روشنی کا سفر

سمیہ تحریم

وہ خاموش نظروں سے اپنے ماحول سے کٹی موبائل کی جگمگاتی اسکرین پر نظریں لگائے بیٹھی تھی، جس پر کل شام کے کچھ مسیج کھلے ہوئے تھے۔ جتنی بار پڑھتی اتنی بار الجھتی، کبھی ایک لطیف سا جذبہ دل میں اٹھتا، ایک سرشاری کا احساس اور کبھی عجب سی گھٹن… وہ جیسے بڑے سے گول ہوائی جھولے میں سوار ہو جس میں اوپر جاتے وقت سانس اٹک جاتی اور نیچے آتے وقت پورے جسم پر جھرجھری چھا جاتی۔ اس نے اپنے اطراف زندگی سے بھرپور کالج کی گہما گہمی پر نظر ڈالی، مختلف لڑکے لڑکیوں کو ایک ساتھ دیکھ کر اس نے ایک گہری سانس لی تبھی اس کی نظر کینٹین کی طرف جاتے فیصل حیدر پر پڑی وہ اس کا کلاس میٹ تھا، اکثر پروجیکٹس وغیرہ کے سلسلے میں اس سے بات چیت ہوجایا کرتی تھی۔ معقول لڑکا تھا مگر اب …

’’آپ مجھے اچھی لگتی ہیں، دوسری لڑکیوں سے بے حد منفرد… میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں‘‘ فیصل حیدر کا مسیج پھر سے سامنے تھا… شیطان پھر سے بنت حوا کی مسکراہٹ چھیننا چاہ رہا تھا اس نے اس کا کوئی جواب تو نہیں دیا تھا لیکن دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی تھی، کوئی احساس مسلسل اس کے گرد تھا… وہ کتنے مزے سے اپنی دنیا میں مگن تھی اور اب یہ بے سکونی … ہر لڑکی، ہر بنت حوا کی اپنی دنیا اپنی جنت ہوتی ہے اور اب اس جنت سے نکلوانے کے لیے شیطان اپنا جال پھینک رہا تھا اسے شجر ممنوعہ دکھا کر…

اور یہ شجر ممنوعہ کیا ہوتا ہے؟… ایک عام سا درخت … جس کے پاس جانے سے منع کر دیا جاتا ہے… جو انسان سے اس کی عزت چھین لیتا ہے، جو اسے اس جنت سے نکال دیتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے رکھی ہے، ایک باعزت زندگی…

اور شجر ممنوعہ کیا ہوتا ہے؟ ہر وہ چیز جس سے منع کر دیا جائے ابن آدم اور بنت حوا کو… جیسے … نامحرم سے دوستی و بے تکلفی، جیسے … فیس بک، واٹس اپ، انٹرنیٹ کا غلط استعمال۔۔۔ ایسا استعمال جو انہیں شجر ممنوعہ بنا دے۔

اور شیطان آج بھی ابن آدم اور بنت حوا کو ان کی جنتوں سے نکلوا دیتا ہے شجر ممنوعہ کے ذریعے … اور پھر انہیں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

ہرگزرتے دن کے ساتھ اس کی بے چینی بڑھنے لگی تھی، روزانہ ہی فیصل کا کوئی نہ کوئی میسج آجاتا اس نے آج تک کوئی جواب نہیں دیا تھا مگر اس کی خاموشی بھی سمجھ میں آنے والی نہ تھی… انہی دنوں کالج میں ۱۴ فروری ویلنٹائن ڈے کا شور اٹھا …ایک طرف اسلام پسند گروپ تھا جو اس کی مخالفت میں تھا اور دوسری جانب آزادی کا دلدادہ گروپ جو اسے محض اظہار محبت کا ایک دن کہہ رہا تھا۔ دونوں ہی دلائل دے رہے تھے… اور ان سب کے درمیان اب وہ بڑے خطرناک موڑ پر آکھڑی ہوئی تھی… مذہب اور محبت دونوں اسے خود پر وارد ہوتے محسوس ہو رہے تھے… اور اب وہ ایسے موڑ پر کھڑی تھی جس سے اگر ایک قدم تھی آگے بڑھا دیا جائے تو پھر واپسی مشکل ہوجاتی ہے کہ آگے کا سفر بیت العنکبوت (مکڑی کے گھر) کی طرح ہوتا ہے۔ جس میں ہر بڑھتے قدم کے ساتھ پھنسنے والا مزید الجھتا اور اس میں پھنستا جاتا ہے۔ اور اگر وہ پیچھے مڑ جاتی تو پھر زندگی تھی … یہی وہ موڑ ہوتا ہے جہاں پر اس راہ کا چلنے والا ایک لمحے کے لیے رک کر سوچتا ضرور ہے۔ دراصل یہ نعمت خداوندی ہے کہ وہ بندہ کو موقع دیتا ہے… شجر ممنوعہ کی طرف بڑھنے سے پہلے خبردار ضرور کیا جاتا ہے، اللہ اپنے بندوں کی رہ نمائی ضرور کرتا ہے مگر افسوس کہ انسان اپنے کھلے دشمن کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتا ہے۔

وہ اس موڑ پر بڑی ناامیدی سے کھڑی تھی، پیچھے کا راستہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا اور سامنے تھا شجر ممنوعہ … دل و دماغ کسی بات پہ متفق ہی نہ تھے اور اسی عالم میں اس نے فیصل حیدر کے ایک مسیج کا جواب دے ہی دیا، جس پر اس کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی اور جب فیصل کا مسیج آیا کہ وہ اس سے کالج کینٹن میں ملے تو اس نے لمحے کی تاخیر کیے بنا اسے منع تو کر دی اتھا مگر اس کے دل میں ایک عجیب سا احساس ہوا تھا۔ فیصلہ کرلیا تھا کہ اس بات کو ہر کسی سے چھپا کر رکھنا ہے… وہ پنڈولم بنی صحیح غلط کے بیچ جھولنے لگی تھی۔

انہیں دنوں اس کی بڑی بہن بتول گھر آئی… وہ ان سے بہت محبت کرتی تھی، تبھی ان کی آمد پر اتنے عرصہ بعد وہ دل سے خوش ہوئی تھی اور کچھ وقت کے لیے سب کچھ ذہن سے محو ہوگیا تھا… ۱۴؍ فروری سے اک دن پہلے اسے فیصل کا میسج آیا تھا وہ اس سے شکوہ کر رہا تھا کہ اتنے دن سے اس نے کسی میسج کا جواب نہیں دیا، پھر وہ اسے ویلنٹائن ڈے وش کرنا چاہتا تھا کوئی تحفہ دے کر …وہ اس سے اس کی پسند پوچھ رہا تھا… عام حالات میں ایک باشعور لڑکی کو یہ سب باتیں سطحی لگتی بھی ہیں اور سمجھ میں بھی آجاتی ہے مگر اس جیسی لڑکیوں کو یہ سانپ بھی سحر کے باعث معمولی رسیاں لگتی ہیں! وہ بھول جاتی ہیں کہ یہ رسیاں ہیں جکڑ لینے والی، تختہ دار پر لٹکا دینے والی…

اس نے فیصل کے مسیج کا کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن اس بار اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اس الجھن سے چھٹکارہ پا ہی لے گی۔۔۔ کہ قدم بڑھانا ہے یا پیچھے مڑ جانا ہے۔

بتول آپی کی شادی سے پہلے وہ دونوں رات کے کھانے کے بعد نہ جانے کتنا وقت چھت پر گزارتیں… دنیا جہاں کی باتیں… ناولوں پر تبصرے بالخصوص ناولوں کے ہیرو اور ہیروئن کی کمال انتہا کو پہنچی پرفیکشن۔ اس رات بھی وہ اور بتول آپی چھت پر بیٹھے بے کراں آسماں پر پھیلے ٹمٹماتے تارے دیکھ رہے تھے رات کا اپنا اک حسن ہوتا ہے…

’’آپی‘‘

’’ہوں…!‘‘

’’محبت گناہ ہے کیا؟‘‘ بالآخر الجھن سوال کے روپ میں ڈھل ہی گئی تھی، خاموشی کے سمندر میں اس نے اک کنکر پھینکا اور دائرہ بننے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔

’’نہیں…!‘‘ بتول نے کمال اطمینان سے جواب دیا تھا جب کہ ان کے اس جواب پر اس کے ذہن میں الجھن پیدا ہوئی تھی… وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ بتول نے اس سوال کے پیچھے کی کہانی کو اک سیکنڈ میں کوڈ کرلیا تھا اور وہ جانتی تھی کہ اگر ابھی اس کی محبت کو سیدھے سیدھے گناہ کہہ دیا جائے اور بوجھل الفاظ میں سمجھایا جائے تو وہ محبت کے جذبے کو ختم نہیں کرتے بلکہ بغاوت کو جنم دیتے ہیں پھر انہیں مذہب اور سماج فرسودہ نظر آتے ہیں۔

’’آپی!‘‘ اس کے اس لفظ میں کوئی چھپا سا احتجاج تھا جو کہہ رہا تھا کہ آپ سمجھی نہیں میں ’کس‘ محبت کی بات کر رہی ہوں…

میں سمجھتی ہوں سائرہ…‘‘ بتول نے اس کی آنکھوں کے سوال کو پڑھ لیا تھا۔

محبت گناہ نہیں ہے۔۔۔ لیکن ایک محبت کے لیے دوسری ساری محبتوں کو دھوکہ دینا گناہ ہے جس میں آپ ابھی تک جیتے آرہے ہیں۔ محبت گناہ نہیں ہے لیکن ایک محبت کے لیے اس ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والی ہستی کو، اس کی تعلیمات کو سائیڈ میں کر دینا گناہ ہے۔‘‘

بتول نے اسی بے کراں آسماں پر نگاہیں ٹکائے ہوئے اپنی بات مکمل کی… لیکن شیطان کا جال بھی اتنا کمزور نہ تھا…

’’آپی… محبت تو بس ہوجاتی ہے نا… پھر اسے روک ہی نہیں پاتے… سب بھول جاتے ہیں…‘‘ اب شیطان نے جذبات کا تیر اس کے ہاتھ میں تھمایا تھا۔

’’تم جانتی ہو سائرہ کہ تمہارے اندر یہ صحیح غلط کی جنگ کیوں چھڑی ہے؟ کیوں کہ تمہارا ایک حصہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ کہیں نہ کہیں غلط ہے… پھر کوئی جانتے بوجھتے علم رکھتے ہوئے اس قسم کی کشمکش میں کیسے مبتلا ہوسکتا ہے؟‘‘ بتول نے اب کے قدرے حیرانی سے پوچھا… جب کہ سائرہ کی نگاہیں دور پھیلے اندھیرے پر تھیں…

’’آپی… آپ جانتی ہیں ایک دن فرعون کے دربار میں تمام کاہن اور نجومی جمع ہوئے اور سبھی نے کہا کہ اس برس بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا بچہ اس کی حکومت کے لیے خطرہ ہے اور اسی لیے بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا ہر لڑکا مار دیا جاتا…‘‘ بتول ساکت سی اس کی بات سن رہی تھی۔ بہت عجیب انداز میں بالکل اچانک اس نے یہ واقعہ شروع کیا تھا اور اب بھی بولے جا رہی تھی… ’’اور جب نجومی کہہ دے کہ اس سال پیدا ہونے والے لڑکے کو مار دینا بہتر ہے تو پھر دریائے نیل میں تیرتے صندوق میں آئے بچے کو نیل میں ڈبو دینے کے بجائے اسے دل میں جگہ دینے کا غلط فیصلہ انسان سے کون کرواتا ہے…؟ ’محبت‘… محبت کرواتی ہے ایسے فیصلے…‘‘

بتول نے جیسے اس کی بات کو پالیا تھا، اور دم بخود رہ گئی تھی وہ محبت کے جذبے کے لیے یہ مثال سن کر، جیسے ہر فرعونی خیال کے لیے ایک عصائے موسیٰ جیسا جواب ہو۔

بتول نے بڑی محبت سے سائرہ کا ہاتھ تھاما… اور پھر اسی کے انداز میں بات شروع کی…

’’پتہ ہے سائرہ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ نجومیوں کی پیش گوئی اور مستقبل بتا دینے کے باوجود بھی وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون کو دریائے نیل میں ڈبو دیا… اسے رہتی دنیا کے لیے عبرت بنا دیا… وہ کیا چیز تھی جس نے فرعون کو دریائے نیل کے دو حصوں کے درمیان، گہرائیوں میں، اندھیروں میں ڈبو دیا کہ کوئی جانور سمندر کا اس کے قریب بھی نہ پھٹکا…وہ ’محبت‘ تھی۔۔۔

تمہیں یہ تو یاد رہ گیا کہ یہ کہانی دریائے نیل کے پانیوں سے شروع ہوئی، محبت نے یہ غلط فیصلہ کروایا تھا، تو کیا تم بھول گئیں کہ اس کا خاتمہ بھی دریائے نیل پر ہوا… فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو نہیں ڈبویا بلکہ موسیٰ نے فرعون کو ڈبو دیا دریائے نیل کے دو حصوں میں…یہ انجام ہوتا ہے سب کچھ صاف صاف بتا دینے کے بعد بھی دل کی نہ ماننے کا…‘‘

وہ پتھر کی بن گئی تھی…

وہ پتھر بن گئی تھی… ہاں… وہ تو انجام بھول ہی گئی تھی… سحر اب ٹوٹنے لگا تھا… گہرے پانیوں کی گہرائیوں میں بلا کا اندھیرا ہوتا ہے اور فرعون کو اسی اندھیرے میں ڈبو دیا گیا تھا اس کی فوج سمیت… اسے بھی اللہ نے کتاب مبین کے ذریعے سب کچھ صاف صاف بتا دیا ہے اب اگر وہ دل کی مانے گی تو ڈوب جائے گی اندھیروں میں اپنی خواہشوں اور نفس سمیت۔

شیطان کا شکنجہ دھیرے دھیرے ڈھیلا پڑنے لگا تھا۔

’’وقتی Affection کو محبت سمجھنے کی غلطی اکثر لڑکیاں کرتی ہیں اور بہت ہی غلط کرتی ہیں… اللہ کے بنائے گئے حدود پار کرتی ہیں اور سوچتی ہیں کہ اللہ ان کا محافظ رہے گا تو غلط سوچتی ہیں اور بہت غلط سوچتی ہیں…‘‘

اسے اپنے پیچھے اب ہلکی سی روشنی نظر آرہی تھی مگر سامنے اب بھی شجر ممنوعہ موجود تھا…!

’’شیطان اعمال کو خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے… وہ انسان کو اللہ کی عطا کی گئی جنت سے نکلوانے کے لیے شجر ممنوعہ کو انتہائی پرکشش بنا کر پیش کرتا ہے۔ اللہ کے کچھ احکام بہت واضح ہیں۔‘‘ بتول اب آہستہ آہستہ ان باتوں پر آرہی تھی جنہیں اگرپہلے کہہ دیتی تو شاید اتنا اثر نہ کرتیں…

’’جہاں صر ف ابن آدم اور بنت حوا ہو وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے اور یہ اصول نہیں بدلتا… اور جب شیطان آجائے؟ اللہ کی رحمت سے دھتکارہ ہوا جب دو کے درمیان آجائے تو وہ انہیں بھی اللہ کی رحمت سے دھتکارا ہوا بنانا چاہتا ہے۔ آخر وہ عدو مبین ہے اور اپنا وعدہ نبھا رہا ہے۔‘‘

’’اور کوئی بنت حوا، ابن آدم سے نرم آواز میں بات نہ کرے… یہ حکم آسمانوں سے آیا ہے خالق نے اتارا ہے اس لیے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا اور وہ اس کی نفسیات کی ایک ایک گرہ سے واقف ہے، خوب سمجھتا اور جانتا ہے… وہ چاہے کتنا ہی ڈیسنٹ، مہذب، شریف اور بااخلاق شخص رہے، اگر وہ نامحرم ہے تو بس آواز میں نرمی نہ ہو، بلا ضرورت بات نہ ہو… یہ صاف و شفاف اصول ہے بنت حوا کے لیے تاکہ اس کا کردار بھی صاف و شفاف رہے اور وہ خرابی سے بھی بچی رہے۔‘‘ روشنی دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی…

’’چلو میں نے اس سے کبھی Face to faceبات نہیں کی اور نہ کبھی تنہائی میں ملی اور …‘‘

’’سائرہ صراطِ مستقیم یہ ہے کہ نامحرم سے اس طرح بات ہی نہ کی جائے کہ وہ کچھ غلط سمجھ بیٹھے، اور شیطان اس کے دل میں کوئی ٹیڑھ پیدا کر دیے، کئی پگڈنڈیاں بنا ڈالے… لیکن میں بتاؤں تمہیں کہ انٹرنیٹ، فیس بک، واٹس اپ، سوشل نیٹ ورک وغیرہ پر چیٹنگ بھی اسی ضمن میں آتی ہیں چاہے آپ کوئی بھی Reason دیں کیوں کہ نتائج کے اعتبار سے وہ بھی بعض اوقات وہیں لے جاتی ہیں، دیکھو! اصول نہیں بدلتے…‘‘

سائرہ کی آنکھوں میں نمی آگئی… بتول آپی کو امی آواز دے رہی تھیں…

’’گناہ وہ ہوتا ہے جو بے سکون کر دے، گناہ وہ ہوتا ہے جسے آپ چھپانا چاہیں، جس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں… تو اب تم خود ہی اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ لو… مگر ایک آخری بات کہ گناہ کو Justifiy مت کرو۔ یہ اس سے بڑھ کر گناہ ہے… بس اسے چھوڑ دو، اللہ سے معافی مانگو اور اسے دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کرو اور اس وعدہ پر قائم رہو… آدم علیہ السلام نے غلطی مان کر معافی مانگ لی تھی، شیطان نے اپنی غلطی کو Justifiy کیا تھا… آگے کی کہانی تمہیں خود پتہ ہے…‘‘ اتنا کہہ کر بتول تو نیچے چلی گئی مگر سائرہ اس خاموش اندھیرے میں خاموشی سے کھڑی کی کھڑی رہ گئی… شجر ممنوعہ اب بھی دکھائی دے رہا تھا… لیکن اب پیچھے بہت روشنی تھی اور فیصلہ اس کے ہاتھ میں تھا… اور کچھ فیصلے بالخصوص نفس کے خلاف فیصلے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اور اس کے بعد کچھ عرصہ مشکل سے گزرتا ہے مگر یہ فیصلے انسان کو مزید مشکلات سے بچائے جانے کے لیے ہیں۔۔۔ اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آتے ہیں۔۔ ۔جہاں قدم بہکنے کے لیے ایک لمحہ چاہیے وہیں زندگی بدلنے کے لیے بھی بس ایک لمحہ چاہیے۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے… شیطان پھر سے آگے بڑھ رہا تھا، وسوسہ ڈالنے کے لیے تبھی اس نے زمین و آسمان کے نور کو تھامنے کے لیے ہاتھ اٹھا دیے…

’’یا اللہ، یا الودود، یا لطیف، یا الغفار، یا المجیب…

ایک میں ہوں کمزور سی، بے بس سی بندی…

اور ایک میرا دل ہے، چھوٹا سا، خواہشوں سے بھرا، امنگوں سے سجا، دنیا کے لیے ہمکتا ہوا سا… اور ایک شیطان ہے… وسوسہ ڈالنے والا، بس ایک وسوسہ ڈال دیا اور بھاگ کھڑا ہوا… خناس… وسوسہ ڈال ڈال کر بھاگنے والا اور بھاگ بھاگ کر ان وسوسوں کے عمل و ردعمل سے ہونے والی خناسیت کو دیکھنے آنے والا…

اور پھر ایک میں ہوں … اور پناہ مانگتا میرا وجود!!

اس رب سے، لوگوں کے رب، لوگوں کے اللہ اور لوگوں کے مالک کی پناہ میں آنے کے لیے دعا کرتا میرا وجود‘‘ وہ لرزتے ہاتھوں اور لرزتے دل کے ساتھ۔۔۔ جھکے سر اور برستی آنکھوں کے ساتھ پناہ مانگ رہی تھی، پناہ میں آرہی تھی۔۔۔ اندھیرے سے نکل رہی تھی۔۔۔ روشنی میں جا رہی تھی۔۔۔ ایک سکون اس کے اندر اترنے لگا۔۔۔

’’اور پھر اس کی رحمت کی آندھی جو زہرناک ہوا کو نکال کر تازہ ہوا سے ہمکنار کرتی ہے، ایمان اور یقین … او ریہ ایمان او ریقین پھر سے دلوں کو خواہشوں اور امنگوں سے سجا دیتا ہے لیکن اب اس میں اللہ کا نور بھی شامل ہو جاتا ہے… اور جب اللہ کا نور دل میں سما جائے تو پھر کوئی شجر ممنوعہ دل و دماغ میں نہیں سما پاتا… اور یہ اللہ ہی تو ہے جو اس سے مانگنے والوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے… امید کی روشنی، محبت کی روشنی، زندگی کی روشنی، ہدایت کی روشنی…

اور جو اللہ سے نہیں مانگتا، اس کی پناہ میں نہیں آتا، نفس کو آزاد چھوڑ دیتا ہے، وسوسوں کو دل میں اور خناس کو دماغ میں سمانے دیتا ہے تو پھر وہی خناس اس کا حامی و مددگار بن جاتا ہے اسے روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتا ہے… مایوسی کا اندھیرا، جہالت کا اندھیرا، دکھ و یاسیت کا اندھیرا، قبر جیسا اندھیرا…

اس نے بالآخر اندھیرے کو مات دے دی اور نور کو اپنے اندر سمانے دیا… اور اگر اس موقع پر وہ چوک جاتی تو پھر اندھیروں میں ڈوب جاتی… ویسے آپ کیا سوچ رہے ہیں… چلئے روشنی کے سفر کی طرف قدم بڑھاتے ہیں…lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں