یہ ایک باحوصلہ، بہادر اور جری عورت کی کہانی ہے جس نے اپنے سماج میں مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کر کے اپنا راستہ بنایا۔ اس کا نام ریبیکالی کرمپلر ہے، جس نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کے بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے نام و مقام حاصل کیا۔یہ اس دور کی بات ہے جب امریکہ میں رنگ و نسل او رصنف کی بنیاد پر امتیاز روا رکھا جاتا تھا۔ سفید چمڑی والے سیاہ فام شاید انسان ہی نہ تھے۔ اس کی تذلیل کی جاتی اور بدترین سلوک کیا جاتا۔ عورت عزت اور تکریم سے محروم تھی۔ اسے طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا تھا۔
ریبیکا کرمپلر کا نام پہلی سیاہ فام خاتون کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے امریکہ میں فریشین اور ڈاکٹر آف میڈیسن کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ ان کے اجداد کا تعلق افریقہ سے تھا جنھوں نے ہجرت کے بعد امریکہ کو مستقر بنایا۔ ۸ فروری ۱۸۳۱ کو کرم پلر نے دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کا بچپن پینسلوانیا میں اپنی خالی کے گھر میں گزرا جو اپنے ناتواں اور کمزور پڑؤسیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور اپنی برادری میں ڈاکٹر مشہور تھیں۔ ریبیکا ان سے بے حد متاثر تھیں۔ انھی کو دیکھ کر ان کے دل میں ڈاکٹر بننے کی خواہش نے جنم لیا، لیکن اس دور میں ایک عورت اور وہ بھی سیاہ فام کے لیے اس خواہش کی تکمیل نہایت مشکل کام تھا۔ امریکہ میں نسلی امتیاز اپنے عروج پر تھا، لیکن ریبیکا نے ثابت کیا کہ انسانی عزم اور ارادے کے آگے آہنی دیوار بھی نہیں ٹکی رہ سکتی۔ انھوں نے تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ تعلیمی سلسلہ شروع ہوا تو وہ اپنے اسکول کی لائق طالبہ شمار کی گئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۸۵۲ میں وہ میسا چوسٹس منتقل ہ وگئیں اور وہاں نرس کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔ ا سکے ساتھ ہی ان کی نیو انگلینڈ فیمیل میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ ۱۸۶۰ میں ان کی یہ کوششیں ثمر بار ہوئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاہ فام خواتین تو دور کی بات سیاہ فام مرد بھی میڈیکل کالج میں داخلے کی خواہش کا اظہار بھی کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔
۱۸۶۰ میں میڈیکل کالج میں کوئی سیاہ فام امریکی خاتون زیر تعلیم نہ تھی اور یہی وجہ تھی کہ کالج کی انتظامیہ کرمپلر کی درخواست پر تذبذب کا شکار تھی، لیکن بہ طور نرس ان کی فرض شناسی، لگن اور مریضوں سے احسن برتاؤ کی بنیاد پر چند ڈاکٹرز نے ان کی سفارش کی تھی، جسے اہمیت دی گئی۔ اس شعبے میں ریبیکا نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا اور امتحانات میں کام یابی پر ۱۸۶۴ میں ڈاکٹر آف میڈیسن کی سند اور خطاب سے نوازی گئیں۔ اس طرح وہ پہلی سیاہ فام خاتون بنیں جس نے امریکہ میں شعبہ طب میں گریجویشن کیا اور فریشن بن کر پریکٹس شروع کی۔ بوسٹن میں پریکٹس کے دوران وہ غریب بچوں اور ناچار عورتوں کا علاج بڑی دلجمعی سے کرتی رہیں۔ امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد وہ ورجینیا چلی گئیں۔ انھوں نے بچوں اور عورتوں کی صحت اور علاج کے ساتھ ان آزاد غلاموں کا علاج بھی شروع کر دیا جو سفید فام معالج کے پاس جانے سے کتراتے تھے۔ لیکن ان کا یہ سفر آسان نہ تھا۔ طبی شعبے میں پریکٹس کے دوران وہ نسل پرستی اور تعصب جھیلتی رہیں۔ ان کا عورت اور خاص طور پر سیاہ فام ہونا ان کے لیے گویا گالی بن گیا تھا۔ ڈاکٹر انہیں نظر انداز کرتے، سینئر، معالج ان کی تذلیل کرتے اور فارم سسٹ ان کے طبی نسخوں کو اہمیت نہ دیتے۔ وہ دل برداشتہ ہوکر دوبارہ بوسٹن چلی گئیں جہاں نئے جوش و جذبے کے ساتھ پریکٹس شروع کی۔ بوسٹن میں وہ اپنے گھر پر بچوں کا مفت علاج بھی کرتی رہیں۔
۱۸۸۳ میں ان کی پہلی کتاب بازار میں آئی اور یوں وہ انیسویں صدی کی پہلی فزیشین رائٹر بھی بن گئیں۔ ان کی کتاب بچوں اور خواتین کی صحت او ران کی دیکھ بھال سے متعلق تھی۔ اس کے علاوہ کتاب میں ان کی طبی دنیا کے تجربات اور مشاہدات بھی بھی شامل تھے۔
اپنے دور کی یہ باہمت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ۹ مارچ ۱۸۹۵ کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئی۔