انسانی زندگی بے شمار نشیبوں، فرازوں اور حالات و واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ کچھ کی توقع انسان کرسکتا ہے اور کچھ اچانک نمودار ہوتے ہیں اور زندگی کو یا تو آگے بڑھا دیتے ہیں یا بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ اگر انسان ان تمام احوال سے گزرنے کے لیے پہلے سے تیاری کرلیتا ہے تو مثبت سوچ اور رویہ اختیار کرتا ہے۔ یہ سوچ اور رویہ یا تو اس کی اپنی درست سوچ سے حاصل ہوتا ہے یا کسی درست سوچ والے تجربہ کار انسان سے حاصل ہوتا ہے۔ انہیں موجودہ ترقی یافتہ دور میں Life Skills یا زندگی کی مہارتیں کہا جاتا ہے۔
انسان کا محض معلومات سے مالا مال ہو جانا سوچ اور رویوں میں درستگی کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ اسے مثبت رویوں کے لیے الگ سے مہارتوں میں بھی کمال حاصل کرنا پڑتا ہے جو انتہائی مشکل مراحل میں بھی اس کو درست فیصلوں تک پہنچنے اور دوسروں کی رہ نمائی کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ اسلامی احکامات پوری زندگی پر محیط ہیں اور یہاں کوئی گوشہ نہیں چھوٹتا۔ نہ کہیں بے رہ نمائی کے انجان راہوں پر یکہ و تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خالق کائنات نے خوش گوار اور پرسکون زندگی دی ہے لیکن اسے کہیں بھی پھولوں کی سیج نہیں کہا ہے بلکہ اس کے ناخوشگوار حالات میں بھی صبر و سکون سے گزر جانے کی تاکید کی ہے۔
انسانی رشتوں میں جو خونی رشتے ہیں اس میں انسان کا اختیار نہیں ہے۔ والدین، بہن، بھائی، چچا، ماموں، خالہ،پھوپھی سب بنے بنائے ملتے ہیں۔ جو رشتے انسان آپس میں قائم کرلیتے ہیں وہ شوہر کا بیوی سے اور بیوی کا شوہر سے، سسرال والوں اور سمدھاوے کے رشتے ہیں، جو انسان اپنی صواب دید پر جوڑتا ہے تاکہ تاحیات ان میں خوش اسلوبی سے بندھا رہے اور وظیفہ حیات جاری رہے۔
اسلامی احکامات اپنے ماننے والوں کو اس رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے ہی اتنا تیار کرچکے ہوتے ہیں کہ اگر ان پر کما حقہ عمل پیرا ہواجائے تو اچانک پیدا ہونے والے ناہموار و ناخوشگوار حالات بھی آسانی سے قابو میں کرلیے جائیں۔
قرآن کریم نے ایک اصطلاح مرد کی حیثیت متعین کرنے کے لیے کی ہے کہ وہ ’’قوام‘‘ ہے۔ قوامیت زندگی کے تمام امور میں اس کے درست فیصلوں اور درست رویوں کے لیے لازمی صفت ہے۔ اگر مرد خود قوامیت میں کمزور ہو، اپنے فیصلوں میں ڈھیلا ڈھالا ہو، کوئی اصول اور ضابطے اس کے اپنے نہ ہوں بلکہ تمام تر انحصار دوسروں پر ہو تو وہ اپنے خاندان میں نظم و ضبط برقرار نہیں رکھ سکتا۔
اس کے لیے ایک اور بات سمجھ لینا انتہائی ضروری ہے کہ لفظ مرد دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک صنفی فرق ظاہر کرنے کے لیے، جیسے عورت اور مرد۔ یہاں مرد کو صنفی لحاظ سے میل (Male)کہتے ہیں۔ اور دوسرا معنی مردانگی کی صفات Manhood ہے اور قوام میں اللہ تعالیٰ نے دونوں معنوں کو جمع کر دیا ہے، اور اس میں بھی مرد پوری مردانہ صفات کے ساتھ نظر آتا ہے۔ جس کا احترام لازمی ہے۔ اس کے درست فیصلوں کا لحاظ ضروری ہے اور فرد محض مرد تو ہو لیکن مردانگی سے عاری ہو تو اس کے خیالات و نظریات، سلوک اور رویے، فیصلے اور اندازے بہت جلد نامکمل ثابت ہوتے ہیں اور ناخوش گوار انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔
دوسری طرف ایک عور یا لڑکی بھی ایسی درست تربیت پائی ہو کہ درست قوام کی ماتحتی صحیح معنوں میں اختیار کرتی ہو اور اس کے درست فیصلوں کو حق بجانب جانتی ہو اور اپنے فرائض ادا کرنے کی مہارت حاصل کر کے آئی ہو تو اسے ہرگز اپنے شوہر کو قوام ماننے اور اس کے لیے ہمدرد و غمگسار بننے میں تردد یا تامل نہیں ہوگا۔
اس کے برعکس جس عورت کے دماغ میں خود خوب صورتی، تعلیم یا ڈگری اور اپنے ہی گھر کا جو ماحول اور طریقہ تربیت، ماں باپ کا بے جا لاڈ پیار یا محرومی گھر کر جائے، جس میں قوام کو بالادستی حاصل نہ ہو بلکہ صرف (Demands) تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہوجائے لیکن قوامیت سے خالی ہو تو وہ ایسی عورت کے لیے کھلونا ہوگا۔ جب ایسی عورت کا قوام سے واسطہ پڑے گا تو اس کے لیے وبالِ جان ہی ہوگا اور عورت چاہے گی کہ اس سے جتنا جلد ممکن ہو مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے اس پر کمزوریوں اور ظلم و ستم اور دیگر الزامات لگا کر پیچھا چھڑا لیا جائے اور طلاق حاصل کرلی جائے۔ ایک طرف قوام سے پیچھا چھوٹ جائے گا دوسرا فائدہ ہمدردی کی شکل میں ملے گا کہ مظلوم عورت ہے، جس کا خود اسے بھی فائدہ نہیں پہنچتا۔ جس گھر میں بیٹی کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ جاکر راج کرے گی، خود اس کے لیے بہت بڑا دھوکہ ثابت ہوتا ہے۔ جب راج ہی کرنا ہے تو کوئی کام کوئی سلیقہ، دوسروں کی عزت اور خدمت کرنا یہ سب امور سیکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ شکل تو راج کرنے لائق ہے، اوپر سے تعلیم اور ڈگری کانشہ ہو، ماں باپ کی دماغ میں بسائی گئی خیالوں کی جنت ہو، جس میں آرام ہی آرام ہو، کہیں دوسروں سے محبت، عزت اور خدمت کا پہلو نہ ہو، ایثار و قربانی کا جذبہ سرے سے موجود ہی نہ ہو، ان سب خیالات کے ساتھ چھوٹی سے چھوٹی ذمہ داری بھی پہاڑ لگتی ہے۔ کیوں کہ ذمہ داری قبول کرنے میں تردد ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ ایک دفعہ قبول کرلیں گے تو ہمیشہ کرنا پڑے گا۔ اس لیے قبول ہی مت کرو۔ مان کر ہی نہ دو۔ افسوس صد افسوس کہ میکے والے بھی اس میں بجائے نصیحت کے نافرمانی پر اکساتے اور غلط سمت میں رہ نمائی کرتے ہیں۔
اب میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ حلال’طلاق‘ کی طرف آتا ہوں۔لفظ طلاق عورتوں کا تکیہ کلام کیوں بن گیا؟ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ حق مرد کی بجائے عورت کو دیا ہوتا تو وہ کتنا صحیح اس کا استعمال کرتی۔
اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوامیت دے کر ساتھ میں کہا ہے کہ الذی بیدہ عقدۃ النکاح (جس کے ہاتھ میں نکاح کا بندھن ہے) یعنی اس بندھن کو کھول دینا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں یہ بات ازخود واضح ہو جاتی ہے کہ مرد حضرات بھی اس حق کا غلط استعمال نہ کریں بلکہ صرف وہی کریں جو اللہ کے احکامات ہیں اور قوامیت کا درست استعمال کریں اور اپنے اندر قوامیت کی صفات پیدا کریں۔ اگر مرضی عورت کی چلنے لگ گئی تو وہ قوام ہوگئی، مرد قوام کہاں رہا؟
ہمارے اربابِ فکر عورت کی مظلومیت کی راگ میں راگ ملا کر ایسا الاپتے ہیں کہ حقائق گم ہو جاتے ہیں اور فرضی مسائل کے پہاڑ نظروں کے سامنے آجاتے ہیں۔
ہمارے مفتیان اور مذہبی پیشوا سیاسی ایجنڈے اور ملی نقصان کو دیکھ کر اسے شرمیلے اور معذرت خواہانہ انداز میں Deal کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ سیاسی مسئلہ اور قومی میڈیا کے ذریعے ملت کی بدنامی کا عنوان بعد میں بنا، پہلے ہمارے رہ نما اور پیشوا اسے زندگی کا مسئلہ سمجھ کر حل کرلیتے تو کبھی دشمنوں اور اغیار کے لیے تر نوالہ نہ بنتے۔ جب ہم اس مسئلے میں عورت یا بیوی کو مظلوم مان کر چلتے ہیں تو یہاں ظالم شوہر نہیں ہوتا، بلکہ اسلام ظالم ہوتا ہے، اور یہی ایجنڈا ہے کہ اس نظام کو ظالم منوایا جائے۔ اب اگر نفس مسئلہ سمجھ میں آجائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہم نے اس نظام کو زندگی سے نہیں جوڑا۔ وہ مہارتیں نہیں سیکھیں جو زندگی کے لیے بلکہ زندگی کے ہر ہر مرحلے کے لیے ضروری ہیں۔
جہاں مفتیان کرام اور پیشوایانِ عظام خلع اور طلاق کے مسائل کی طرف رہ نمائی کرتے رہیں، خلع کے اور طلاق کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا، اور جو زندگی سے متعلق، عورت اور مرد کی ذمے داریوں کے متعلق اور زندگی کی مہارتوں Life skills سے متعلق اسلام کی رہ نمائی ہے اس سے بے خبری کے ساتھ فقہی آراء اپنا وزن کھو دیتی ہیں۔ اگر واقعات کو دیکھا جائے تو عجیب سا لگتا ہے۔ بڑے ذمہ دار نئے کپڑوں اور لذیذ کھانوں کے لیے نکاح اور ولیمہ کی تقریب منعقد کرتے ہیں اور مقصد نکاح سے آگاہی سرسری سی ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں۔ بس ذمہ داری ادا کر دینا ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لڑکی کو تعلیم بھی اس غرض سے دلوائی جاتی ہے کہ اگر شادی کے بعد شوہر سے نباہ نہ ہو سکے تو اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے۔ یہاں دیکھئے کہ شوہر ملنے سے پہلے ہی اسے بتا دیا گیا کہ ڈگری شوہر کا متبادل ہے۔ اگر تعلیم سلیقہ مندی اور زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے دلائی جانے کا شعور اور آگہی ذہن نشین کرائی جاتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔
شوہر کے بیوی سے یا بیوی کے شوہر سے اختلاف ایک موضوع ہے اور خلع یا طلاق تک پہنچنا یا پہنچا دینا دوسری بات ہے۔ جہاں کہیں تبدیلی ناگزیر ہو اس تبدیلی کے لیے اپنے اندر قابلیت باقی رکھنا زندگی میں ماہر ہونے کی علامت ہے۔ جامد ذہنیت سے زندگی مین خوش گوار رنگ نہیں بھرے جاسکتے۔
شریعت کا حوالہ دے کر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے خلع اور طلاق کو جائز کیا ہے۔ عورت چاہے تو خلع لے لے یا مرد چاہے تو طلاق دے دے، زیادتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مقصد کے تحت نکاح کے بندھن میںباندھا ہے، جہاں تک ممکن ہے زندگی کی مہارتیں سیکھی جائیں، مشق کی جائے، تبدیلی لائی جائے، اپنے موقف پر غور کیا جائے، خوش گوار حل نکالے جائیں، ایثار و قربانی کے جذبوں کو پیدا کیا جائے اور بالادستی و ماتحتی کو زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ اطاعت تو قوام ہی کی ہوگی، ماحول، معاشرے اور میڈیا نے ذہنی انتشار کو اتنی ہوا دی ہے کہ ہر فرد خود کو مظلوم سمجھنے لگا ہے۔ مرد خود کو مظلوم تصور کر رہا ہے اور ادھر عورت خود کو مظلوم۔
اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرد، مردوں اور عورتوں کو اتنا نہیں بہکاتے جتنا عورتیں عورتوں کو بہکاتی اور غلط فیصلے کرواتی ہیں۔ اگر لڑکی کو حقیقی زندگی کی آگاہی، حقوق و فرائض کا شعور اور ناہمواری اور مشکلات سے پہلے ہی آگاہ کر دیا جائے اور ضروری مہارتوں سے آراستہ کر دیا جائے تو وہ کسی بھی مرحلے میں دوسروں کے بہکاوے میں نہیں آئے گی، ہاں جہاں حالات انتہائی سنگین اور ناقابل تبدیلی ہوں، وہاں تجربہ کار ماہرین اور افراد مداخلت کریں اور موقع کی مناسبت سے مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ سنگین حالات کا شکار عورت اور مرد دونوں ہوسکتے ہیں۔ ضروری نہیں ہر بار مرد ہی زیادتی کا مرتکب ہو۔lll