عرصہ دراز کے بعد وطن واپسی پر جب خالہ خورشید کا بند دروازہ دیکھا تو مجھے تعجب ہوا۔ سفر کی تکان دور کرنے کے بعد چچی تھانیدارنی سے ملاقات کرنے گئی۔ چچی سے معلوم ہوا کہ بہت سے بزرگوں کی وفات ہوچکی ہے۔ ننھے منے بچے جوانی کی سرحدوں کو چھو رہے تھے جن کو پہچاننا میرے لیے مشکل ہورہا تھا۔
جونہی میں نے خالہ خورشید کا پوچھا چچی نے باقاعدہ اونچی آواز میں رونا شروع کردیا۔ روتے روتے چچی نے جو داستان سنائی اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
خالہ خورشید کے خاوند زاہد صاحب شہر کے بہت امیر اور بڑے تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ ایک دن زاہد صاحب اور ان کے دونوں بیٹے فیکٹری سے واپس آرہے تھے کہ ڈاکوؤں نے گاڑی چھیننے کی کوشش کی، مزاحمت پر زاہد صاحب کے سینے میں دو گولیاں اتاردیں۔ خالہ نے خاوند کو خون میں لت پت دیکھا تو حواس کھوبیٹھیں۔ آہستہ آہستہ دونوں بیٹوں نے ماں کو بہت سہارا دیا۔ دولت کی فراوانی تھی خالہ نے دونوں بیٹوں کی شادی کردی اور بڑی چاہت سے بہوؤں کو بیٹیا ںبنا کر گھر لے آئیں۔
خالہ پرانے زمانے کی عورت تھیں کچھ دن تو ماڈرن بہوؤں کے طور طریقے دیکھتی رہیں آخر تنگ آکر ان کو ٹوکنا شروع کردیا۔ ’’بیٹا نماز پڑھا کرو… آدھے دن تک سوتی رہتی ہو جلدی اٹھا کرو… خاوند کو ناشتہ خود بناکر دیا کرو… بازار سر ڈھانپ کر جایا کرو۔‘‘
یہ سب باتیں تھیں تو ٹھیک، اور شریفانہ گھرانے کے ماحول کو بھی ظاہر کرتی تھیں مگر دونوں بہوؤں کو یہ سب باتیں ناگوار گزرتی تھیں۔ دونوں بہوؤیں خالہ کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ خالہ کے بڑے بیٹے یونس اپنی بے ادب بیگم کو لے کر دبئی چلے گئے۔ ایک سال بعد جب وہ واپس آئے تو دیورانی نے علیحدہ گھر لینے کا مطالبہ کیا۔ اب دونوں بہوئیں الگ گھر لے کر رہنا چاہتی تھیں۔ خالہ نے خوب شور مچایا کہ میں اولاد کے بغیر کیا کروں گی۔ دونوں بہوئیں اب خالہ سے چھٹکارا چاہتی تھیں، دونوں نے اپنے اپنے بھائیوں کو بلوایا اور رازداری کے ساتھ خالہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یونس بیوی بچوں کو وطن میں چھوڑ کر باہر چلا گیا، خالہ کا چھوٹا بیٹا مارکیٹ سودا سلف لانے کے لیے گیا۔ بچے اسکول گئے ہوئے تھے، دونوں بہوؤں نے اپنے اپنے بھائیوں کو بلوایا اور خود بے ہوشی کی دوا کھالی۔ خالہ کو دونوں لڑکوں نے بیڈ روم سے قرآن پاک پڑھتے ہوئے اٹھایا۔ دو چار دفعہ سر دیوار سے ٹکرایا خالہ کو لہو لہان کردیا پھر خالہ کے گلے میں دوپٹہ ڈال کر گلہ گھونٹ دیا۔ چند ہی منٹوں میں خالہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں، دونوں لڑکوں نے گھر کا سامان پھیلا دیا تاکہ یہ شبہ ہو کہ ڈاکو آئے تھے۔
دو گھنٹے بعد جب خالہ کا بیٹا گھر پہنچا تو ماں کو اس حالت میں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ خالہ کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا مگر خالہ کی روح پرواز کرچکی تھی۔ پورا محلہ اکٹھا ہوگیا،اختر فوراً بھابی اور بیوی کو ہسپتال لے گیا۔ ہوش آنے پر دونوں نے بتایا کہ گھر میں ڈاکو گھس آئے تھے اور ان کو بے ہوش کرکے گھر کا سامان لے گئے ساس کی وفات کا سن کر دونوں بین کرنے لگیں اور فرضی دکھ کا ڈرامہ رچایا۔
دو دن بعد اختر جب ماں کے کمرے میں بیٹھا رو رہا تھا۔ تو اس کی نظر فرش پر گری ہوئی موبائل سم پر پڑی۔ اختر نے سم کے بارے میں فوراً بیوی کو بتایا اور اس سے موبائل مانگا۔ اختر کی بیوی ڈرگئی ، اس نے فوراً جواب دیا کہ موبائل تو چور لے گئے ہیں اختر جونہی بیڈ پر لیٹا سرہانے کے نیچے سے موبائل مل گیا۔ اختر نے فوراً سم لگائی اور کی جانے والی کالز، نمبر اور smsکا ریکارڈ ایف آئی آر کٹوا کر حاصل کرلیا۔
اختر اور یونس دونوں نے پریس کو تمام ریکارڈ مہیا کردیا۔ دونوں کی بیویوں کا راز فاش ہوگیا، انھوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی اور بچے بھی ان کے حوالے کردیے۔
پولیس نے دونوں عورتوں اور ان کے بھائیوں کو گرفتار کرلیا۔ آج چاروں کو اپنے کیے کی سزا مل گئی۔ اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی خواہش لیے آج خالہ کی دونوں قاتلہ جیل میں سڑ رہی ہیں۔ سچ ہے کہ ظلم کو ہمیشہ زوال ہے اور سچ کا بول بالا ہے۔ سچ کبھی چھپائے نہیں چھپ سکتا۔