے مقابلے میں آپؐ کی عباداتی مشغولیت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ تلاوت قرآن، ذکر و اذکار اور صدقہ و خیرات میں خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، اور خاص بات یہ ہوتی کہ آپؐ حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دورہ بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں اللہ کے رسولؐ خیر کے معاملے میں سب سے بڑھے ہوئے تھے اور رمضان میں آپؐ کی سخاوت اور بڑھ جاتی تھی اور رمضان کی ہر رات میں جبریل سے آپ کی ملاقات ہوا کرتی تھی۔ اللہ کے رسولؐ، قرآن کریم انہیں سنایا کرتے تھے اور جب جبریل سے ملاقات ہوتی تھی۔ سخاوت کے معاملے میں آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی بڑھ جاتے تھے۔‘‘ (مسلم) اس کے ساتھ ساتھ روزے کی حفاظت کی بھی بڑی فکر کیاکرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے روزہ دار اہل ایمان کو بے ہودہ باتوں، فحاشی، گالی گلوچ، جھوٹ اور لڑائی جھگڑے سے حتی الامکان دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’جو دروغ گوئی اور اس کے مطابق عمل کرنے سے باز نہیں رہتا، تو اللہ کو اس کے کھانے پینے کے ترک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری) ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے جب تک کہ اس کو توڑ نہ دیا جائے۔‘‘ اسی طرح آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: ’’کتنے روزہ دار ایسے ہیں، جن کو ان کے روزے کے بدلے میں سوائے بھوکا رہنے کے اور کوئی فائدہ نہیں اور کتنے رات میں کھڑے ہونے والے (قیام لیل میں) ایسے ہیں جن کو ان کے قیام کے بدلے مین سوائے رات جاگنے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘ (الحاکم) اور کبھی روزہ بھاری پڑ جاتا اور برداشت کی طاقت جواب دے دیتی تو سکون و آرام کے لیے سر پر پانی بھی بہا لیتے تھے۔ (ابوداؤد) یعنی روزہ کی حالت میں غسل وغیرہ بھی کیا کرتے تھے۔

رمضان کی راتیں

رمضان کی راتوں کو آپؐ بہت غنیمت سمجھتے تھے۔ اکثر حصہ قیام لیل میں گزارتے اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ کی مشہور روایت ہے: ’’جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان اور احتساب (ثواب و فضائل کے استحضار) کے ساتھ کھڑا رہا (نمازیں پڑھتا رہا) اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘ (ابوداؤد) جو ہستی اپنے ساتھیوں کو اس طرح سے شوق دلاتی رہی ہو، خود ان کا معمول کیا رہا ہوگا؟ اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ آپؐ کا غیر رمضان میں بھی قیام لیل کا معمول تھا۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ رمضان کے ابتدائی دو عشروں (۲۰ دن)اور آخری عشرے کی راتوں کے معمولات میں بڑا فرق تھا۔ ابتدائی دو عشروں میں آرام بھی کیا کرتے تھے اور اپنے اہل خانہ کے جائز حقوق بھی ادا کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت میں صراحت ہے: ’’اللہ کے رسولؐ ابتدائی بیس راتوں میں سوتے بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے، لیکن جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو پھر آپؐ کی عبادت بڑھ جاتی اور کمر کس لیتے۔‘‘ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’اللہ کے رسولؐ! آخری عشرہ میں اتنی عبادت کیا کرتے تھے جتنی اور دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے: (مسلم)

دوسری جگہ انہی سے روایت نقل ہے: ’’جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا آپؐ کمر کس لیتے او ر راتوں کو زندہ کرتے (جاگتے) او راپنے گھر والوں کو جگاتے (بخاری، مسلم) اور آخری عشرہ میں کبھی کبھی قیام لیل (تراویح) میں جماعت کا بھی اہتمام کیا کرتے تھے۔ البتہ اس کی پابندی نہیں کیا کرتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں اُمت پر فرض نہ کی جائے۔ (بخاری)lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں