اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر پیدا کیا ، اور اس نے نسب اور سسرال کے دو سلسلے چلائے ۔ تیرا رب بڑی ہی قدرت والا ہے‘‘۔ ( الفرقان:۵۴)
اسلام دو قسم کے رشتوں کی بات کرتا ہے ۔ ایک تو خونی رشتہ یا نسبی رشتہ جس میں ایک شخص دوسرے سے خون کے رشتے سے بندھا ہوتا ہے۔ جیسے والدین، بھائی بہن، تایا، چچا، ماموں خالہ وغیرہ، دوسرا سسرالی رشتہ یعنی شادی کے بعد مرد و عورت کو جن رشتوں سے سابقہ پڑتا ہے وہ اس میں شامل ہیں۔ عربی میں رشتہ داروں کے لئے ذو ی الارحام یا ذوی القربیٰ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ارحام رحم سے بنا ہے جس کے معانی لغوی طور پر ماں کے پیٹ میں استقرار جنین کے مقام کو کہتے ہیں، جو قرابت اور رشتے کا سبب بنتا ہے اسی لئے اصطلاحا رشتے داروں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ رحم قرابت اور رشتے داری کے لئے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک شخص کے تمام رشتے دار خواہ دور کے ہوں یا قریب کے ، اس کے ذوی الارحام ہیں۔
اسلام رشتوں کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس کو کھلے دل سے نبھانے کا حکم بھی دیتا ہے۔ جس سے جتنا زیادہ قریبی رشتہ ہوگا اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہوگااور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہوگا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ میں رحمان ہوں اور رحم ( رشتہ) کو میں نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے ۔ جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑ دوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹ دوں گا۔‘‘(سنن ابی داودو ترمذی)
فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔ یقین جانو کہ اللہ تم پرنگرانی کر رہا ہے‘‘۔ ( سورہ النساء :۱)
اللہ پاک نے ہی رشتے بنائے اور اسے نبھانے اور حسن سلوک کرنے کی سخت تاکید کی ہے۔ مگررشتے کے انتخاب میں انسان کو اختیار نہیں۔ وہ اپنی مرضی سے والدین، بھائی بہن اور دوسرے خونی رشتے دار کا انتخاب نہیں کر سکتا،اس لیے ہمیں ان رشتوں کو ہرحال میں نبھانا چاہیے کوئی ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔
انسان تنہا نہیں رہ سکتا اور زندگی کی ابتدا سے آخری ایام تک رشتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ رشتے ہی ہوتے ہیں جو ہمیں خوشی، مسرت، تحفظ، سکون، احساس، اپنائیت اور بے غرضی و بے لوثی جیسے جذبات عطا کرتے ہیں۔ فیملی سسٹم جو اللہ نے بنایا ہے جس میں ہر کوئی رشتوں کے خوبصورت بندھن میں مقید ہوتا ہے اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کا سہارا بنیںاور اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرکے سماج و ملک کی خدمت انجام دیں۔
رشتے معاشرتی و سماجی معنویت
رشتے معاشرتی و سماجی ضرورت ہیں۔ اس کا اس طرح نظم کیا گیا کہ بچہ دنیا میں آتے ہی خوبصورت رشتوں سے گھر جاتا ہے۔ والدین، دادا دادی، نانا نانی، چچا، تایا، ماموں خالہ، پھوپھی اور دوسرے ددھیالی و ننھیالی رشتے دار اس بچے کو محبت سے پروان چڑھانے اور اس کی بہترین تعلیم و تربیت کی ادائیگی میں اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہیں، ساتھ ہی بچے کو خاندان کا تحفظ حاصل ہوتا ہے جو اس کی شخصیت کی تکمیل میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ محبت کا یہ احساس جو خود بخود بچے کے دنیا میں آتے ہی دلوں کو گرما دیتا اور اور ہر تکلیف کو برداشت کرنے کی ہمت فراہم کرتا ہے، اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی شرعی طور پر والدین یا دوسرے قریب ترین رشتے داروں کو اس بات کا مکلف بناتا ہے کہ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر توجہ دیں اور اس میں کوتاہی کی صورت میں انہیں خدا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ پھر اس بچے پر والدین کے اور دوسرے رشتے داروں کے حقوق ہیںجن کی ادائیگی اس پر فرض ہے۔ اس طرح ہر انسان حقوق و ذمہ داریوں کے جال میں جکڑ دیا گیا ہے۔ اسلامی معاشرے کا کوئی فرد اس معنی میں بالکل آزاد اور بے مہار نہیں ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی مرضی کی زندگی گزارے اور صرف اپنے لئے جئے بلکہ اس پر دوسروں کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔جو رشتے میں جتنا قریب ہے اس کی ذمہ داری اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
رشتے انسان کی ضرورت ہیں جب تک رشتوں کا احترام ہوتا رہے گا، لوگ ذمہ داریوں اور حقوق میں بیلنس کرتے رہیں گے، زندگی آسان ہوگی اور جب جب اس کے خلاف ہوگاانسانی زندگی دشوار اور مشکل ہوتی چلی جائے گی۔ قرآن میں تقریبا نو مقامات پر قرابت داروں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ رحم کے رشتے کو اللہ تعالیٰ نے صفت رحمان سے منسلک کیا اور ان میں باہم محبت قائم کی۔اللہ تعالی فرماتا ہے:رشتہ داروں کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو ( الاسراء :۲۶) دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کرکے آگئے اور تمہارے ساتھ جدوجہد کرنے لگے وہ تم ہی میں شامل ہیں مگر اللہ کی کتاب کے مطابق خون کے رشتے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ یقینا اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ( انفال:۷۵)یعنی خون کے رشتے کو اللہ تعالی نے ہجرت کے رشتے پر فوقیت دی۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
جو پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور عمر میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔
قطع رحمی
قطع رحمی صلہ رحمی کا متضاد ہے جس کو ناپسندیدہ خصلت قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’ قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔ (بخاری)رشتوں کو توڑنا اللہ کے نزدیک اتنا مبغوض اور ناپسندیدہ عمل ہے کہ بنی کریم اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت کے دن رحم ( رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرش الٰہی پکڑ کر کہے گا کہ جس نے مجھے دنیا میں جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ اسے بھی جوڑے گا اور جس نے مجھے کاٹا آج اللہ اسے بھی کاٹ دے گا( یعنی سزا دے گا)‘‘۔ بخاری
صلح رحمی
صلہ رحمی وہ عظیم اصول ہے جس پر پوری زندگی کی عمارت استوار ہوتی ہے اور مضبوط خاندان اور مستحکم سماج وجود میں آتا ہے۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ انسان اپنے نسبی و سسرالی رشتوں کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرے، خواہ میل جول کے ذریعے، مال کے ذریعے، خدمت کے ذریعے، مشوروں اور تجاویز کے ذریعے، خندہ پیشانی سے ان کے درشت رویے کو برداشت کر کے اور ان کی جانب سے رکھائی کے باوجود اپنا حسن عمل ترک نہ کرکے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کے متعلق واضح ہدایات دی ہیں۔
اصل صلہ رحمی
رشتے اللہ کی نعمت ہیں جن کو سنبھالنا ہماری ذمہ داری ہے۔ رشتوں کو نبھانے کے لئے برداشت، صبر، صلح، ایثار، خلوص، محبت اور جذبۂ احسان کی ضرورت ہوتی ہے۔رشتوں کے استحکام میں تقوی، خدا ترسی، نیکی و صالحیت اور حسن اخلاق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’رشتوں کو جوڑنے والا وہ نہیں ہے جو صرف انہی لوگوں کے ساتھ جڑنے کی کوشش کرے جو اس سے جڑ کر رہنا چاہتے ہوں بلکہ رشتوں کو جوڑنے والا تو حقیقت میں وہ ہے جو ایسے لوگوں سے بھی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے جو اس سے کٹ کر رہنا چاہتے ہوں اور اس کے درپہء آزار ہوں‘‘۔
رشتوں کو نظر انداز کرنے کے نقصانات
ہماری معاشرتی زندگی گونا گوں رشتوں سے گھری ہوئی ہے ۔ ہر شخص رشتوں کی زنجیر سے بندھا ہوا ہے، جن کا پاس و لحاظ ہر انسان کو کرنا چاہیے مگر دور حاضر میںرشتہ داروں سے دوریاں اور حقوق سے غفلت ہمارا معاشرتی رویہ بنتا جا رہا ہے ۔کیونکہ لوگوں کے اندر صبر اور برداشت کا مادہ کم ہورہا ہے۔ مادیت کی ہوس کے دور میں رشتے داروں کے لئے وقت نکالنا فضول امر ہو گیا۔ رہی سہی کسر بہت سے تفریحی مقامات نے پوری کر دی جہاں جا کر انجوائے کرنے کو رشتے داروں کے یہاں جانے پر فوقیت دی جاتی ہے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ نت نئی ٹکنالوجی کی ایجادات سے انسان تنہائی پسند ہوتا جا رہا ہے۔ ایک فرد کے دن کا بڑا حصہ موبائل اور دوسری ڈیوائسسز کے ساتھ گزرتا ہے۔ ایک شخص جو پوری دنیا سے کنکٹڈ ہوتا ہے وہ اپنے والدین، بھائی بہنوں اور دوسرے رشتے داروں سے کوسوں دور ہوتا ہےجب کہ وہ ایک ہی گھر میں ہوتے ہیں۔خونی رشتے داروں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ دوستوں کو دی جا رہی ہے۔ دوستوں کی ضیافت بڑے دھوم دھام سے ہوتی جب کہ رشتے داروں کا آنا ناپسند کیا جاتا۔
رشتوں سے دوری نے انسان کو کئی قسم کی مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔ آج کا انسان ڈپریشن کا شکار ہے کیونکہ وہ رشتے دار جن سے مشورہ کرکے مشکلات کو آسان بنا لیا جاتا تھا ان سے دوری ہو گئی ہے۔ اپنی اپنی انا میں کوئی کسی کو اپنا ٹیشن بتانا اور دکھانا نہیں چاہتا ۔نتیجے میں ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔اسی ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
انسان تنہائی پسند ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اپنے اردگرد لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔ دوست سوشل میڈیا سے بنے ہوتے ہیںجن کے ساتھ وقت گزارنا پسند کیا جاتا۔ فری وقت جو انسان اپنے رشتے داروں کے ساتھ گزار کر فرحت محسوس کرتا تھا اور خود کو تازہ دم کر لیتا تھا اب وہ دستیاب نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہی تنہائی ذہنی بیماریوںکا باعث بن جاتی اور بڑھاپے میں انسان اس حال میں دم توڑتا ہے کہ اس کا کوئی اپنا موجود نہیں ہوتا۔
رشتوں سے دوری نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت، ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے کام کو مشکل بنا دیا۔ پہلے تمام قریب ترین رشتے دار یہاںتک کہ پڑوسی بھی بچوں کی تربیت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ اب تمام ذمہ داریاں والدین پر آگئی ہیںجس سے مشکلات میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اولاد کی پیدائش کو ہی بار سمجھا جانے لگا۔
رشتوں سے دوری نے انسان کو اکیلا کر دیا۔ دکھ ، بیماری، موت وحیات پر کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ کوئی سنبھالادے ، ذمہ داریوں کو بانٹ لے یا دلاسہ دے دے۔ بلکہ اپنے تمام دکھوں کو اکیلا برداشت کرنا پڑتا ہے جس سے جسمانی اور ذہنی کوفت پیدا ہوتی ہے جو انسان کی روز مرہ کی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔نیوکلیئر فیملی سسٹم نے اس مشکل میں بڑھاوے کا کام کیا ہے۔
رشتے انسان کی طاقت ہوتے ہیں۔ اس کے حصار میں انسان خود کو محفوظ محسو س کرتا ہے۔ دشمنوں کے غلط ارادے سے بچا رہتا ہے لیکن رشتے داروں سے دوری نے اس حصار کو کمزور کر دیا۔ اب اپنی حفاظت کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے کا سہارالیا جانے لگا جس میں آئے دن قتل و غارت گری کے واقعات مقید ہوتے رہتے ہیں۔
ایک اور چیز جس میں شدت سے کمی ہوتی جا رہی ہے وہ ہے خوشی میں کمی۔ خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے اور غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے۔ عید بقرعید، شادی بیاہ، کامیابی کے موقعے پر رشتہ داروں سے ملا جاتا اور سب مل کر ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتے اور کھلے دل سے خوشی مناتے ۔ آج خوشی کا احساس پھیکا محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی ہم خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ہماری خوشیاں بھی سوشل میڈیا کی نظر ہو چکی ہیں ۔ رشتے داروں کو شامل کرنے کے بجائے ہم سوشل میڈیا پر تشہیر کرکے اپنی ذمہ داری اداکرنا چاہتے ہیں۔
معاشرے میںبڑھتی ہوئی یہ قطع رحمی اسلام کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے ساتھ ہی ہماری زندگیوں اور آنے والی نسل کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر ہمارا یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب اخوت و محبت، انسانیت، لطف و کرم، عدل و انصاف، ایثار و قربانی، رحمدلی و جانثاری جیسے قیمتی جذبات ختم ہو جائیں گے ، اولاد والدین سے اور والدین اولاد سے بے زار ہوں گے، خود غرضی اور بے حسی انسان کو حیوان کے درجے تک پہنچا دے گی۔ رشتوں کے اس خوبصورت تانے بانے کے بکھرتے ہی ہماری زندگیاں بکھر کر رہ جائیں گی اور موت سے پہلے ہی ہم تنہا ہو کر رہ جائیں گے۔