چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ باغ میں سیب کے درخت پر سرخ و سپید پھول کھلے ہوئے تھے۔ سبز پتوں کے جھنڈ میں یہ نقرئی پھول بہت بھلے معلوم ہوتے تھے۔ تالاب کے پانی پر چاند تیر رہا تھا۔ تارے مسکرا رہے تھے۔ مینڈک جوش مسرت میں کبھی تالاب کے کناروں پر اور کبھی پانی میں اچھل رہے تھے۔
یکایک کہیں دور پیڑ پر بیٹھی ہوئی بلبل نے اپنا المناک نغمہ چھیڑ دیا۔ رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی اور آس پاس کی وادیوں اور گھاٹیوں میں گونجتی ہوئی سریلی مگر درد ناک آواز آخر فضا میں گھل گئی اور پھر وہی خاموشی تھی۔ رات کی گہری خاموشی۔
سادھو اپنی خواب گاہ کی کھڑکی کے پاس کھڑا اس حسین منظر کو دیکھ رہا تھا۔ چاند کی کرنیں اس کے چہرے پر پنگھوڑے میں سوئے ہوئے بچے پر اور پلنگ پر سوئی ہوئی اس کی بیوی پر پڑ رہی تھیں۔
سادھو نے ایک ہلکی سی آہ بھری۔ آج وہ اپنے لخت جگر اور اپنی جان سے پیاری بیوی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہا تھا۔ آج اس کا دل مختلف اور متضاد خیالات کا مرکز بنا ہوا تھا۔ کبھی سوچتا: ’’آہ کتنی حسین ہے یہ کائنات، کتنی حسین ہے، یہ چاندنی میں شرابور کائنات، یہ نقرئی پھول، یہ ننھا سا بچہ، یہ بھولی بھالی وفادار بیوی… ارے بے وقوف! تو انہیں چھوڑ کر کہاں جائے گا؟ جنگل میں تیرے واسطے کیا رکھا ہیَ‘‘
پھر سوچتا: ’’نہیں۔ یہ خوشی عارضی ہے۔ چند روزہ ہے۔ شام کی لالہ رنگ شفق میں رات کی ہولناک تاریکی چھپی ہوئی ہے۔ اس چاندنی رات کے پردے میں آنے والی تاریک رات پنہاں ہے۔ یہ نقرئی پھول مرجھا کر گرجائیں گے۔ یہ سبز سبز پتے زرد ہوجائیں گے۔ یہ معصوم مسکراہٹ جو اس وقت میرے سوئے ہوئے بچے کے ہونٹوں پر کھیل رہی ہے، شرارت آمیز شوخی میں بدل جائے گی اور یہ حسین خوبرو بیوی… آہ! حسن عارضی ہے!
اور پھر اس کے کانوں میں گرو کے الفاظ گونج اٹھتے: ’’مایا! سب مایا! سادھو! یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ دنیا ایک دھوکہ ہے۔ ایک سراب ہے، ایک جال ہے، بھاگ، سادھو! اس سے دور بھاگ!
سادھو نے آہستہ سے کھڑکی کا پردہ گرا دیا اور پلنگ کی طرف مڑا۔ اس کی بیوی بازو پر سر رکھے سو رہی تھی۔ چاند کی کرنیں پردے سے چھن چھن کر اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ بالوں کی ایک سیال لٹ اس کے رخسار پر خم کھائے پڑی تھی۔ اس کے باریک ہونٹ کانپ رہے تھے۔ سادھو نے اسے دیکھ کر ایک آہ بھری اور پھر پنگھوڑے کی طرف مڑا۔ بچہ سو رہا تھا۔ آہ کتنا خوب صورت بھولا بھالا معصوم چہرہ تھا اور … ہاں یہ اس کے ہی جگر کا پارہ تھا، اس کے ہی دل کا ٹکڑا۔ اس کا دل ایک بار اسے جی بھر کر پیار کرلینے کو بے تاب ہوا تھا۔ اس نے اپنے بچے کو چھاتی سے لپٹا لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ مگر پھر یہ خیال کر کے رک گیا کہ کہیں سویا ہوا بچہ جاگ کر رونے نہ لگے۔ اس نے آہستہ سے بچے کے ننھے منے بازو اٹھا کر چوم لیے۔ بیوی کی طرف آخری بار حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور باہر نکل آیا۔
آدھی رات تھی۔ خاموش اور پرسکون سناٹے کا عالم تھا۔ چاند ضیا باریاں کر رہا تھا۔ بیوی سو رہی تھی۔ بچہ سو رہا تھا۔
’’ماں! وہ کب آئیں گے؟
’’پتہ نہیں بیٹا!‘‘
’’ماں! وہ ہمیں کیوں چھوڑگئے ہیں؟‘‘
ماں چپ ہو رہی۔ کیا جواب دیتی۔ چراغ کی جھلملاتی لو میں اس کا چہرہ زرد اور افسردہ نظر آرہا تھا۔ اس کی نگاہیں نیچی تھیں۔
مگر اس کے لب کانپ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی نسوں میں درد ناک جذبات کا ایک سمندر رکا ہوا ہے۔
’’ماں او ماں! رات اندھیری ہے۔ رات سائیں سائیں کر رہی ہے۔ رات نے اپنی تاریکی چاروں طرف پھیلا دی ہے۔ ماں مجھے ڈر لگتا ہے۔ ڈر لگتا ہے۔ ماں! وہ کب آئیں گے… وہ کب آئیں گے… اوہ … اوہ… اوہ…‘‘ بچہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
ماںنے اٹھ کر بچے کو اپنی چھاتی سے لپٹا لیا۔ زور سے بھینچ کر لپٹا لیا۔ نہ رو میرے لال! نہ رو۔‘‘ اس نے بچے کو تھپکتے ہوئے کہا: اندھیری رات۔ سنسان رات… تاریک رات سے ہمیں کوئی ڈر نہیں۔ نہ رو، میرے لال! توکیوں ڈرتا ہے۔ میں تیرے پاس ہوں۔ میرے لال، میرے لال!… میری ساری زندگی ہی سے شاید ایک رات ہے۔ شاید اب تجھے بھی اپنی ساری زندگی ایسی تاریک رات میں بسر کرنی ہوگی… آہ بے چارہ۔ معصوم، یتیم!‘‘
ہوا زور زور سے چل رہی تھی۔ باغ میں خزاں کے مارے ہوئے زرد زرد پتے کھڑکھڑاتے ہوئے زمین پر گر رہے تھے۔ سیب کے درخت پر اب نہ وہ نقرئی پھول تھے۔ نہ وہ سبز سبز پتے، بس ایک ٹنڈ منڈ رہ گیا تھا جو بھوت بن کر کھڑا تھا۔ تالاب کا پانی کثنیف اور سیاہ دکھائی دے رہا تھا اور بلبل کے نغموں کی جگہ مینڈکوں کی ٹرٹرنے رات کی ہولناکی میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا۔
ماں کی گود میں لڑکا سوگیا تھا۔اس کا ایک ہاتھ اپنے گلے پر تھا، دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنی ماں کی ساڑی کا کونہ پکڑ رکھا تھا اور ماں رہ رہ کر سسکیاں لے رہی تھی۔ اس کی پلکوں پر آنسو چمک رہے تھے۔ موتیوں کی طرح شبنم کے قطروں کی طرح اور صبح صادق کا ستارہ افق پر مسکرا رہا تھا۔ آسمان کے مشرقی حصہ پر ہلکی سی روشنی نمودار ہوچکی تھی، چڑیوں، چنڈولوں، میناؤں اور فاختاؤں نے حمد باری شروع کردی تھی۔ درخت مستی سے جھوم جھوم جاتے تھے۔ سبز سبز پتوں کی آڑ سے پھولوں کی کلیاں عروس نو کی طرح گھونگھٹ اٹھا کر دیکھتی تھیں اور پھر پتوں میں شرم سے منہ چھپا لیتی تھیں۔ نسیم صبح میں پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ نہ جانے کن حسین وادیوں میں کھلے ہوئے رنگا رنگ کے پھولوں نے اپنی بھینی بھینی خوشبوؤں کو آج صبح ہوا کے دامن میں بکھیر دیا تھا۔ لڑکا بستر سے اٹھ کر آنگن میں آیا، ماں نے کہا: ’’بیٹا آج اسکول نہ جانا۔‘‘
’’کیوں ماں؟‘‘ لڑکے نے آنکھیں ملتے پوچھا۔
ماں کچھ دیر چپ رہی پھر ٹھہر کر ایک ایک لفظ پر رک رک کر بولی: آج تمہارے باپ کی سالگرہ ہے۔‘‘
’’باپ؟‘‘ لڑکا مونڈھے پر بیٹھ کر بولا۔ اس کی آواز میں درد، غم اور غصہ تینوں جذبات ملے ہوئے تھے، کون سا باپ؟‘‘ کس کا باپ؟‘‘ … آہ! میرا باپ… جو مجھے اور تمہیں اس بے درد دنیا میں بے یار و مددگار چھوڑ کر …‘‘ ماں جلدی سے بولی: ’’ایسا نہ کہو۔ میرے بیٹے… وہ تمہارا…‘‘
فرطِ غم سے وہ آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی آواز بھرا گئی۔ سانس پھول گئی۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’آلکھ! آلکھ! آلکھ!!‘‘
فقیر نے درازے پر ہانک لگائی۔ ماں نے ساڑی کے کونہ سے آنسو پونچھ ڈالے اور مٹھی میں آٹا لے کر فقیر کو دینے چلی۔
آلکھ! آلکھ!! رام تمہارا بھلا کرے گا۔‘‘
آواز جانی پہچانی ہوئی تھی۔ اس نے ایک نظر بھر کر فقیر کو دیکھا۔ آٹا زمین پر گر گیا۔ وہ خود بھی زمین پر گر پڑی اپنے دونوں ہاتھوں سے اس نے سادھو کے پاؤں پکڑ لیے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
سادھو نے اسے آہستہ سے اٹھایا اور کہا: ’’تو دیوی ہے۔ میں تیرے لائق نہیں۔ تونے سیوا کر کے نجات کا راستہ پایا ہے۔ میں نے اپنے دنیوی فرائض کو چھوڑ کر گمراہ ہوکر ٹھوکریں کھائی ہیں۔ تونے گھر بیٹھ کر سچائی اور دلی سکون کو حاصل کیا ہے۔ میں جنگل میں شانتی نہ پاسکا…‘‘
’’گرو نے کہا تھا، دنیا فانی ہے، ہوگی، مگر مجھے اس دنیا میں رہ کر ہی اپنے دنیوی فرائض کو پورا کرنے میں اپنی نجات نظر آتی ہے۔ گرو نے کہا تھا۔ دنیا جھوٹی ہے، ہوگی، مگر میں اس جھوٹ پر ہزار ابدی مسرتیں قربان کر سکتا ہوں۔اس مایا پر لاکھ حقیقتیں نچھاور کر سکتا ہوں۔ اس جنجال پر … پر مجھے پانی دو۔ میرا حلق خشک ہو رہا ہے۔ سادھو یہ کہہ کر اپنا سونٹا دیوار کے سہارے کھڑا کر کے آنگن میں بیٹھ گیا۔ ماں دوڑی دوڑی اندر پانی لینے گئی، اور ایک برتن میں پانی بھر لائی۔
سادھو نیچی نظر کیے پانی پی رہا تھا اور لڑکا مونڈھے پر بیٹھا حیرت سے اس کی طرف تک رہا تھا۔ یہ دراز ریش … یہ گیروا چغہ … یہ فقیری بقچہ… آہ لڑکے نے دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کو چھپا لیا۔ آج اس کے سب ہوائی قلعے مسمار ہوگئے تھے۔ اس نے بچپن ہی سے اپنے ذہن میں باپ کی جو تصویر بنا رکھی تھی اسے اس آنگن میں بیٹھے ہوئے فقیر سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ اسے اس لمحہ باپ کے واپس آجانے کی خوشی کا کچھ احساس نہ ہوا۔ ہاں اس کی ماں خوش تھی۔ وہ رو رہی تھی اور اپنی میلی ساڑی کے کونے سے اپنے آنسوؤں کو پونچھتی جاتی تھی۔ یہ خوشی کا رونا تھا۔ یہ محبت کے آنسو تھے۔ دل کی کلیاں کھل گئی تھیں۔ خوابیدہ مسرتیں بیدار ہوچکی تھیں۔ اب دل کے تاریک کونے میں خوشی کی شعاعیں تھیں۔ لبوں پر مسکراہٹ اور رخساروں پر چمک آگئی تھی۔lll