بڑے میاں کا اضطراب، ہمدردی کے انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔
کمرے کی خاموش فضا کے سینے پر رکھی تنہائی کی برفانی چٹان، عبادت کے لیے آنے والوں کے وجود کی حرارت باتوں کی گونج اور تنفس کی سرسراہٹ سے پاش پاش ہوچکی تھی، وہ کچھ دیر تک تو آنے والوں کے سوالات کا جواب دیتے رہے، مگر جب محسوس کیا کہ گفتگو کا رخ ان کے حوالے سے بڑھاپے کی شکایت اور حالات کے شکوے تک آن پہنچا ہے تو اپنی لا تعلقی ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے آنکھیں موند لیں۔ آنکھیں بند کرلینے سے دوسروں کی زبان تو بند نہیں ہوسکتی۔
بدبختو! جاتے کیوں نہیں ہو؟ اس صدی پر خون سفید ہوجانے کی ذمہ داری ڈال کر تم میری نظر میں سرخرونہیں ہوجاؤگے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، تنخواہوں میں بے برکتی، رشوت کی گرم بازاری، بیوروکریسی کی زیادتیاں، بے روزگاری کی فراوانی، روز روز پڑنے والے ڈاکے، آخر ان سب کا میری بیماری سے کیا تعلق ہے؟ کیا نظامِ تعلیم ٹھیک ہونے سے میری طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔ دس پانچ روپے کے لیے ہونے والے قتل اگر رک جائیں تو کیا میں صحت یاب ہوجاؤں گا۔ بند کرو اپنی بکواس اور چلے جاؤ یہاں سے۔ مجھے اکیلا چھوڑ دو۔
وہ اندر ہی اندر کھول رہے تھے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان بن بلائے مہمانوں کو اٹھاکر باہر پھینک دیں۔ ان لوگوں سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنے کے لیے وہ بار بار کلائی آنکھوں پر رکھتے اور کروٹیں بدلتے رہتے۔ ان کی اس کیفیت کو بیماری کا اضطراب سمجھا گیا۔ ان کے ایک ہم عمر نے ہاتھ بڑھا کر نبض ٹٹولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:
’’بخار زیادہ ہے، کوئی جاکر سامنے سے ڈاکٹر وحید کو بلا لائے۔ مگر ڈاکٹر وحید تو جاچکے ہوں گے؟ ہاں — وہ چورنگی والے ڈاکٹر — بھلا سا نام ہے ان کا، مقصود یا مسعود، وہ ہوں گے کوئی ان کو لے آئے۔ مگر وہ ڈاکٹر صاحب تو بڑے اکل کھرے ہیں۔ کہیں آتے جاتے ہی نہیں۔ مریض کا دم ہی کیوں نہ نکل جائے، وہ اپنے اصولوں کی حد سے نہیں نکلتے۔ ایسا کرتے ہیں، ان ہی کو لے چلتے ہیں۔ پر ان میں اتنی سکت کہاں کہ چورنگی تک بھی چل سکیں۔ رکشہ والوں کا مزاج بھی اُن کے میٹر کی طرح نہیں ملتا۔ اتنی سی دور کے لیے کوئی رکشہ ٹیکسی بھی نہیں مل سکتی۔ ابرار …جا بیٹا! تو اپنی موٹر سائیکل لے آ۔ انہی کو لے چلتے ہیں۔ ایک آدمی سے اتنی باتیں سن کر انھوں نے آنکھیں کھولیں اور ساری توانائی یکجا کرکے فیصلہ کن انداز میں کہا:
’’مجھے کہیں نہیں جانا۔‘‘
’’کہیں نہیں جانا—؟ یہ بھی خوب رہی، کیا یہیں بستر پر دم دینا ہے۔ ہمارے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘
بھڑوے، مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، بولنے والے کی طرف وہ خشمگیں نگاہوں سے دیکھ کر رہ گئے۔
’’بڑھاپے اور بیماری میں آدمی ضدی ہوہی جاتا ہے۔ جا بیٹا، ابرار! تو اپنی سائیکل لے آ۔ کہنے دے انہیںخود کو ہمدردی کے نرغے میں گھرا دیکھ کر بے دست و پا ہوجانے کے انداز میں وہ نڈھال سے بستر پر ایسے پڑے رہے جیسے اپنے آپ کو حالات کے سپرد کردیا ہو۔
یہ بڈھا کون ہے؟ اچھا تو یہ کھوسٹ وہ ہے جس نے ساری عمر پوسٹ آفس کی کلرکی کرتے ہوئے گزاری ہے اور اب اپنے تین بیٹوں کی کمائی پر ہر طرف اتراتا پھرتا ہے کہ ’’میں نے اپنے بچوں کو اکلِ حلال پر پالا ہے۔ ارے تو کیا، ساری دنیا اپنی اولاد کو حرام کھلاتی ہے۔ کیا میں نے نظام کو اپنی محنت کے بل بوتے پر پروان نہیں چڑھایا ہے۔ پھر یہ بڈھا ہر جگہ شیخی کیوں بگھارتا رہتا ہے۔ اور — اس وقت— ہمدردی کے بھیس میں کیسی دشمنی دکھا رہا ہے۔ ڈاکٹر کی دوا، سائیکل، جیسے میں نے اس کا باپ مارا ہو۔ میں تو خاموش اپنے اس چھوٹے سے گھر میں پڑا رہتاہوں۔ کسی سے ملتا جلتا بھی نہیں۔ پھر ان لوگوں کو خبر کیسے ہوگئی؟ میں گیا کبھی کسی کی عیادت کے لیے؟ پھر یہ کیوں آگئے؟ سب بقراط بن رہے ہیں۔ علاج تجویز کررہے ہیں۔ ارے ناسمجھو، بیماری میں سکون کی ضرورت ہوتی ہے اور تم لوگ اپنی باتوں سے، اپنی موجودگی سے میرے رہے سہے اوسان کھوئے دے رہے ہو۔ خدا کے لیے اپنی راہ لگو۔ جاؤ جاؤ اپنے اپنے گھر، چھوڑو میرا پنڈ۔
’’ارے ابرار! بیٹا، گیا نہیں تو اپنی سائیکل لینے۔ چل، اچھا کیا جو نہیں گیا۔ یہ کھڑکی تو کھول دے۔ بہت تیز بخار ہے۔ کیوں بھئی کھانسی تو نہیں ہے؟ نہیں— میرا خیال ہے کھانسی نہیں ہے۔ ہمیں آئے ہوئے آدھا گھنٹہ ہوگیا ہوگا؟ یہ اب تک تو کھانسے نہیں ہیں۔ بس اتنا کہنا کہ دل بیٹھا جارہا ہے۔ ہاتھ پیروں میں درد ہے۔ کسی کروٹ چین نہیں ہے۔ بھئی کچھ تو اپنا حال تم بھی بتاؤ یا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔‘‘
بڈھے کھوسٹ، اپنی بیماری بتا کے میری دوا منگوارہا ہے۔ خوب واقف ہوں میں، تم لوگوں سے۔ دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے والو! اپنے اپنے گھروں میں سب کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کوئی بیوی کے خوف سے، کوئی اولادکے ڈر سے، اور کوئی حالات کی دہشت سے منہ باندھے ایک کونے میں دن بھر پڑے رہتے ہو۔ اور جہاں دن ڈھلا، سب کے سب چمگادڑوں کی طرح اپنے اپنے گھر سے نکلے۔ چوہدری فقیر محمد کی ڈیوڑھی کو فقیر کا تکیہ بنا رکھا ہے۔ جہاں حقے کے کش کھینچتے ہو۔ ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہو۔ تم سمجھتے ہو میں اپنے گھر سے نہیں نکلتا تو مجھے کچھ خبر ہی نہیں ہے۔ تم لوگوں کی رگ رگ سے واقف ہوں میں۔ دنیا جہان پر تبصرہ کرتے ہو، اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ تم بے حوصلہ لوگ حالات سے شاکی ہو مگر ان کے خلاف صف آرا ہونے کی جرأت نہیں رکھتے۔
بڑے میاں کے ذہن میں عبادت کے لیے آنے والوں کے خلاف غصے کے بھبکے اٹھ رہے تھے اور وہ لوگ اُن کے جذبات سے بے خبر آپس میں باتیں کرتے رہے۔ کبھی اُن کی بیماری کے آئینے میں دیکھتے رہے اور کبھی اپنے اپنے حالات کے فریم میں خوش آئند مستقبل کی تصویریں سجاتے رہے۔
جب ڈاکٹر کے ہاں سے دوا آگئی تو ان لوگوں نے اصرار کیا کہ ایک خوراک اُن کے سامنے پی لی جائے۔ مگر بڑے میاں نے کروٹ بدل کے چپ سادھ لی۔
’’اچھا، تمہاری مرضی، مگر یہ دوا پابندی سے پیتے رہنا، صبح تک ٹھیک ہوجاؤگے۔‘‘
وہ لوگ تھوڑی دیر اور بیٹھے پھر بڑے میاں کو بیماری کے نتائج اور ڈاکٹر کی مجرب دوا کی خوبیوں سے آگاہ کرنے کے بعد چودھری فقیر محمد کی ڈیوڑھی کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے اٹھ گئے۔
انھوں نے سکون کا سانس لیا۔ پھر ڈاکٹر کے ہاں سے آئی ہوئی دوا کو ایسے گھورا جیسے کوئی دشمن کی طرف دیکھتا ہے، یہ دوا ہے یا زہر؟
دستی پنکھے کی ڈنڈی دوا کی شیشی کی طرف یوں بڑھائی جیسے ڈرپوک عورتیں مری ہوئی چھپکلی کو پھینکنے کے لیے اس کی طرف جھاڑو بڑھاتی ہیں۔ میز سے گرتے ہی ایک چھناکے سے شیشی چکنا چور ہوگئی اور دوا فرش پر پھیل گئی۔ شیشی کی کرچیاں اور گری ہوئی دوا کو دیکھ کر ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے اپنے جانی دشمن کو ٹھکانے لگا دیا ہو۔ ہونہہ، مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ سازش کرکے آئے تھے سب کے سب۔ مجھے سائیکل پر بیٹھا کے لے جاتے اور ڈال آتے کسی بس یا ٹرک کے نیچے۔ جب یہ حربہ ناکام ہوتے دیکھا تو زہرپلانے کی ٹھانی۔ آج پہلی مرتبہ تو بیمار نہیں پڑا ہوں۔ اور بیماری بھی کونسی خاص ہے، ذرا سا بخار ہی تو ہوا ہے۔ پیاس کتنی شدید ہے۔ کسی نے ایک گھونٹ پانی کے لیے نہیں پوچھا، اور دوا پر کتنا اصرار تھا۔
پانی کا دھیان آتے ہی پیاس کی شدت کے ساتھ خیالات کا پیالا بھرنے لگا۔
نظام کے آنے میں ابھی ذرا دیر ہے۔ عجیب لڑکا ہے۔ روز شام کو آنے کی عادت بنالی ہے۔ عادت۔
ارے، اس کے پابندی کے ساتھ آنے کی وجہ سے تو مجھے بھی انتظار کی لت پڑگئی ہے… اولاد بھی کیا چیز ہوتی ہے۔ محبت چڑھتی دھوپ کی طرح اپنے آپ دل میں اترتی چلی آتی ہے۔ مگر وہ، وہ تو محبت میں نہیں آتا، بوڑھے باپ کی خدمت کا جذبہ اُسے نہیں لاتا ہے، اُسے تو لالچ کھینچ کر لاتا ہے۔ کب میری آنکھیں بند ہوں اور وہ جمع جتھ پر ہاتھ صاف کرے۔ شروع میں تو ایسا نہیں تھا۔ شادی کے بعد، بیوی کے ساتھ بدلتا چلا گیا۔ اور وہ لڑکی، توبہ… آفت کی پرکالہ ہے۔ دیکھنے میں کتنی معصوم، باتیں کیسی بھولی بھالی، مگر لے اڑی میاں کو، آخر اس گھرمیں نظام کو کیا تکلیف تھی؟ گھر چھوٹا سہی پر اپنا تو تھا، اب جو کرائے کا مکان لیا ہے، وہ کونسا محل ہے؟ کیسا جی چاہتا تھا کہ اس صحن کی مٹی میں نظام کے بچے کھیلیں۔ پانی، ہاں— خود ہی اٹھ کے پی لوں۔ پیاس کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے— اتنا صبر کیا ہے تو کچھ دیر اور سہی، شاید نظام ابھی آہی جائے۔ اتنا خیال ہوتا تو جاتا ہی کیوں؟ سوچتا تھا کہ نظام کے بچوں میں طبیعت بہلی رہے گی۔ دادا ٹافی لوں گا۔ دادا آئس کریم کھاؤں گا۔ دادا گڑیا چاہیے، پہلا بچہ سال بھر کا بھی نہیں ہوا کہ وہ میرے سارے ارمان بکل میں مار کے چل دئیے۔ اب تر سو، دادا میاں دو گھونٹ پانی کے لیے۔ اور گنتے رہو، پیاس کے دریا کی موجیں۔ اکیلا ہونا بھی کیسا عذاب ہے۔ سنتی ہو۔ سوگئیں کیا۔ میری سانس ذرا تیز چلے تو نیک بخت اٹھ بیٹھتی تھی۔ وہ ہوتی تو میں اتنا دیر پیاسا رہ سکتا تھا؟ بڑے ارمان پالے بیٹھی تھی۔ مکان کی بنیاد بھی تو اسی کی خواہش پر رکھی تھی۔ دن رات ایک کردیے۔ یہ مکان بنایا۔ نظام کو پالا پوسا۔ جب یہ وقت آیا کہ ایک کٹورا پانی کے لیے کہہ سکوں تو وہ چلا گیا۔ مجھے اس سے حاصل بھی کیا کرنا تھا۔ ذرا سا سکون، تھوڑا سا اطمینان، چھوٹی سی خوشی، قربت کی ڈھارس۔ کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ وہ جوان ہوگا تو بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔سہارا تو بس اللہ کی ذات کا ہے۔
’’نظام ہماری امیدوں کا واحد سہارا ہے۔‘‘ وہ کہا کرتی تھی۔میں سمجھاتا کہ اکلوتی اولاد بڑا دھوکہ ہوتی ہے۔ وہ ہنستی — کہتی تھی— تھکنے کے بعد تمہارے ذہن میں ایسے ہی خیالات کیوں آتے ہیں۔ اب کیسے پوچھوں کہ میں نے جو وقت سے پہلے بڑھاپا خریدا اور تو نے موت۔ آخر کیوں؟ جوانی کی گرمی میں آدمی کبھی کبھی ایک دوسرے سے الگ الگ بھی رہتا ہے لیکن بڑھاپے کی ٹھنڈک میں تو ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر زندگی بسر کی جاتی ہے۔ رفاقت کے دن آئے تو وہ چل دی۔ نظام کی جدائی کے خیال سے دل بیٹھتا ہی چلا گیا۔ ایسی پلنگ پر لیٹی کہ اٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ وہ تو اٹھ گئی۔ اکیلا میں رہ گیا۔ اس نظام کے لیے۔ اس دن کے لیے کہ وہ بیوی کے کہنے میں آکر ہمیں پوچھے بھی نہیں۔ ہم دونوں نے کیا کیا کشٹ نہیں جھیلے۔ یہ بات کہوں تو کہہ دے گا وہ تو آپ کا فرض تھا۔ارے کیا اولاد کو پال پوس کے خود مختار بنادینا ہی والدین کا فرض ہوتا ہے؟ اپنا دھیان ہی نہ رکھیں۔ اپنے دن رات، اپنی ساری توانائی، اپنی جان تک ہار جائیں، اس اولاد کے لیے۔ صبح سے شام تک بہی کھاتوں پر جھکے جھکے کمر دکھ جاتی تھی۔ آنکھوں میں تارے ناچنے لگتے تھے۔ پھر بھی سیٹھ مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ بہت ہی احسان فراموش تھا۔ بداخلاق، یہودی کہیں کا۔ لاکھوں روپے کا ہیر پھیر کرلیتا تھا، غلط اندراج کراکے۔ میں تو مجبور تھا، نوکر تھا، کیا کرتا۔ سارا گناہ اسی کے سر جائے گا۔ رسیدیں چھپوا رکھی تھیں۔ مسجدوں کو چندہ، یتیم خانوں کو ہزاروں روپے۔ کم بخت، حکومت کے ساتھ اللہ کو بھی دھوکا دیتا تھا اور میں — میں تو سب کچھ نظام کے لیے کررہا تھا۔ کیا سیٹھ کے کہنے سے کھاتوں میں غلط اندراج بھی—؟ ہاں، وہ بھی، لگی بندھی آمدنی ختم نہ ہو۔ مکان بن جائے، نظام بڑا ہوجائے۔ یہی جذبہ تو مجھے بابو غلام حسین کے پاس لے گیا تھا۔ تھکا ہارا چراغ جلے سیٹھ کے پاس سے اٹھتا تو بابو غلام حسین کا حساب کتاب لکھنے بیٹھ جاتا۔ اچھا ساتھ رہا، بابو غلام حسین کا بھی۔ مروت والا آدمی ہے۔ اب بھی کبھی کبھار پوچھنے کے لیے آجاتا ہے۔ لوگ ٹیکس دینے سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں—؟
’’پولیس کیس میں گواہی اور انکم ٹیکس کا چکر — اللہ دونوں سے بچائے۔‘‘ بابو غلام حسین کہتا تھا کہ اس کے ماموں گواہیاں بھگتاتے بھگتاتے چل بسے تھے اور سسر انکم ٹیکس بلڈنگ کا زینہ چڑھتے اترتے عارضۂ قلب میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوئے تھے۔ اسی لیے وہ ایسا حساب رکھتا تھا کہ ٹیکس لاگو ہی نہ ہو۔ اتنا ٹیکس نہیں بنتا تھا، جتنا وہ ٹیکس سے بچنے کے لیے خرچ کردیتا تھا۔ میں نے پی ڈبلیو ڈی کی نوکری اسی واسطے چھوڑ دی کہ مجھے رشوت لینا اور دینا بھاتا نہیں تھا۔ تیس برس تک سورج نکلتے تو دیکھا، پر یہ پتا ہی نہ چلا کہ ڈوبتا کب ہے؟ حرام رزق کا ایک لقمہ بھی نظام کے پیٹ میں نہیں ڈالا۔ پھر وہ اتنا ناخلف کیسے ہوگیا۔ ٹھیک ہے بلاناغہ آتا ہے۔ باتوں سے اور صورت سے یہی ظاہر کرتا ہے کہ اس کے دل میں میرے لیے بہت چاہت ہے۔ روز ہی اصرار کرتا ہے کہ میں اس کے ساتھ چلوں۔ اس کے ساتھ رہوں۔ جب ساتھ رہنا ہی تھا تو یہاں سے کیوں گیا؟ باپ کو ایک ایک بوند کے لیے ترسانے کو۔ میں خود ہی اٹھ کے پی لوں۔ گلا، سوکھ کر ریگستان ہوگیا ہے۔ منہ میں ریت سی بھرگئی ہے۔ کب تک اس کا انتظار کروں؟ کیا پتہ اس کے ہاتھوں مجھے آخری گھونٹ بھی میسر ہوگا یا نہیں۔ آثار تو یہی بتاتے ہیں کہ میں اسی دبدھا میں زندگی کی پگڈنڈی سے گزر جاؤں گا۔
بڑے میاں خیالوں کے انبار میں دبے جارہے تھے۔
میرے خدا! تو نے مجھے ایک بیٹا دیا وہ بھی اتنا نکّما، فضول، ماں اسی حسرت میں گزرگئی کہ بیٹے کی اولاد کو کھلائے گی۔ بہو نے ساس سے جھگڑے کو علیحدگی کی بنیاد بنادیا اور بیٹے نے جگہ کی قلت کو اور پھر خود غرضی بھی کیسی۔ ماں کے بعد یہ بھی نہ پوچھا کہ ابا! تو دو وقت کا پیٹ کس طرح بھرے گا۔ اس عمر میں اکیلا کیسے رہے گا؟ اکیلا تو دنیا میں ہر آدمی ہے۔ اکیلے آدمی کی یہ خواہش بھی عجیب ہے کہ مرنے کے بعد اس کا کوئی نام لیوا رہے۔ نسل چلتی رہے۔ نسل، نسل تو جانوروں کی چلتی ہے۔ آدمی کی تو میراث ہوتی ہے۔ میری میراث… ایک بیٹا، کبھی بھولے سے بھی ذکر کرتا ہے ماں کا۔ اور ایک وہ تھی۔
’’جب اتنی ضد کررہا ہے تو سائیکل دلا کیوں نہیں دیتے؟‘‘
ہمیشہ نظام کی ماں بن کر مجھ سے بات کرتی تھی۔ میں کہتا تھا۔ کبھی تو میری گھر والی بھی بن کر سوچ لیا کرو۔
’’تمہارا باتوں کا یہی الٹ پھیر میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا وہ ہمارا بیٹا نہیں ہے۔ پھر وہ اپنی خواہش کہاں، کس کے سامنے بیان کرے؟‘‘
خواہش… ہنھ … خواہش کے ہاتھوں ہی تو لوگ مرتے رہتے ہیں، عرب کا اونٹ ہوتی ہیں یہ خواہشیں۔ ذرا سی جگہ دو تو پھر سب کچھ ان کا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ تم اپنے سامنے کسی کی نہیں مانتے۔ ایک سائیکل دوسرے ڈاکٹر کی دوا۔ للّٰہی بغض ہے تمہیں ان دونوں سے۔‘‘ ہاں … نفرت ہے… مجھے نفرت ہے ان سے … فاصلے گھٹانے کے چکر میں ہم نے زندگی اور موت کا فاصلہ کم کرلیا ہے۔ تیز رفتاری سے منزل قریب آگئی ہے اور ڈاکٹر کی دوا جادو کا سا اثر دکھاتی ہے۔ آر یا پار۔ میری اکلوتی بہن، ہنستی کھیلتی، خود چل کر ڈاکٹر کے پاس گئی اور ہاتھوں پر آئی۔ مانتا ہوں زندگی اور موت انسان کے اختیار میں نہیں پر احتیاط تو اپنے بس میں ہے۔ لاکھ مجھے دقیانوسی خیالات کا سمجھو لیکن میرے گھر میں نہ کبھی سائیکل کی گھنٹی بجی اور نہ ڈاکٹر کی دوا آئی… مگر … نظام نے تو علیحدہ ہوتے ہی سائیکل خریدلی۔ اور اب تو اس کے پاس موٹر سائیکل ہے۔ جب آتا ہے تو سکون کا سانس لیتا ہوں اور اس کے جاتے ہی … لیکن یہ روز کا پھیرا میری چاہت میں نہیں، لالچ میں ہوتا ہے۔ یہاں پہنچ کر گھر کی تمام چیزوں پر جب وہ حریصانہ نگاہ ڈالتا ہے تو اس بیماری اور نقاہت کے باوجود خون کھول اٹھتا ہے۔ جی چاہتا ہے۔ جی چاہتا ہے دو طمانچے لگا کے اپنی محبت کا صلہ وصول کرلوں۔
بڑے میاں نے لیٹے لیٹے مٹھیاں بھینچ لیں۔ آنکھیں یوں کھول دیں جیسے خیالوں کے دریچے بند کردیے ہوں پھر آہستہ آہستہ آنکھیں مندنے اور مٹھیاں کھلنے لگیں۔ پھر بند آنکھوں کے کونوں سے پانی کی بوندیں یوں رسنے لگیں جیسے اُن کی بے بسی پگھل پگھل کر بہہ رہی ہو۔
جب وہ جانتا ہے کہ وہی وارث ہے، جو کچھ قطرہ قطرہ کرکے جمع کیا ہے، اسی کا ہے تو پھر ایک ایک چیز کے پیچھے کونے کھدروں کی طرف اس طرح کیوں دیکھتا ہے جیسے میری موت کو ڈھونڈ رہا ہو۔ کب میری آنکھ بند ہو اور وہ قبضہ جمائے۔ کبھی میری ضرورت معلوم کرنے کے لیے میری جانب نہیں دیکھا۔ کبھی پوچھا کہ ابا کیا چاہیے۔ ایک گھونٹ پانی … ایک گھونٹ پانی چاہیے۔ کیا میں کسی تپتے ہوئے ریگستان میں سفر کررہا ہوں۔ کیا سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہے؟ میرے تلوے، میری ہتھیلیاں، ان میں بھوبل کس نے رکھ دی ہے۔ خدا کے لیے مجھے اس صحرا سے نکالو۔ میں آواز دوں۔ نظام کو پکاروں، پیاس کے مارے زبان سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہے۔ میں تو کسی کو بلا بھی نہیں سکتا۔ ارے کوئی میرے خدا کو آواز دے۔
اچانک یہ خیال آیا کہ اگر وہ اسی طرح لیٹے لیٹے کراہتے رہے اور پانی نہیں ملا تو جان کھنچ کر ہونٹوں تک آن پہنچے گی۔ لبوں تک دم آجانے کے خیال سے وہ ہراساں ہوگئے… آنکھیں کھول کر اس فاصلے کا جائزہ لیا جو ان کے اور صراحی کے درمیان تھا۔
پیاسا مرجانے سے تو بہتر ہے کہ پانی …
اپنی بھر پور طاقت صرف کرکے وہ اٹھ بیٹھے۔ پلنگ کے سہارے رکھی ہوئی چھڑی اٹھائی اور اپنا تمام بوجھ اس پہ ڈال کے کھڑے ہوگئے۔ پیاس کے بھنور نے ایک چکر دیا۔ کمزوری نے لمحہ بھر کے لیے آنکھوں میں اندھیرا بھر دیا مگر وہ جمع کی ہوئی اپنی ہمت کو کھونا نہیں چاہتے تھے، اس لیے ایک ایک قدم کرکے دھیرے دھیرے صراحی کی طرف بڑھتے رہے۔ لرزتے ہاتھوں کٹورے میں پانی انڈیلا اور ڈگڈگا کے پی گئے۔
پیاس کی شدت، خوف کے سائے اور بخار کی تیزی نے جو بے ہمتی پیدا کردی تھی، پانی پینے کے بعد وہ دور ہوئی پھر قدم قدم چلتے پلنگ پر آکے لیٹ گئے۔
نظام… نظام ابھی تک آیا کیوں نہیں؟ اللہ خیر کرے، اکلوتا بچہ ہے۔ کیا ہوا نافرمان ہے تو۔ اُس کے ہونے سے ایک ڈھارس تو ہے۔ کتنا سمجھایا کہ بیٹا موٹر سائیکل ایک شیطانی چرخہ ہے ، الگ کردے اِسے۔ جب تو ماں باپ سے الگ ہوسکتا ہے تو اس روگ کو کیوں پال رکھا ہے… پر سنتا کہاں ہے؟ باغی ہے باغی۔ سمجھتا ہے میں نادان ہوں۔ اُس کے حیلے بہانے نہیں سمجھتا۔ گھر تنگ ہے۔ ارے دل تو کشادہ ہے۔ بات کتنی ذرا سی تھی۔ اس کے بچے کی طبیعت ذرا خراب ہوئی۔ بچے تو ہوتے ہی چھوئی موئی کا پودا ہیں۔ بس وہ لے آیا ڈاکٹر کی دوا۔ اس کا بچہ کیا میرا خون نہیں ہے؟ پھر… میں اپنی آنکھوں کے سامنے ڈاکٹر کی دوا پلاتے دیکھ سکتا تھا۔ پھینک دی، میں نے شیشی… وہ تو ایک لفظ نہیں بولا مگر اس کی بیوی کا پارہ چڑھ گیا۔ اُس ٹوٹی ہوئی شیشی کی کرچیاں میرے چبھ جاتیں تو ایسی ٹیس نہ اٹھتی جیسی اُس کی بیوی کی نظروں کے اٹھنے سے پیدا ہوئی۔ اور وہ نیک بخت نظام کی ماں، عجیب دودھاری تلوار پہ چل رہی تھی۔ نظام کی بیوی نے منہ سے دو لفظ نکالے تو وہ بپھر گئی۔
’’بی بی، ہم نئے لوگوں کے لیے اپنے پرانے دستور نہیں بدلیں گے۔اس گھر میں جو کچھ ہوتا آیا ہے، وہی ہوگا۔‘‘ بہو اپنا سا منہ لے کر رہ گئی تو وہ سمجھانے کے انداز میں بولی:
’’بیٹی! اللہ تیرا میرا سہاگ سلامت رکھے … بڑا فرق ہے دونوں باپ بیٹے میں … نظام تیرے کہے میں ہے اور میں اُن کی مرضی کے بنا قدم نہیں اٹھاتی۔‘‘
پھر میری مرضی پوچھے بغیر چلی کیوں گئی؟ نظام گھر چھوڑ کے گیا تو وہ مجھ پر برس پڑی۔
’’تم نے اس کو گھر سے نکالا ہے۔ کیا ہوا جو وہ ڈاکٹر کی دوا لے آیا۔ شروع میں تو حکیم جی کی دوا ہی پلائی تھی۔ جب افاقہ نہیں ہوا تو پھر لایا۔ جانتے ہو اولاد کی محبت آدمی کو بے صبر بنادیتی ہے۔ پھر بھی تم نے اپنے اصول کی خاطر میرا گھر سونا اور دل ویران کردیا۔‘‘
اور تو جو میرا گھر سونا کرکے چلی گئی۔ جب تک زندہ رہی میں دکھوں سے دور رہا۔ جانتا ہوں، نظام کے علیحدہ گھر بسانے کا اسے دکھ تھا۔ بتاشے کی طرح بیٹھتی چلی گئی۔ ایک دفعہ کے سوا کبھی طعنہ بھی نہیں دیا۔ میں اگر بات چھیڑتا بھی تو الٹا مجھے سمجھانے بیٹھ جاتی۔
’’جوان اولاد اور آزاد پنچھی۔ مرضی کے مالک ہوتے ہیں۔ تم کیوں دل چھوٹا کرتے ہو؟ نظام آتا تو ہے روز ملنے کے لیے۔‘‘ہاں، روز آتا ہے لیکن ملنے کے لیے نہیں۔میری سانسیں گننے کے لیے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ اب … پر میں… میں ابھی نہیں مروں گا۔ میں نے بہت سنبھال سنبھال کے رکھا ہے اپنی زندگی کو۔ ابھی مرنے والا نہیں ہوں میں۔ یہ تو بخار ہے۔ اتر جائے گا۔ دوا کی شیشی ٹوٹتے ہی اس کے بیٹے کا بھی بخار جاتا رہا تھا۔ مگر اس کی نظریں۔ اُف! کس طرح گھورا تھا اس عورت نے مجھے۔ ہفتے عشرے میں نظام کے ساتھ اب بھی آجاتی ہے۔ نظام کا دل برا نہیں ہے۔ وہی ورغلاتی رہتی ہے۔ اسی نے لاسے پر لگایا ہے … اپنی مرضی کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھانے دیتی۔ ابھی چار دن پہلے بھی آئی تھی۔ کیسی کیسی پٹیاں پڑھا رہی تھی نظام کو۔
’’تم ان کو ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے؟‘‘
’’تمہیں معلوم ہے کہ ابا جی نے کبھی ڈاکٹر کی دوا نہیں کھائی۔ پھر یہ بات کہنے کی کیا تُک ہے؟‘‘
’’میں تو ان ہی کے بھلے کی کہہ رہی ہوں۔‘‘
’’میں ابا جی کی طبیعت سے واقف ہوں۔ کبھی نہیں مانیں گے۔‘‘
’’تم ایک مرتبہ زور دے کر کہو تو۔‘‘
مجھ سے ذرا فاصلے پر یہ سرگوشیاں ہورہی تھیں۔ دل تو چاہاکہ دونوں کو آڑے ہاتھوں لوں۔ ایسی کھری کھری سناؤں کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے۔ پرخاموش رہا۔ جب میرے گھر، میری موجودگی میں وہ نظام کو میری مرضی کے خلاف کام کرنے پر اکساسکتی ہے تو اپنے گھر میں کیا کچھ نہیں کہتی ہوگی۔ اور یہ سب کچھ آخر کس لیے؟ چاہتے ہیں کہ مجھ سے جان چھوٹے۔ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ کسی ایسے شخص کو دے دوں جو میرا احسان تو مانے۔ میرے بعد مجھے یاد تو رکھے۔ ان لوگوں کے دل میں تو لالچ کابسیرا ہے۔ مگر… میرے پاس ہے کیا۔ لے دے کے یہی ایک چھوٹا سا مکان۔ بیوی کا چھوڑا ہوا چند تولے کا زیور اور کچھ روپے۔ مکان کے کاغذ اور بیوی کا زیور تو پرانے صندوق کی نچلی تہہ میں پڑے ہیں۔ اُن کے اوپر پرانے دھرانے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے برتن یوں ڈال رکھے ہیں کہ کسی کو شبہ بھی نہیں ہوسکتا۔ رہی نقد رقم تو وہ بنک میں ہے۔ نظام نے بیلنس معلوم کرہی لیا ہوگا۔ دو ہفتے سے وہی تو چیک لے کر جارہا ہے۔ مگر کیا فرق پڑتا ہے۔ چیک بک تو میرے پاس ہے۔ انھوں نے کروٹ بدل کر تکیے کے نیچے سے رومال میں لپٹی ہوئی چیک بک نکالی۔ کچھ دیر تک اسے ہاتھوں میں دبائے رہے۔
یہ خیال اچھا ہے کہ سب کچھ کسی اور کو دے دوں۔ مگر وہ کون ہو؟ رشتہ داروں میں۔ ارے اُن سے اچھے تو غیر ہیں۔ صرف رشتہ رہ گیا ہے، تعلق ختم ہوچکا ہے۔ پوچھا کسی نے اس کسمپرسی کے عالم میں۔ سب اپنے اپنے دھندوں میں لگے ہیں۔ نفسا نفسی کا زمانہ ہے۔ اور کہتے ہیںزمانہ ترقی کررہا ہے۔ بے شک ترقی کررہا ہے۔ خود غرضی اور بے ایمانی میں۔ کج روی اور بداخلاقی میں۔ زندگی کی تباہ کاری کے لیے نت نئے ہتھیار ایجاد ہورہے ہیں۔ زمین کو تہس نہس کرنے کے منصوبے، زہرہ اور مریخ پر کمند پھینکنے کی تدبیریں۔ یہ ترقی ہے۔ یہ ترقی ہے کہ بیٹا باپ کی زندگی پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔ نظام کو تو میں کچھ نہیں دو گا اس لالچی کو تو سزا دینی ہے۔ ایک پرچہ لکھ دوں کہ میری زندگی کا حاصل ایک بیٹا اور ایک مکان ہے۔ بیٹا بہو کو دے دیا اور مکان کسی بھی ضرورت مند کو۔ نظام کی بیوی یہ سنے گی تو کس قدر جھلاَّئے گی۔ بڑا لطف رہے گا۔ لیکن… لیکن میں … یہ ترکے اور ورثے کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں۔ مجھے ذرا سا بخار ہی تو ہوا ہے۔ اس سے پہلے میں کتنی شدید بیماریاں جھیل چکا ہوں۔ مجھ میں ابھی زندہ رہنے کی امنگ بھی ہے اور حوصلہ بھی۔ میں ابھی زندہ رہوں گا۔ ابھی زندہ رہوں گا۔
بڑے میاں تیز بخار کی غنودگی میں جھونکا کھاگئے۔ آنکھ اُس شور سے کھلی جو موٹر سائیکل کو بند کرنے سے پہلے ریس دینے پر اٹھتا ہے۔
آگیا… سب سے پہلے تو میں کہوں گا، مجھے پانی پلائے۔ پھر آج اس سے یہ بھی کہوں گا کہ اس پھٹ پھٹی کو بیچ دے۔ جب تک آ نہیں جاتا ہے، دل میں ہزار وسواس گزرتے رہتے ہیں۔
’’ابا جی! کیسی طبیعت ہے؟‘‘
’’اپنا یہ ٹھنڈا ہاتھ میری پیشانی سے نہ ہٹانا۔ اسی لہجے اور اسی لمس کے لیے تو ترستا رہا ہوں۔‘‘
’’ابا جی! مجھے معلوم ہے آپ کو زندگی سے پیار ہے۔‘‘
’’مجھے تجھ سے بھی پیار ہے بیٹے۔ میں نے تیری آسانیوں کی خاطر بڑی مشکلیں سہی ہیں۔‘‘
’’آپ نے اسی پیار کی خاطر کبھی ڈاکٹر کی دوا نہیں لی۔ کبھی سائیکل پر سواری نہیں کی مگر…‘‘
’’ڈاکٹر کی دوا سے تجھے بھی دور رکھا ہے بیٹا! سائیکل تو نے الگ گھر بسانے کے بعد ہی خریدی ہے۔ لیکن آج تیرے لہجے میں اتنی مٹھاس۔ اتنی چاہت کیوں ہے؟‘‘
’’ابا جی… اب میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں کہ آپ کی حالت کا سوچ کر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی ہے۔ دن کو دفتر میں جی نہیں لگتا ہے۔ ہر لمحہ دھیان آپ ہی کی طرف لگا رہتا ہے۔‘‘
’’یہ میں کن فضاؤں میں اڑنے لگا۔ اپنا ہاتھ مجھے دے۔ ہاں… ہاں میں بھی تو یہاں دن رات اکیلا پڑا تیرے ہی بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ تیری سلامتی کے لیے دعائیں کرتا رہتا ہوں۔ اور جب تو آتا ہے تو … تجھے نظروں میں اتارنے کے بعد آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔ کچھ نہیں کہتا اور تیری سنتا رہتا ہوں۔‘‘
’’اباجی… ماں باپ کو اولاد بہت عزیز ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ مجھے کیوں سنا رہا ہے۔ کیا میری تنہائی کا سبب نہیں جانتا۔ تو نے الگ گھر کیا بسایا کہ تیری ماں نے قبرستان آباد کیا۔‘‘
’’میں اپنے بچوں کو ڈاکٹر کی دوا پلاتا ہوں۔ اور دیکھئے دو چار دن ہی میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ بہت سے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں اللہ نے شفا دی ہے۔ تو بس… آج میں آپ کی ایک نہیں سنوں گا۔ بہت رہ لیے آپ اکیلے… اب مجھ سے آپ کے بغیر نہیں رہا جاتا۔‘‘
’’پھر یہاں کیوں نہیں آجاتا۔ اس ڈھنڈار گھر میں تیرے آنے سے رونق آجائے گی۔ بچوں کی ہنسی گونجے گی تو میری بیماری بھی رفو چکر ہوجائے گی۔‘‘
’’کلثوم چاہتی ہے کہ وہ آپ کی خدمت کرے۔ یہاں دو چار دن رہ کر نہیں بلکہ آپ کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھ کر۔ یہ مکان بہت چھوٹا ہے، پھر میرے دفتر سے بھی دور ہے۔ اور پھر …‘‘
’’آج یہ مکان چھوٹا ہوگیا۔ دفتر سے دور ہوگیا۔ ہزار خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ سیدھی سی بات یہ کیوں نہیں کہتا کہ یہاں روک ٹوک کرنے کے لیے میں موجود ہوں۔ تو اب مجھے لے جا کے اپنی آزادی میں خلل کیوں ڈالنا چاہتا ہے؟ دیکھ تیری قربت پانے کے بعد تو میں، اپنی پیاس کو بھول گیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں تو اسی طرح میرے پاس رہے۔ ایسی ہی باتیں کرتا رہے۔‘‘
’’ابا جی! ماں باپ کا اولاد پر بڑا حق ہوتا ہے۔ لیکن کچھ حق اولاد کا بھی ہوتا ہے۔ آج میں آپ کی کوئی بات نہیں مانوں گا۔ آپ بخار میں بھبک رہے ہیں۔ آج میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔ ہرگز اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے کبھی آپ سے ضد نہیں کی۔ جو کچھ آپ نے کہا، میں نے مانا۔ لیکن آج… آج میں اپنی بات منوا کے رہوں گا۔ مجھے بھی آپ سے محبت ہے۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ کی شفقت کا سایہ ہمیشہ میرے سر پر رہے۔ اٹھیے۔ میرے ساتھ چلیے۔ راستے میں ڈاکٹر صاحب کو بھی دکھا دیں گے۔‘‘
جھٹکے کھاتے ہوئے بڑے میاں سوچ رہے تھے۔ لالچی نظام ہے یا میں ہوں۔ میں … جو کمبل میں لپٹا اس کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھا ڈاکٹر سے دوا لینے جارہا ہوں۔