عمر رسیدہ دادی سے مچلتے ہوئے اس کا پوتا منٹو اس سے دریافت کر رہا تھا۔
’دادی! آپ نے تو کہا تھا کہ پاپا شام تک ضرور گھر آجائیںگے۔ شام تو ہوگئی ہے، پر پاپا ابھی تک کام سے واپس کیوں نہیں آئے دادی؟‘‘
یہ کہتے ہوئے معصوم منٹو اپنی ۸۵ سالہ عزیزہ دادی کی ٹانگوں سے لپٹا ہی جا رہا تھا۔ اگرچہ اس کے اس طرح سے لپٹنے سے دادی کو کچھ دقت پیش آرہی تھی، اسی کے لیے آئندہ جاڑے کے مدنظر دادی کی سویٹر بننے میں مصروف انگلیاں اس کے لپٹنے سے لرز لرز رہی تھیں۔ تاہم وہ نہ تو کوئی احتجاج کر رہی تھی اور نہ ہی اپنے ناز و نعم سے پرورش شدہ پوتے کو وہ جھڑک ہی پا رہی تھی۔ یہ اس کے لیے اس کی حد درجے کی شفقت و یگانگت کا ہی ایک پختہ مظہر تھا۔ اس کے برعکس وہ اپنے ایک خالی ہاتھ سے اس کو اور بھی زیادہ اپنے زانووں کے قریب کیے جا رہی تھی۔ اسی درمیان اس کی ناصاف ہوتی جا رہی نظر والی چھوٹی چھوٹی چینی آنکھیں شام کے اس میلے اجالے میں اس وقت سویٹر کے پھندوں میں ہی گڑی جا رہی تھیں۔ اپنی مصروف انگلیوں میں پکڑی ہوئی پرانی سلایوں سے اب وہ جیسے تیسے سویٹر کی بنتی پوری کرنے میں منہمک نظر آرہی تھی۔
’’دادی! اب کتنا ٹیم ہوگیا ہے؟‘‘ منٹو کا متجسس لہجہ پھر سے ابھر رہا تھا۔ عین اسی وقت رسوئی میں کام کاج میں مصروف اس کی ماں سروج کی شفقت آلود شہدیلی آواز آئی۔ ’’ابھی دو دن پہلے تو تجھے گھڑی میں ٹائم دیکھنا سکھایا تھا۔ اتنی جلدی بھول گیا کیا؟‘‘
’’نہیں بھولا تو نہیں ممی، پر … ذرا ٹھہرو! گھڑی دیکھ کر جیسے بتایا تھا حساب لگا کر بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر منٹو نے رو برو دیوار پر لگے ہوئے وال کلال پر اپنی چھوٹی چھوٹی نیلگوں آنکھیں گڑا دیں تھیں۔ بعد ازاں چند لمحے اپنی لمبی پتلی انگلیوں پر حساب لگاتے ہوئے بولا ’’پانچ… پانچ… بج کر … ایک …دو … تین … چار… پانچ… پچیس منٹ… پورے پانچ بج کر پچیس منٹ ہوگئے ہیں۔ کیوں ممی، کیوں دادی! ٹھیک ٹائم بتایا نہ میں نے؟‘‘
’’ارے! بدھو! بھلا میں کیا جانوں گھڑی وڑی دیکھنا، مجھے کہاںٹیم ویم دیکھنا آوے ہے گا؟ بہورانی نے مجھے کہاں تیری طرح سے سکھایا ہے گا؟‘‘ دادی نے اپنے پچکے آموں جیسے پوپلے گالوں سے ایک کھوکھلی ہنسی ہنس کر کہا۔
’’اُں ہوں دا… دی ی ی! آپ تو اتنی بڑی ہوگئی ہیں، پھر بھی ابھی تک آپ کو ٹیم دیکھنا نہیں آیا ہے؟‘‘ بعد ازاں کچن کی طرف اپنا منہ گھما کر اونچے لہجے میں بولا ’’کیوں ممی ٹھیک بتایا نہ میں نے؟‘‘
’’ارے یہاں کھڑے کھڑے بھلا مجھے کیسے پتا لگے گا ٹائم کا؟ تیرے پاپا نے یہاں کچن میں کوئی گھڑی تھوڑی لگوا رکھی ہے؟ تو ٹھیک ہی بتا رہا ہوگا۔ کچھ حساب لگا تو رہا تھا۔ میں یہاں کھیر بناتی ہوئی سارا حساب سن رہی تھی تیرا!ہاں نہیں تو…‘‘
’’اچھا پیاری دادی اب جلدی سے بتاؤ کہ پاپا گھر کیوں نہیں آرہے ہیں؟ تمہیں پتا ہے کہ آج شنی وار ہے۔ جب دفتر جا رہے تھے نا! تب سویرے مجھ سے کہہ کر گئے تھے کہ واپس آکر شام کو وہ عدالت بازار پکا گھمانے لے جاویں گے۔ ہیں، ممی کہا تھانا؟ اور یہ بھی کہا تھا نا کہ وہ مجھے ڈھیر سارے چاکلیٹ اور کرکرے بھی دلوادیں گے۔ دادی کب آویں گے پاپا؟ اب وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ کیا کسی کے سنگ گپیں تو نہیں ما رہے ہیں۔ جلدی سے گھر کیوں نہیں آتے ہیں؟ ویسے تو سارا دن ہی مجھے ’راجا بیٹا‘ راجا بیٹا، کہتے رہتے ہیں۔ پھر کیوں نہیں آتے اپنے راجا بیٹا کے پاس؟‘‘
’’بیٹے گھبراؤ نہیں! تیرے پاپا تو اس وقت راجپورہ میں ایک گاڑی میں بیٹھ بھی گئے ہیں اور یہ لو! اب تو ان کی گاڑی نے لمبی سیٹی بھی ما ر دی ہے۔ بس اب خوشی تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے راجا بیٹے کے پاس پہنچے کہ پہنچے!‘‘
اسی وقت کچن سے منٹو کی ممی کی چڑچڑاہٹ بھری آواز کھنچی چلی آئی ’’ماں جی! دو وقت ملنے پر بتی تو جلا لیا کرو! کتنی بار کہہ چکی ہوں پر آپ ہیں کہ اپنی دی ہوئی نصیحتوں پر خود بھی کبھی عمل نہیں کرتی ہیں! یہ کہنے کے ساتھ ہی وہ رسوئی سے ایک تولیے سے اپنے ہاتھ پونچھتی ہوئی باہر آتی نظر آئیں۔ اب وہ اپنے بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی کھوج رہیں تھیں شاید!
’’اب بہورانی، تجھے تو پتا ہی ہے کہ میری ان آنکھوں کو ان مری دیواروں میں سوئچ تک تلاش کرنا پڑے ہے! ہے کہ نہیں؟ اب بتی تو ہی اٹھ کر جلا دے نا؟‘‘ پھر کچھ لمحے رک کر بولیں۔ ’’سچ کہوں اب تو میری ان آنکھوں سے پانی مرا بھی بہنے لگ گیا ہے! میں تو اب شام ہونے سے یہ بنائی بھی بند کر رہی ہوں۔ یہ مرا سویٹر بھی ناجانے کب پورا ہوگا؟ہوگا بھی یا نہیں یا پورا ہونے سے پہلے کہیں میں ہی ناپوری ہو جاؤں!
’’ماں جی آپ نے پھر وہی مرنے ورنے کی دل دکھانے والی باتیں شروع کردیں؟‘‘
’’اچھا نہیں کرتی اب! پر کیا کروں، اب تو ان بوڑھی ٹانگوں سے جلدی اٹھا بیٹھا بھی تونا جاوے ہے!‘‘
’’اوہو! اس گھر میں تو ڈھیروں چھوٹے بڑے کام مجھے ہی نپٹانے پڑتے ہیں۔ جب سے سسر جی سورگ سدھارے، تب سے بازار سے سودا وغیرہ لانے کا کام بھی تو مجھی کو کرنا پڑتا ہے۔ اچھا ماں جی! یہ بتائیے کہ اگر آپ کی نگاہ ٹھیک کام نہیں کرتی ہے تو آپ سلائی بنائی کے ایسے ڈھیروں کام بھلا کیوں کرنے بیٹھ جایا کرتی ہیں؟ آج کل تو بازار میں سوسو ڈیزائنوں والے ریڈی میڈ سویٹر مل جایا کرتے ہیں۔ پھر آپ اس ڈھلتی عمر میں بھی سویٹر بننے میں اپنی کمزور آنکھوں کو اس طرح سے پھوڑے اور ہم دونوں میاںبیوی کا کلیجہ جلانے بیٹھ جایا کرتی ہیں۔ کشن جی نے بھی آپ کو کئی بار تو ایسے فضول کے کام کرنے سے روکا ٹوکا ہے نہ؟ اور ایک آپ ہیں کہ کسی کی کوئی بات بھی نہیں سنا کرتی ہیں؟ میں کہتی ہوں بھلا ایسے بھی کیا ضد ٹھہری؟ پتا بھی ہے کہ اگر کل کو آپ بیمار شمار پڑ گئیں تو سیوا خدمت سب ہمیں کو تو کرنی پڑے گی نا؟ ماں جی! آپ کو تو اپنی عمر کے لحاظ سے بس سارا دن آرام ہی کرنا چاہیے، آرام اور کچھ نہیں!! ہاں نہیں تو!‘‘
’’بہورانی! اب کیا کہوں تجھے اور کیسے کر کے سمجھواؤں؟ منٹو کا سویٹربننا ہو یا پھر کوئی بھی چھوٹا موٹا کام کرنا ہو یہ سب کر کے تو جیسے میرے کلیجے میں اک ٹھنڈ سی پڑ جایا کرے ہے!
خیر! تم وہ چھوڑو یہ سب فضول کی باتیں۔ کیوں کہ جب تم لوگ میری عمر میں پہنچوگے تبھی جان پاؤگے یہ سب! تم آج کل کے زمانے کی نئی روشنی میں پلی بڑھی عورتیں بھلا کیسے جان سمجھ پائیں گی یہ سب راز کی باتیں! دیکھ لینا! جب تم بھی ہماری عمر میں پہنچوگی تو نہ جانے کیا کیا کرنے لگوگی!‘‘
بعد ازاں ساس نے اپنے دل و دماغ کی سبھی پرانی اور نئی گانٹھیں کھولنی شروع کردی تھیں یہ دیکھ کر بھلا ان کی نئے زمانے کی تعلیم یافتہ بہو سروج بالا کیوں کر خاموش رہ سکتی تھی، لہٰذا اس کی آواز کا والیوم تیز تر ہوتا چلا گیا۔ ’’ماں جی! بس پھر سے چالو ہوگیا آپ کا وہی پرانا، ناری پران! جب ہماری باری آئے گی تو تب کی تب دیکھی جائے گی اور ماں جی! لاکھ ٹکے کی ایک بات یہ کہوں گی کہ ہم لوگ آنے والے کل کی فکر میں اپنا آج خراب کرنا نہیں چاہتے ہیں کسی قیمت پر بھی نہیں…‘‘
یہ سن کر اس کی ساس کو یوں محسوس ہوا گویا ان کی یہ بہو زیادہ تر ایسی باتیں کر کر کے ہی تو اپنے اور اس کے درمیان کی دوری کو اور زیادہ کرتی جا رہی ہے۔ اتنا ہونے پر بھی وہ کسی طرح کا کوئی بھی شکوہ شکایت کی بھنک تک اس کو حتی الامکان لگنے نہیں دیا کرتی ہے۔
منٹو نے بے زاری کی ذہنی حالت میں ایک بار پھر سے پاپا کی رٹ بدستور چالو کر دی۔ ’’دا … دی ی ی! پا… پا! کب آئیں گے پاپا … پاپا… پاپا…‘‘
اس دفعہ سروج کے لہجے یں اکتاہٹ کی مقدار زیادہ تھی اور اسی کو اپنی آواز میںبھر کر وہ غالباً چیختے ہوئے بولی۔ ’’او۔ ہو! پاپا۔ پاپا! بڑا پہاڑ کاٹ کر آرہے ہیں نا تیرے پاپا! ایک وہی چھ سات ہزار رپلی کی کلر کی کا بھاڑ ہی تو جھونک کر آرہے ہیں نا، اور کیا؟ آجائیں گے، آجائیں گے! کہیں سے ہاتھی گھوڑوں پر قارون کا خزانہ لاد کر تو نہیں لا رہے ہیں وہ تیرے باپ، اور کیا؟ دیکھ! ابھی یہاں تک پہنچنے میں ان کو تھوڑی دیر لگے کی، آئیں گے اور آتے ہی نہانے دھونے کے لیے واش روم میں جا گھسیں گے اور کیا! پھر چائے پر ان نواب صاحب کا نصیب کا انتظار کروں گی۔ ہماری تو ساری زندگی ہی گزر گئی اسی انتظار میں! کبھی ایک گھڑی بھی سکھ چین کا ہونا تھا، نہ ہوا۔ نہ کبھی ڈھنگ کا کھایا، نہ پہنا۔ تیرے باپ نے بھی زندگی بھر نہ تو کوئی ڈھنگ کی نوکری کی اور نہ ہی ڈھنگ کی کوئی نئی نوکری تلاش کی۔ چوپٹ کر کے رکھ دی میری تو یہ ساری کی ساری زندگی۔‘‘ کہہ کر اس نے ایک لمبا سانس لیا۔
’’ایسا کبھی نہیں کہتے بہورانی! آخر وہ پتی پرماتما ہے تیرا! سارا دن تو بے چارا بھٹکتا ہی رہ وے ہے! کبھی یہ کر کبھی وہ کر! کیوں بولے ہے تو اس بے چارے کے لیے ایسی بری بھاشا؟‘‘ یہ کہہ کر دادی اپنے پوتے کی جانب چہرہ گھما کر اس کا تجسس دور کرنے کی غرض سے کہنے لگی۔ ’’دیکھ منٹو بیٹے! اس بکھت تو تیرے پاپا یہاں کے اسٹیشن پر پہنچ گئے ہیں! یہ لے اب تیرے پاپا گیٹ پر کھڑے آدمی کو اپنا ٹکٹ دکھا رہے ہیں۔ اب وہ کوئی رکشا تلاش رہے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے دادی کی نگاہیں اوپر خلا میں کچھ تلاش کرتی محسوس ہو رہی تھیں۔ ان کی بہو کو ایسا لگ رہا تھا گویا وہ دور ماضی کے جگ میں ہی پہنچ گئی ہوں۔ گویا محل میں بیٹھے ہوئے ہی سنجے اپنے اندھے راجہ دھرت راشٹر کو کروکشیتر کے میدان جنگ میں ہو رہے اچھے برے واقعوں کا گویا آنکھوں دیکھا حال یکے بعد دیگرے سنائے چلا جا رہا ہو! اس کے ساتھ ہی اسے لگا جیسے اس کی ساس اداسی، ناامیدی اور مایوسی کے کسی مہیب صحرا میں نکل گئی ہو اور وہاں حاضر ہوکر بھی سرے سے کمرے میں ہی نہ ہو!
’’ہنہ!‘‘ سروج پاس کی میز پر سے ایک رسالہ اٹھا کر پڑھنے لگی اور اس کی ساس نے سویٹر کی بنی ہوئی لائنوں کو آخری بار گننے کا کام شروع کر دیا اور ساتھ ہی کہنے لگی ’’ارے منٹو! لے اب تو تیرے پاپا کا رکشا بھی چل پڑا ہے۔ ادھر بچے نے رموٹ اٹھا کر ٹیلی ویژن چلا دیا تھا لیکن جلدی ہی وہ کارٹون فلم سے بھی اکتا کر پھر سے دادی کی گود میں بیٹھ کر اپنا وہی سوال دہرا رہا تھا۔ ’’دادی! اب کہاں آگئے ہیں پاپا؟‘‘
دادی نے شفقت سے اس کی پیٹھ پر اپنے جھریوں بھرے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’بیٹے اب تیرے پاپا پاس والی مارکیٹ کے شروع میں ہنومان مندر کے موڑ پر آگئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے منٹو کو اپنے ایک زانو پر الٹا لٹا لیا اور یگانگت سے تھپکیاں دینے لگی۔ ساتھ ہی لگ رہا تھا گویا اس کی نظروں کا فرضی کیمرہ کسی دھندلے سے نظارے کو قید کرنے کی سعی کر رہا ہو!
اب ہنستی ہوئی بہو سے بولے بغیر نہ رہا گیا ’’ماں جی! اس کلجگ میں بھی آپ تو جیسے مہا بھارت کے جگ کی کوئی اوتار لگ رہی ہیں، اوتار!‘‘
’’دادی، دیکھو اب تو سات بج گئے ہیں پورے سات! اور دادی یہ آپ کس سنجے کی بات کر رہی ہیں؟ یہ کسی منتری ونتری کا نام تھا کیا؟ ماسٹر جی نے ہمارے دیش کا نام تو بھارت ہی بتایا تھا! مہا بھارت کسی اور دیش کا نام ہوتا ہے کیا؟‘‘ حیران کن لہجے میں سوالی بنا ہوا تھا بچہ!
یہ سن کر اب ماں نے اپنے متجسس فرزند کو اپنی گود میں اٹھا کر بتانا شروع کیا۔
’’مہا بھارت تو بیٹے ایک بہت بڑی کتاب کا نام ہے، سنجے اس کی کہانی میں ایک ایسے آدمی کا نام تھا جو کہ دور ہو رہی لڑائی کا سارا حال محل میں بیٹھے ہوئے ہی ایسا بتا رہا تھا جیسے ہم تم آج کل ٹی وی دیکھتے ہیں نا بس ایسے ہی! کیا سمجھے؟‘‘
’’بہو! تجھے اسے یہ بھی تو بتانا چاہیے کہ مرے انگریزوں نے ہمارے دیش کی یہی کتاب پڑھ کر یہ بدھو بکسہ بنا کر ہم سے پہلے مورچہ مار ڈالا ہے!‘‘ یہ کہہ کر بڑھیا ساس نے ایک کھوکھلی ہنسی سے سارا کمرا ہی ہلاکر رکھ دیا۔ گویا اس نے اپنا محدود عرفان و دانش بگھار کر خود بھی کوئی معرکہ سر کر لیا ہو! اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ اس نے یہ کہہ کر کہیں کوئی غلطی تو نہیں کر ڈالی ہے؟ کیوں کہ اس کی کوئی غلطی نکال کر سارے محلے میں ایک دو دنوں میں ہی اسے نشر کرنا اس کی بہو کی فطرت بن چکی تھی! خلوت میں وہ اسے ایک ’چلتا پھرتا لاؤڈ اسپیکر‘ کہہ کر نوازا کرتی تھی۔ جب کبھی ماں بیٹے تخلیہ میں ذاتی باتوں میں اپنا سکھ دکھ سانجھا کرتے تھے، صرف تبھی اسے بہو کے خلاف اپنے دل کی تمام بھڑاس نکالنے کا زریں موقع اپنے ہاتھ لگا کرتا تھا۔
’’ممی! دادی بھی تو یہاں بیٹھے بیٹھے پاپا کے آنے کی ساری بات بتا دیتی ہے نا! تو کیا دادی بھی ٹی وی ہے؟‘‘
’’پر بیٹے تیری یہ دادی تو ایک بہت پرانا سا ہی ٹی وی ہے اور جو خود ایک کارٹون بن کر رہ گئی ہے پر اسے چلانے کے لیے کسی مرے رموٹ و موٹ۔‘‘ اور فقرہ نامکمل ہی چھوڑ کر دادی بے ساختہ قہقہے ہی لگاتی چلی گئی تھی۔
اب منٹو نے اس کی پشت پر لٹک کر دریافت کیا ’’اچھا دادی مجھے جلدی سے یہ بتاؤ کہ پاپا اب کہاں آگئے ہیں؟‘‘
’’بیٹے! اب وہ اپنی گلی کے موڑ پر رکشے سے نیچے اُتر رہے ہیں۔ لو! ہائے! کتنا کھٹا کرتا ہے میرا کشن! تبھی تو کیسے دھیرے دھیرے پیدل چل کے آرہا ہے!‘‘
کہتے ہوئے جب دادی نے پوتے کو حیرانی سے اپنا منہ پھاڑے ہوئے دیکھا، تو بولی ’’کیوں دادی کی بات کا یقین نہیں آتا کیا؟ تو بھی کیا اپنی ماں کی ہی طرح مجھے بھی جھوٹی اور کوری گپیں ہانکنے والی ہی مانتا ہے؟‘‘
بس اتنا سننا تھا کہ بچہ دوڑ کر کمرے کی باہر کی جانب کھلنے والی ایک کھڑکی کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا اور باہر جھانکنے لگا اور چند لمحے بعد ہی وہ چیخا ’’دادی! جھوٹ بولتی ہو تم ایک دم جھوٹ! پاپا کہیں نہیں آرہے ہیں، کہیں بھی نہیں۔‘‘
اب دادی کابولنا پھر سے چالو ہوگیا۔ ’’ابھی تو وہ رکشا سے نیچے اتر کر بھاڑے کے پیسے چکا رہے ہیں۔ بھلا تجھے یہاں سے کیسے دکھائی دیں گے؟ موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں نا وہ!‘‘
’’سچ!‘‘ منٹو کا وہ لہجہ پر امید و مسرت والا تھا۔
’’اور یہ لے! تیرے پاپا تو اب اپنے اس دو منزلہ مکان کی سیڑھیاں چڑھنے لگے ہیں۔ ابھی انہوں نے پہلے زینے پر ہی اپناپاؤں رکھا ہے۔‘‘
ابھی دادی کی رننگ کمینٹری کہو، یا پھر آنکھوں دیکھا حال، چل ہی رہا تھا کہ تبھی کمرے کے اندر اس کے تھکے ماندے بیٹے کشن لال نے اپنے قدم رکھے اور اسی کے ساتھ کمرے میں اتنی دیر سے پسری ہوئی خاموشی ٹوٹ گئی۔ اپنے باپ کی شکل دیکھتے ہی منٹؤ کی پکار ابھری ’’پا… پا آآآ! آپ آگئے پاپا!‘‘ بچہ اپنے والد کا خیر مقدم تالیاں بجا بجا کر کر رہا تھا۔
’’ہاں میرے لال!‘‘ کشن لال نے اپنے ننھے فرزند کے رخساروں کے یکے بعد دیگرے کئی بوسے لیتے ہوئے کہا۔
اس وقت سروج اپنے خاوند کے ہاتھوں سے ایک تھیلا لے کر اسے الماری میںدھرتے ہوئے اور حیران کن نظروں سے اپنی ساس کو دیکھتی ہوئی کہہ رہی تھی ’’ماں جی! کیسے جان لیتی ہیں آپ ایک ایک منٹ کی خبر؟ میں نے ایک روز آپ سے پہلے بھی پوچھا تھا، مگر آپ ٹال ہی گئی تھیں! آج تو بتا ہی دیں اور آئے دن کا یہ سس پینس ہی ختم کر ڈالیں ہمیشہ کے لیے!‘‘
’’گھبراؤ نا بہو رانی! یہ کم بخت وقت ہی ایسا ہے! دیکھ لینا یہ تو تمہیں بھی ایک نا ایک دن بنگال کا یہ سارا جادو سکھا دیوے گا۔ اور تم آگے چل کر اپنی بہورانی کو سکھاؤگی۔ ایک یہ وقت ہی تو ہم سب کا مالک ہے! یہ اور بات ہے کہ میں وہ دن دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہوں گی۔‘‘ کہتے کہتے ساس کی آنکھوں میں شام کے سیاہ سائے اترنے شروع ہوگئے تھے۔
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ حسب معمول کشن لال نے ان کی باتوں میں اپنی ٹانگگھسیڑنے کی سعی کی۔
’’آپ چلیں، واش روم میں جاکر پہلے جلدی سے ہاتھ منہ دھولیں، بھول گئے آپ کو آج منٹو کو باز بھی گھمانے کے لیے لے جانا ہے؟‘‘ بیوی کا لہجہ ہمیشہ کی مانند سرزنش آمیز ہی تھا، جس کا کوئی بھی خاص نوٹس، کشن لال کو حسب معمول نہ لینا تھا اور نہ ہی لیا۔ ہاں اس کی جانب ایک طنز، آمیز سوالیہ نگاہ ضرور اٹھائی ہی تھی کہ سروج بالا دوبارہ اونچے لہجے میں غرائی ’’کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ ہم ساس بہو کی باتوں میں اپنی ٹانگ نا گھسیڑا کریں اور اپنے کام سے کام رکھا کریں۔ یہ ہم دونوں کی پرائیویٹ باتیں ہیں اور ایسے ہے چلتی رہتی ہیں اور جو آگے بھی ایسے ہی چلتی رہیں گی۔ ان باتوں کو آپ برائے مہربانی ہمارے تک ہی رہنے دیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے میاں کے ہاتھوں میں ایک صاف تولیہ تھما کر اسے ہلکے سے باتھ روم کی طرف دھکیل دیا۔
’’اچھا!‘‘ اس کی فطرت سے بخوبی واقف خاوند کے لیے اب تعمیل حکم کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ بچا تھا، پھر بھی اسے ایسا ضرور محسوس ہو رہا تھا گویا وہ اپنے صاف شفاف دفتر سے چل کر کسی غصیل رشی منی کی بد دعا کے باعث ایک انجان بیابان صحرا میں بھٹک رہا ہو! لہٰذا اس نے اپنی حد درجے کی بے حس بیوی اور حساس والدہ کی جانب اپنی نظر کا کیمرہ موڑ کر دیکھ ضرور لیا تھا۔ اب وہ کسی فلمی گانے کے بول گنگناتے ہوئے کراہت و بے رغبتی سے اور متوقع ’مہا بھارت‘ ہونے سے اپنا دامن بچانے کی خاطر ایک گوشے میں بنے ہوئے باتھ روم میں داخل ہوگیا۔
وہاں کے نیم تاریک ماحول میں بھی اس کو اپنی والدہ کے الفاظ بوسیدہ دیواروں کے چھوٹے بڑے رخنوں اور شگافوں سے داخل ہوکر صاف سنائی پڑ رہے تھے۔ ’’کچھ خاص نہیں بہورانی! یہ سب تو میرا عمر بھر کا تجربہ ہے تجربہ! اور کیا؟ اصل میں ہم جیسے گھسے پٹے اور کھوٹے سکوں کے پاس اور دھرا ہی کیا ہے؟ اس دنیا جہان میں آکر میں نے اپنی سازی زندگی میں ایک یہی تو کی ہے ساری کمائی؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے!‘‘ بیوی کے اس ایک بے تعلق سے فقرے کے بعد خاموشی طاری ہوگئی تھی۔