ریچھ

شاہدہ شاہین (میسور)

اس کے پاپا محکمہ جنگلات میں آفیسر کے عہدے پر فائز تھے۔ دورانِ ملازمت اُنہیں ہمیشہ جنگل کے قرب و جوار کسی گاؤںمیں بنگلہ الاٹ کیا جا تا تھا۔ وہ چھوٹا سا گاؤںتینوں اطراف گھنے جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ جنوبی سمت میں ایک بہت اونچی خودرو جھاڑیوں سے پُر خطرناک پہاڑی ایستادہ تھی۔ دور دراز مقام پر واقع ہو نے کے باوجود اِس علاقے میں اسپتال، اسکول، کالج، کلب وغیرہ کا معقول انتظام تھا۔

اُن کا خوبصورت سا بنگلہ گاؤں سے پرے ایک پتلی سی ندی کے کنارے واقع تھا۔بنگلے کے اِردگرد میکسِکن گھاس کا ہرا بھرا لان بناہوا تھا۔جگہ جگہ کیاریوں میں سیکڑوں رنگ برنگے و خوش نما پھول کھلے رہتے تھے۔جن پر لاتعداد تتلیاں منڈلایا کرتیں۔لان کی مخملی گھاس پر تتلیوں کے پیچھے دوڑنا اُس کا محبوب مشغلہ تھا۔بنگلے کے چاروں اطراف اونچی خار دار جھاڑیوں کی باڑھ لگائی گئی تھی ۔ بڑے سے آہنی گیٹ پر بندوق سے لیس ایک باوردی چوکیدار چوبیسوں گھنٹے تعینات رہتا تھا۔باڑھ کے اُس پار گھنا جنگل شروع ہو جاتا تھا جو جنگلی جانوروں سے پُر اوربے حد خطرناک تھا۔اُس کی دادی ماں ہمیشہ تنبیہ کرتی رہتی تھیں۔

’’بٹیا کھیلنے کے لئے اکیلی باہرمت جانا،خاص کر شام ڈھلے تو ہرگز نہیں۔سنا ہے اِس جنگل میں ریچھ کثرت سے رہتے ہیں۔خدانخواستہ کوئی تجھے اُٹھا نہ لے جائے۔ ‘‘

کہا جاتا تھا کہ اِس جنگل میںبے شمار خونخوار جانوروں کے علاوہ ریچھوں کی بھر مار ہے جو آئے دن خصوصاََ عورتوںپر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ دادی ماں کا ماننا تھاکہ اکثر ریچھ عورتوں کو اُٹھا لے جاتے ہیں، اُنہیں ساتھ رکھتے ہیں۔ مرجانے پربھی نہیں چھوڑتے۔

گم شدگی کی رپورٹ پر جنگل میں تلاشی کے دوران عورت کی لاش عموماً ریچھ کی کچھار سے بر آمد ہوتی، بدن پر نوچ کھسوٹ اور ناخنوں کے نشان ملتے۔ اُسے ریچھوں کے نام سے بھی خوف آتا تھا۔ اسکول کومحکمہ جنگلات کی بندجیپ گاڑی میں جایا کرتی تھی۔

اُسے آج بھی یاد تھا۔گاؤںسے شریفہ آنٹی اکثر اُن کے گھر آیا کرتی تھیں۔ساتھ میں اُن کا پوتا بھی ہوا کرتا تھاجوبے حد نٹ کھٹ تھا، کبھی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتا تھا۔ جب بھی آتا نت نئی شرارتوں سے اُسے پریشان کرکے رکھ دیتا ۔بلا ضرورت پھول توڑتا رہتا۔باغ میں اُڑ رہی خوبصورت تتلیوں کو پکڑ کر اُن کے نوچ لیتا۔ اُس دن دیکھتے دیکھتے اُس کی سب سے پیاری کانچ کی گڑیااُٹھا کر پھینک دی۔گڑیاچھن سے گر کر ٹوٹ گئی اور وہ ہنس پڑا تھا۔ اپنی گڑیا کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ پیر اور سر کو لے کر وہ کتنا روئی تھی۔

دادی ماں نے زچ ہوکر شریفہ آنٹی کو تنبیہ کی تھی۔

’’بچے تو فطرتاًشریر ہوتے ہیں۔ نادیدہ کرنے کے بجائے وقتاًفوقتاًنصیحت کرکے بے جا شرارتوں سے اُن کوباز رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ‘‘

اوراُنہوں نے نخوت بھراجواب دیاتھا۔۔۔۔۔۔’’ مرد بچہ ہے۔وہ شرارت نہیں کرے گا تو کیا یہ کمزور اور دھان پان سی لڑکیاں کریںگی اور ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ بچے جس قدر شرارتی ہوتے ہیں اُتنے ہی ذہین ہوتے ہیں۔‘‘

دادی ماں نے فوراََ سرزنش کرتے ہوئے کہا۔

’’جی ہاں!معصوم ذہنیت کو اگرصحیح سمت نہ ملی توآگے چل کراِس کا غلط اِستعمال بھی ہو سکتا ہے۔ اب یہی دیکھ لو۔۔۔۔۔۔ گڑیا سے کھیلنے کے بجائے نیچے گرا کر توڑ دی۔ یہ توڑ پھوڑ، مار پیٹ اچھی علامتیں نہیں ہیں۔ اِس سے تخریبی ذہنیت کی بُو آتی ہے۔تمہارا فرض بنتا ہے کہ اِسے بھلابرا اور صحیح غلط کے بارے میں آگاہ کرتی رہو‘‘

آنٹی شریفہ زور سے ہنس پڑیں اور تیوریاں چڑھاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔’’ارے یہ لڑکا ہے! گڑیا کیوں کھیلے گا،ہنھ ۔۔۔۔۔۔ لڑکوں کو اتنا نرم مزاج بنانے لگے تو آگے چل کرزنخوں کی فوج تیار ہوگی۔ ‘‘

دادی اماںگویا ساری دنیاکے محفوظ وخوش آئند مستقبل کی خاطر آج اپنی باتوں سے اُنہیں باور کرانے پر تُل گئی تھیں۔ پلّا چھڑاکر جاتی ہوئی شریفہ آنٹی کو مخاطب کرتی ہوئی بولی تھیں۔

’’میری بات گرہ باندھ لو۔ اگر اِسی طرح بے جا شہ دی جاتی رہی تو آگے چل کر ناسمجھوں اورظالموں کی فوج ضرور تیار ہوگی ۔آج کے بچے کل کے شہری ہیں ۔ اِن کے دلوں میں اگر بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے پیار،جانوروں اور کمزوروں پر رحم، عورتوں کا احترام ،خاندان کی عزت و ناموس کا احساس اور خوفِ خدا نہ پیدا کیا گیا تو کل یہی بچے نوجوانی کی طاقت وخمار میں سماج کے او پر قہر بن کر ٹوٹیں گے۔اپنی ماں بہنوں اور ملک کی عزت کے رکھوالے نہیں بلکہ اُسے تار تار کرنے والے ثابت ہونگے اورپھر اِنہیں روکنا ناممکن ہوکر رہ جائے گا۔تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ محبت اور انسانیت کے بل پر سخت سے سخت ترین دلوں میں بھی پیارو شفقت کے پھول کھلتے رہے ہیں۔۔۔ راکھی کے نام پر صرف ایک کچا دھاگہ اپنی کلائی پر بندھوا کر ایک طاقت ور شہنشاہ نے مجبور و بے بس رانی کواپنی منہ بولی بہن بنالیا تھااور تا دم ِزیست دشمنوں سے اُس کی حفاظت کی تھی۔ نہ جانے کہاں گئے وہ لوگ! کہاں اوجھل ہو گئیں وہ اِنسانی قدریں،وہ سچے جذبے ، وہ ولولے !تم جیسی کئی نادان عورتوں نے بچوں کو صحیح وقت پر مناسب تعلیم نہ دے کر خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی ہے۔ اولادِ نرینہ کے زعم میں اُسے کمزوروں کا محافظ نہیں بلکہ قہر و غضب کا پتلا بناکر رکھ دیاجو عورت کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھنے کے بجائے صرف ہوس کا سامانِ تسکین سمجھنے کی سوچ رکھتا ہے۔ یاد رکھو!اولاد کو اخلاقِ حمیدہ واعلیٰ تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا ایک ماں کاپہلافرض ہے۔ ورنہ اُس کا اپنا خون سما ج کے لئے ناسور بن کر رہ جائے گا۔‘‘

شریفہ آنٹی لاجواب ہوکر جانے لگیں تو دادی ماں نے آگے بڑھ کر اُن کے ہاتھ تھام لئے اور معذرت کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔

’’ ملک و قوم کے مستقبل وبہبودی کی فکر میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو کر بہت کچھ کہہ گئی ۔ تمہیں برا تو لگا ہوگا لیکن میری باتیں ہمیشہ یاد رکھنا،کیونکہ یہی سچ ہے۔ ‘‘

’’ارے نہیں،بلکہ میری تو آنکھیں کھل گئیں۔ آپ نے سو فیصدی درست کہا ،درس گاہ بچے کو تعلیم یافتہ بناتی ہے۔ ماں کی تربیت ونصیحت اُسے انسان بناتی ہے۔ آج حواکی بیٹیوں پر ہو رہے ہولناک مظالم کے پسِ منظرمیں لاتعداد وجہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اکثر عورت نے عورت کے حق میں کانٹے بوئے ہیں۔کبھی جہیز کے لالچ میں بیٹے اور شوہر کے ساتھ مل کر کسی کی نورِ چشم کو زندہ جلا دیا ہے تو کبھی اپنے فرض کے تئیں کاہلی وچشم پوشی کرتے ہوئے اولاد کودرندہ صفت بنا کر سماج میں کھلا چھوڑ دیا۔ ‘‘

اِسی ڈر کے سائے میںپل کر وہ جوان ہوئی۔ ماں اُس کی بچپن میں ہی گزر گئی تھی اب دادی ماںبھی نہیں رہیں۔ اُس کے پاپا کی ترقی ہوئی اور شہری علاقے میں اُن کی پوسٹنگ ہوگئی۔ یہاں آکر اُس نے اِطمینان کی سانس لی کہ چلو ریچھوں کے خطرے سے نجات ملی۔

ایک مقامی کالج میں اُس کا داخلہ ہو گیا۔ عام لڑکیوں کی طرح وہ بھی آزادی کی کھلی ہوا میں سانس لیتے ہوئے دو پہیہ گاڑی پر بے خوف و خطرکالج جانے لگی۔ یہ اُس کی زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے۔ نوجوانی کی معصوم ترنگوں اور ولولے سے بھرپور منصوبے، ملک اور قوم کا نام روشن کرنے کا عزم،اپنے بل پر کچھ کر دکھانے کا مضبوط اِرادہ اُس کے دل میں جاگزیں تھا۔ نظریں ستاروں پر اور پاؤں بادل پر تھے۔نو عمری کے بھولے پن میںایک انوکھے احساسِ تحفظ کے زیر اثراُسے ہر فرد بے ضرر ،ہرایک مقام وہر چیز اپنی سی لگتی تھی۔

اُس کے پاپا اکثر کہتے رہتے تھے کہ ۔۔۔۔۔ـ’’بیٹا سنبھل کر جانا۔ کہو تو میں خود گاڑی میں تمہیں ڈراپ کر دیا کروں گااور شام کو لینے بھی آجایا کروں گا۔‘‘

جواب میں وہ ہنس پڑی تھی ۔۔۔۔

’’ارے یہ کوئی جنگل تھوڑی ہے!مہذب اِنسانوں کا علاقہ ہے۔یہاں ڈر کیسا!‘‘

دھیرے دھیرے اُسے محسوس ہونے لگا کہ اکثر کچھ ہیولے اُس کا پیچھا کرتے ہیںجو دیکھنے میں تو اچھے بھلے اِنسان نظر آتے ہیں لیکن اُن کی آنکھوں میں ریچھ کی سی درندگی صاف جھلکتی ہے! اُسے خود پر ہنسی آگئی۔۔۔۔۔۔۔’’ریچھوں کے علاقے میں پلی بڑھی ہونے کا اثر ہے جس کی وجہ سے آدمیوں میںبھی مجھے وہی شبیہ دکھائی دیتی ہے!‘‘

کبھی کبھی اُن چہروں پر بھی بالکل یہی جذبات دکھائی دیتے جن سے ہر دن سابقہ پڑتارہتا تھا ۔کچھ معززہستیاں جن کا وہ بے حد احترام کرتی تھی، اُن کی ٹٹولنے والی نظروں سے ایسالگتا جیسے لباس کے پیچھے چھپے ہوئے اُس کے بدن کا جائزہ لے رہے ہوں۔ اِس عجیب صورتحال سے بوکھلا کر وہ کسی راہِ فرار یاجائے پناہ کی جستجو میںبے سوداِدھر اُدھر دیکھنے لگتی ۔

اُس دن کالج فیسٹیول تھا۔ ختم ہوتے کافی دیر ہو گئی۔ آسمان میں بادل گھر آئے تھے۔ اُس نے اپنے ایک کلاس فیلوسے کہہ رکھا تھا کہ واپسی میں اکٹھے چلیں گے کیونکہ اُس کا اپناگھربھی اُسی راستے میں پڑتاتھا جدھر اُسے جانا تھا۔پروگرام ختم ہونے کے بعد دونوں بے فکری کے ساتھ ہنستے اور باتیں کرتے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔

سڑک کے کنارے لگے ہوئے برقی قمقمے روشن ہو چکے تھے۔باتوں میں اُنہیں پتہ ہی نہیں چلا، چلتے چلتے سڑک کا وہ حصہ آگیاتھا جو قدرے ویران رہتا تھاسورج ڈھلنے کے بعدتوبالکل سنسان ہوجاتا۔ اِنتظامیہ کے ذریعے اُس جگہ دور دور تک کوئی برقی قمقمہ بھی نہیں لگوایا گیا تھا۔

ناگاہ سامنے سے آتی ہوئی ایک کارکے ہیڈ لائٹس کی تیزروشنی میں دونوں نہا گئے۔اُن کی آنکھیں چندھیاگئیںاور گاڑیوں کو بریک لگانا پڑا۔ کار بھی روک دی گئی تھی لیکن ہیڈ لائیٹس آن تھیں۔ کارکے اندر سے تین افرادلڑکھڑاتے ہوئے اُترے تھے۔ اُن میں سے ایک دوڑتا ہوا آیا اور بجلی کی سی سرعت کے ساتھ آگے بڑھ کر اپنے قوی ہاتھ سے اُس کا منہ بند کردیا ،دوسرے بازو پراُسے گڑیا کی طرح اُٹھا لیا اور کندھے پر ڈال کار کی طرف چل پڑا۔چشمِ زدن میں سب کچھ ہو گیاتھا۔مزاحمت تو وہ کیا کرتی ،مارے خوف کے اُس کی گھگھی بندھ گئی تھی اور ہاتھ پیر شل ہو چکے تھے ۔پیچھے سے ہاتھا پائی کی آوازیں آرہی تھیں۔ معاً اُس کے ساتھی لڑکے کی ایک زوردارچیخ اُس سناٹے میں گونج اُٹھی پھر گھپ اندھیرا چھا گیا۔

اگلے دو ڈھائی گھنٹوں کے دوران اُس پر سیکڑوں قیامتیں گذر گئیں۔۔۔ تکمیلِ ہوس وجنونِ تنوّع کے زیر اثر اِجتماعی طور پراُس کے ساتھ ذلت و ایذا رسانی کا و ہ کھیل کھیلا گیا جسے سن کردوزخ کے فرشتے بھی کانپ اُٹھیں۔ وہ ہاتھ جوڑ ،رشتوں کی دہائی دے کر رحم کی بھیک مانگتی رہی لیکن شراب کے نشے میں دھت اُن راکھشسوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بے یار و مددگاراُس کے بدن پر سے سارے کپڑے نوچ کربھوکے کتوں کی مانند اُسے بھنبھوڑ تے رہے۔ اُس بہیمانہ سلوک کے نتیجے میں دھان پان سے جسم کی کئی نرم ونازک ہڈیاں چٹخ کر رہ گئیںاورروح لہو لہان ہوتی رہی۔ افسوس کہ قدرت کوبھی اُس پر رحم نہ آیا۔۔۔ موت پاس آتے شرمارہی تھی۔ تھر تھرکانپتی نظریں چراتی دور کھڑی رہی۔حتی کہ جائے وقوعہ سے فرار ہو گئی۔ حد درجہ ایذا رسانی کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بے ہوش ہو گئی۔

دوسرے دن ہر اخبار و نیوز چینل اِسی ہولناک حادثے کی صدائے بازگشت سے گونج رہا تھا۔پولیس کی غیر ذمہ داری کے لئے اُن پر لعن طعن کے تیر برسائے جارہے تھے۔ ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ سرکار ی حکام کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لئے لوگ مجبوراََسڑکوں پر اُتر آئے تھے۔ خصوصاََ عورتوں کے لئے حفاظتی تدابیر لاگو کرنے اور قانون کو سخت سے سخت تربنانے کی سمت فوری طور پرقدم اُٹھانے کی سرکاری حکام سے مانگ کی جارہی تھی ۔ عبادت گاہوںمیں اُس کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگی جا رہی تھیں۔شہر کے سبھی تعلیمی ادارے خالی و ویران تھے ۔پریشاں و حراساں طالب علم ہسپتال کے احاطے میں اپنی ساتھی کی درگت پر غم و غصے کے عالم میںمظاہرہ کر رہے تھے ۔

کانچ کی گڑیا کی طرح ٹوٹی پھوٹی حالت میں وہ ہسپتال میںبسترمرگ پر پڑی تھی۔بدن کی بوٹی بوٹی زخمی تھی۔ لا تعداد مشینوں سے گھرا درد کے بے کراں سمندر میں غوطے کھاتا ہوا اُس کاجسم بے حس و حرکت ہو چکا تھا۔ لیکن دماغ جاگ رہاتھااور چلا چلا کر دہائی دے رہا تھا۔

’’وہ کوئی درندے نہیں بلکہ انسان ہی تھے جنہوں نے میرے جسم کو ناقابلِ برداشت اذیت وروح کو ناقابلِ فراموش ذلت سے دوچار کیا ہے۔آخر کیوں، میرا قصور کیا تھا؟ یہی ناکہ میں ایک عورت ہوں ! کمزور، بے ضررسا کھلونا ۔لیکن کوئی یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ اُسے اِس دنیا میں لانے والی ایک عورت ہی تھی۔ اپنے خون سے سینچ کرایک کمزور گوشت کے لوتھڑے کو کڑیل جوان بنانے والی بھی عورت ہی ہے۔ اوہ۔۔۔ فون کی گھنٹی بج رہی ہے۔ کسی منتری کافون آیا ہے کہ کسی بھی قیمت پرلڑکی کی جان بچانی ہوگی ورنہ اُس کی پارٹی کی ساکھ اور مستقبل دونوں خطرے میں پڑ جائیں گے ۔۔۔۔کیا کوئی قانون کا رکھوالا میری معصوم ہنسی، میرا کھویا ہوا وقارلوٹاسکتا ہے ۔۔۔پھر میری جان بچانے کا جواز کیا ہے ؟ موت بھی تومجھے وہ سب کچھ واپس نہیں دلوا سکتی جو زبردستی مجھ سے چھین لیا گیا! میرے مجرموں کو اگر پھانسی کی سزا بھی ملے توکوئی فائدہ نہیں لیکن ہاں! اِس سے دوسروں کو کچھ عبرت تو حاصل ہوگی۔ میری رائے میں اُنہیں سرِ عا م زندہ جلا دیا جانا چاہئے۔ مسلح گارڈز کی نگرانی میں قلعہ نما سرکاری بنگلوں کے اندررہنے والے یہ اِنسان جو اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ گردانتے ہیںاگر معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو اِنہیں کوئی حق نہیں پہنچتاکہ اعلیٰ عہدے پر قائم رہیں۔ یہ نااہل لوگ آخر کب تک بے ضرر شہریوں کی زندگی کو داؤ پر لگاتے رہیں گے۔ اُف۔۔۔ یہ کرسی نشیں حکام نہ جانے کتنی قربانیاں لیں گے!اُنہیں غفلت کی نیند سے جگانے کے لئے اور کتنی درد بھری چیخیں درکار ہونگی؟ آہ ۔۔۔ کمبخت موت لمحہ بہ لمحہ میری طرف بڑھ رہی ہے، ایک جست میں آ کیوں نہیں جاتی؟ میرے پاپا حملہ آور ریچھوں کوآناََ فاناََ گولی سے اُڑا دیا کرتے تھے لیکن اِنسانوں پر تومہ و سال مقدمہ چلتا ہے۔۔۔۔ہو سکتاہے کسی کے سایہء عاطفت کے آسرے چھوٹ بھی جائیں! بہرحال اُنہیں درندے کا نام دینا بھی کسی درندے کی بے عزتی کے مترادف ہے اور میری دادی ماں جیسی حساس ودور اندیش عورتیں کتنی ہیں جو اِس ازلی و دوامی حقیقت کا اعتراف کریں گی کہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ـ ‘‘lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں