خالق کائنات نے رمضان المبارک کو تمام مہینوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ اس نے اپنی کتاب قرآنِ مجید اسی ماہِ مبارک میں نازل فرمائی۔ اسی ماہ کے روزے پچھلی امتوں اور مسلمانوں پر فرض کیے گئے۔ شبِ قدر جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے اسی ماہِ مبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ آئیے قرآن و احادیث کی روشنی میں اسی ماہِ مبارک کی اہمیت کو سمجھیں۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیا رکرو۔ یہ گنتی کے متعین دن ہیں، لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کرے اور اس کی طاقت نہ رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں۔ پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے۔ تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘
ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور جس میں لوگوں کے لیے ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اسے روزے رکھنا چاہئیں، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسروں دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ (البقرۃ آیات 183 تا 185)
احادیث کی روشنی میں:
lحضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے خطبہ دیا اس میں آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ اس مہینہ کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہونے (یعنی تراویح) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا گیا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو دوسرے زمانےکے فرضوں کے برابر اس کو ثواب ملے گا اور اس مہینہ میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرائض کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزح سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔‘‘ آپؐ سے عرض کیا گیا یا رسول اللہﷺ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس ثواب سے محروم رہیں گے)آپؐ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کو روزہ افطا رکرادے۔ آگے آپؐ نے ارشاد فرمایا اور جو کوئی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوضِ کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ آپؐ نے مزید فرمایا اس مبارک ماہ کا ابتدائی حصہ رحمت اور درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے نجات ہے اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف و کمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گی۔
(شعب الایمان للبیہقی، معارف الحدیث)
lحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے تھے۔
(متفق علیہ)
lحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’روزے رکھا کرو تندرست رہوگے۔‘‘ (طبرانی)
lحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر شے کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے لہٰذا روزہ رکھا کرو۔‘‘
lرسولِ اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’روزہ رکھ کربھی جو شخص جھوٹ اور فریب کے کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
lآپؐ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے اس وقت تک جب تک اس میں سوراخ نہ ہو۔ صحابہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! اس میں سوراخ کس چیز سے ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: جھوٹ اور غیبت سے۔‘‘