رمضان المبارک :تربیت کا مہینہ

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اللہ تعالیٰ کالاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ایک مرتبہ پھر ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ مل رہا ہے اور ہمیں اس ماہ کی سعادتوں سے بہرہ ور ہونے کی توفیق حاصل ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کتنے بندے ایسے ہیں جو گزشتہ سال حیات تھے، لیکن اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، کتنے بندے ایسے ہیں جو اس سال زندگی کی آسائشوں سے متمتع ہورہے ہیں ،لیکن اگلے سال رمضان المبارک آنے سے قبل اس دنیائے فانی سے کوچ کرچکے ہوں گے۔یہ کتنی بڑی بد نصیبی ہو گی کہ رمضان المبارک آئے اور گزر جائے ، لیکن ہم میں سے کسی شخص کو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق نہ ملے،وہ اس میں اپنی روحانی تربیت نہ کرسکے ، اس میں اسے ایسے اعمال کی توفیق نہ ملے جس سے وہ زیادہ سے زیادہ اجر نہ کما سکے، اس میں وہ اللہ تعالیٰ اپنے گناہوں کی بخشش نہ کرواسکے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایسے شخص کو بہت بڑا بد نصیب قرار دیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر آپؐنے ارشاد فرمایا: ’’ بد نصیب ہے وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور پورا مہینہ گزر جائے ، لیکن اسے اپنی مغفرت کرالینے کی توفیق نہ ہو ۔‘‘ (ترمذی: ۳۵۴۵، احمد:۷۴۵۱)

روزہ وہ مخصوص عبادت ہے، جس کے ذریعے ’تقویٰ‘ کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ زندگی کے ہر لمحے میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوش نودی انسان کے پیش نظر ہو۔ وہ خود کو ہر اس عمل کی انجام دہی پر آمادہ رکھے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جس سے اس کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ہر اس عمل سے خود کو دور رکھے جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے روکا ہے اور جو اس کے غضب کو بھڑکاتا ہے۔ روزے انسان کے اندر اس وصف کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔(البقرۃ:۱۸۳)

رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے۔ اس کی صراحت خود قرآن کریم میں کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیاگیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔(البقرۃ: ۱۸۵)

سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں ماہ رمضان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں قرآن کریم نازل کیاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کتاب انسانوں کی صحیح راستے کی طرف رہ نمائی کے لیے اتاری گئی ہے۔ اس کے اندر ایسے محکم دلائل اور قطعی حجتیں ہیں جو حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے والی ہیں۔ اس میں ایسی روشن نشانیاں موجود ہیں جو قیامت تک پیش آنے والے پیچیدہ سے پیچیدہ امور ومسائل کو حل کرنے میں عقل انسانی کی رہ نمائی کے لیے کافی ہیں۔ اس عظیم نعمت کی شکرگزاری کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرمایا، جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا، تاکہ اس کے بندے اس ماہ مبارک میں اپنے نفس کا زیادہ سے زیادہ تزکیہ کریں اور اس کی عبادت میں خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھ کر اس کا زیادہ سے زیادہ تقرب حاصل کریں۔

رمضان اور قرآن کے درمیان خاص تعلق کی وضاحت ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’روزہ اور قرآن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا۔ (اے میرے رب) میں نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ پس دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی‘‘۔ (بیہقی)

یوں تو اہل ایمان کا قرآن کریم سے خاص ربط و تعلق ہر وقت رہنا چاہیے، اس لیے کہ وہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا پیغام اور صحیفۂ ہدایت ہے، لیکن رمضان اور قرآن کے درمیان خصوصی نسبت کا تقاضا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں قرآن کریم سے ان کے تعلق میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے اور اس سے ان کا شغف بہت زیادہ بڑھ جائے۔

مسلم سماج کا جائزہ لیں تو بہ ظاہر ماہِ رمضان المبارک میں قرآن کریم سے مسلمانوں کا تعلق بہت زیادہ بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ تعلق بالکل پژمردہ اور بے جان معلوم ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت رسوم وروایات کی ہوتی ہے، جن پر بہت سختی سے عمل کیاجاتا ہے۔لیکن یہ رسوم روح سے خالی ہوتی ہیں اور ان میں زندگی کی کوئی رمق دکھائی نہیں دیتی۔

رمضان المبارک کا آغاز نمازِ تراویح سے ہوتا ہے۔ عموماً ہر مسجد میں ایک مرتبہ ختم قرآن کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض مساجد میں ایک سے زیادہ ختم ہوتے ہیں۔ کہیں دس دنوں کی تراویح ہوتی ہے ، کہیں پانچ دنوں کی اور کہیں تین دنوں کی شبینہ تراویح پڑھی جاتی ہے۔ کچھ منچلے حفاظ کرام تو اکٹھے ہوکر ایک رات میں پورا قرآن ختم کرنے کی ہمت کربیٹھتے ہیں۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ لینے کی دھن میں انھیں یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ قرآن حکیم کے الفاظ پورے طور پر ادا ہورہے ہیں یا نہیں؟

رمضان المبارک میں انفرادی طور پر بھی تلاوتِ قرآن کا اہتمام بڑھ جاتا ہے۔ جن حضرات کا عام دنوں میں روزانہ ایک پارہ کی تلاوت کا معمول رہتا ہے، وہ اس ماہ میں دو ، تین، چار، بلکہ اس سے زائد پاروں کی تلاوت ایک دن میںکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب کم از کم ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ بشارت ِ نبوی انھیں زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن کے لیے مہمیز کرتی ہے۔ اس جذبے کا غلبہ انھیں یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتا کہ قرآن، پڑھ کر سمجھنے کی کوئی چیز ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی کئی مرتبہ قرآن ختم کرلینے کے باوجود ؎ دل سوز سے خالی رہتے ہیں، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہدایت نامہ ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اس نے کن کاموں کا حکم دیا ہے اور کن کاموں سے روکا ہے ؟ کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں اور کیا چیزیں حرام ہیں؟ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں اور دوسرے انسانوں کے معاملے میں کن حقوق کی ادائی کا انہیں پابند کیاگیا ہے؟ کون سے عقائد اور اعمال انسان کو مرنے کے بعد کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے اجر و انعام کا مستحق بناتے ہیں اور کن عقائد و اعمال کی وجہ سے وہ اس کی سزا اور دردناک عذاب جھیلے گا؟ یہ تمام باتیں قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ اب اگر قرآن کو پڑھنے اور سننے کا تو زیادہ سے زیادہ اہتمام کیاجائے ، لیکن اسے سمجھنے کی مطلق کوشش نہ کی جائے تو ان باتوں کا علم کیوں کر ہوسکتا ہے؟

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص مشہور صحابی ہیں۔ قرآن کریم سے انھیں غیرمعمولی شغف تھا۔ اس بناپر وہ زیادہ سے زیادہ اس کی تلاوت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے رسول اللہ سے دریافت کیا: میں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ایک مہینے میں۔ انھوںنے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ فرمایا: بیس (۲۰) دنوں میں ختم کرلو۔ انھوں نے اسی طرح اور بھی کم دنوں میں ختم کرلینے پر اپنی قدرت ظاہر کی تو آپؐ نے پندرہ، پھر دس، پھر سات دنوں میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دی۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ’’سات دن میں پورا قرآن پڑھ لو، اس سے کم میں ہرگز ختم نہ کرو‘‘۔ (سنن ابی داؤد:۱۳۸۸)دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے مزید اصرار کیا کہ وہ اس سے بھی کم دنوں میں قرآن ختم کرسکتے ہیں تو آپؐ نے انھیں تین دنوں میں ختم قرآن کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ’’جو شخص تین دنوں سے کم میں پورا قرآن پڑھے گا وہ ٹھیک طریقے سے اسے سمجھ نہیں سکتا‘‘۔(سنن ابی داؤد:۱۳۹۴)

رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی جہاں ہم مختلف عبادتوں کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، وہیں ہمیں قرآن کریم کا فہم حاصل کرنے کی بھی شعوری کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنا پروگرام اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ روزانہ کم از کم ایک پارہ تلاوت کرنے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی پڑھ لیں۔ موقع ملے تو کسی تفسیر کو بھی شاملِ مطالعہ کرلیں، ایسے دینی اجتماعات میں شرکت کریں جن میں قرآن کا درس دیا جاتا ہو یا اجتماعی مطالعہ کیاجاتا ہو، ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں قرآنی تعلیمات پیش کی گئی ہوں۔ یہ تدابیر ان شاء اللہ قرآن کریم سے ہمارے تعلق میں اضافہ کا باعث بنیں گی۔

رمضان المبارک میں بہت سے چھوٹے چھوٹے اعمال ہم ایسے انجام دیتے ہیں جو ہماری انفرادی تربیت میں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔روزہ میں دو چیزوں کا اہتمام کیا جاتاہے: سحری اور افطار۔ کس وقت سحری کھانی ہے؟ اور کب افطار کرنا ہے؟ اصلاً روزہ اسی چیز کا نام ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے۔ جس وقت اور جس لمحے اس کو کھانے سے روک دیا جائے وہ رک جائے اور جس لمحے اجازت دے دی جائے وہ کھانے لگے۔اسی بنا پر سحری کھانے کی تاکید کی گئی ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’سحری کھایا کرو، کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ ـ‘‘(بخاری: ۳۲۹۱، مسلم: ۵۹۰۱) اور افطار کے بارے میں آپ کا ارشاد ہے:’’ لوگ اس وقت تک خیر کی حالت میں رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔‘‘(بخاری:۱۹۷۵، مسلم:۱۰۹۸) سحری کھانے اور افطار میں جلدی کرنے کے احکام اسی تربیت کے مقصد سے دیے گئے ہیں کہ انسان اللہ کے احکام کا پابند ہوجائے۔ جب تک کھانا کھانے کی اجازت ہو اس وقت تک اس اجازت سے فائدہ اٹھائے، جب روکا جائے تو رک جائے، پھر جب اجازت دے دی جائے تو ایک لمحہ کے لیے بھی نہ رکے۔

رمضان کی ایک اہم عبادت قیام لیل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’جو شخص رمضان کی راتوں میں کھڑارہا، اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘(بخاری:۳۷، مسلم:۷۵۹) رمضان میں کھڑے ہونے سے مراد یہی ہے کہ اس میں نفل نمازیں پڑھی جائیں اوران میں قرآن کی تلاوت کی جائے۔ قرآن کی تلاوت باعث ِ ثواب ہے۔ آدمی غیر نماز میں تلاوت کرے گا تو بھی ثواب ملے گا، لیکن نماز میں قرآن پڑھنے کی غیر معمولی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔اسی وجہ سے رمضان مین تراویح کا رواج ہوا ہے اور اس میں پورا قرآن ختم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ صحابہ کا معمول تھا کہ وہ مسجد نبوی میں اکٹھا ہوتے تھے اور ان کی الگ الگ جماعتیں بن جاتی تھیں۔ہر جماعت میں جس کو زیادہ قرآن یاد ہوتا تھا وہ امام بن جاتا تھااور جن لوگوں کو کم یاد ہوتا تھا وہ مقتدی بن جاتے تھے۔ ایک رات رسول اللہﷺ اپنے حجرے سے باہر آئے تو دیکھا کہ صحابہ مختلف جماعتوں میں نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ آپؐ کو دیکھ کر سارے صحابہ اکٹھا ہوگئے اور آپؐ نے ان کی امامت فرمائی۔ دوسرے دن جب صحابۂ کرام کو معلوم ہوا کہ رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امامت کی ہے تو جو لوگ پہلی رات میں جماعت میں شریک نہیں ہوسکے تھے وہ بھی آ گئے۔ اسی طرح تیسری رات میں بھی ہوا۔ لیکن چوتھی رات میں،جب مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، حضر ت بلالؓ آپؐ کو اطلاع دینے گئے کہ صحابہ آپ کا انتظار کررہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا:’’ نہیں، آج میں نہیں نکلوں گا،کیوں کہ تمہارے اس درجہ ذوق و شوق کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کہیںیہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور پھر تم کو بوجھ محسوس ہونے لگے۔‘‘ اس کے بعد صحابہ کرامؓ اپنے پچھلے معمول پر لوٹ گئے کہ مختلف جماعتوں میں شامل ہوکر نماز پڑھنے لگے۔ یہی معمول حضرت ابو بکرؓکے دور میں بھی رہا۔ حضرت عمرؓ ؓنے اپنے دور میں تمام صحابہ کو ایک جماعت پر جمع کردیا۔ انہوں نے حضرت ابی بن کعبؓکو، جنہیں پورا قرآن یاد کیا تھا، امامت کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح حضرت عمر ؓنے یہ بھی حکم دیا کہ بیس(۲۰) رکعت پڑھائی جائیں۔ اس وقت سے بیس(۲۰) رکعات تراویح کی شکل میں پڑھی جارہی ہیں۔ امت مسلمہ میں ابتدا سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ تراویح آٹھ پڑھنی چاہیے یا بیس؟ حالاں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تراویح کی نماز نفل ہے اور نفل جتنی بھی پڑھی جائے،کوئی حرج نہیں ہے ،بلکہ اچھی بات ہے۔

رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پابندی سے اعتکاف کرتے تھے۔ عام طور پر دس دن اور بعض مواقع پر آپؐ نے بیس دن کا بھی اعتکاف کیا ہے۔ کچھ صحابہ بھی آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے۔اعتکاف کا حکم یہ ہے کہ اگر آبادی میں کچھ لوگ اعتکاف کرلیں تو وہ سب لوگوں کی طرف سے کفایت کرجاتا ہے، لیکن اگر پوری آبادی میں سے کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو تمام لوگ اس سنت کو چھوڑنے کے قصور وار ہوں گے۔ اعتکاف کے لفظی معنیٰ ہیں جھک جانا،کسی چیز پر اس طرح اوندھے ہوجانا کہ اس کے علاوہ آدمی کو کسی اور چیز کی خبر ہی نہ رہے۔ مسنون اعتکاف رمضان کے آخری دس دنوں میں کیا جاتا ہے۔ اعتکاف اسی شخص کو کرنا چاہیے جو اپنے آپ کو دس دن وقف کرسکے اور اس عرصہ میں وہ ہر چیز سے لاتعلق ہوجائے۔

لیلۃ القدر کے بارے میں ہمارے سماج میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں مان لیا گیا ہے کہ رمضان کی ۲۷؍ ویں شب ہی شب قدر ہے۔چنانچہ صرف یہی ایک رات پوری طرح جاگ کر اس میں عبادتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ، حالاں کہ احادیث سے اس کی تائید نہیں ملتی۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ شب قدر آخر کی دس (۱۰)راتوں میں تلاش کرو۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آخری سات (۷)راتوں میں تلاش کرو، لیکن اکثر احادیث میں رمضان کی آخری دس (۱۰)راتوں میں سے طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کا حکم آیا ہے۔

رمضان کی یہ عبادات انسان کی انفرادی تربیت کا ذریعہ بنتی ہیں ، ساتھ ہی ان سے اجتماعی تربیت بھی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ رمضان میںعبادات کا ماحول ہوتا ہے۔ایک دوسرے کو دیکھ کر ہمّت بندھتی ہے،زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ خوب تلاوت قرآن کرنے اور نوافل پڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ یہی اعمال چوں کہ رمضان کے علاوہ اور دنوں میں اجتماعی طور سے نہیں انجام دیے جاتے ، اس لیے ان کی انجام دہی میں اتنی آسانی اور آمادگی نہیں پائی جاتی۔ اسی چیز کی طرف اشارہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ملتا ہے :’’ رمضان میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔پکارنے والا پکارتا ہے: اے خیر چاہنے والے! آگے بڑھ۔ اور اے شر چاہنے والے! پیچھے ہٹ۔‘‘(ترمذی:۶۸۲، ابن ماجہ:۱۶۴۲)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں