ساس اور بہو

حسن آرا

پنجابی زبان میں ایک گانا ہے جس کے ابتدائی بول اس طرح کے ہیں:

مجھے سورے (سسرال) نیئں جانا، نئیں جانا، ساس بُڑبُڑ کرتی ہے۔‘‘جس گھر میں ساس کی باتوں کو ’بُڑبُر‘ تصور کرتے ہوئے لڑکیاں پرورش پائیں اور یہ تصور عام ہو، وہاں ساس اور بہت کے اچھے تعلقات کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے کیا؟

گھر کی بنیاد ایک عورت رکھتی ہے۔ اگر وہ باشعور ہونے کے ساتھ صبر و تحمل اور حسنِ تدبیر سے کام لے تو گھر کے معاملات بہتر اور گھر کی فضا خوش گوار رہ سکتی ہے اور اگر یہی عورت خواہ پڑھی لکھی ہو یا کم خواندہ اور ناخواندہ منفی سوچ، ضدی رویہ اور شتوں سے بیزاری کا برتاؤ کرے، تو گھر کاشیرازہ ہی بکھر کے رہ جاتا ہے۔ ایک عورت ہی رشتوں کو بنا بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ یہ بگاڑ ایک گھر میں اس وقت آتا ہے، جب گھر میں بہو آنے کے بعد سوچ بدل جاتی ہے۔ سوچ کی یہ تبدیلی ساس کے اندر بھی ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے اور نئی بہو کے اندر بھی۔ اگر ساس اور بہو اپنے اپنے رویوں میں ضدی، ہٹ دھرم اور منفی رجحانات کی حامل ہوں تو ساس بہو کے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ ساس کی جانب کھڑے ہونے کے لیے اکثر دیگر لوگ بھی مل جاتے ہیں جن میں نندیں خاص ہیں جب کہ بہو کی جانب سے عام طور پر کوئی کھڑا ہونے والا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات بہو کے والدین اور رشتہ دار مداخلت کرتے ہیں تو معاملات اور خراب ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بڑا اہم ہے کہ کیا ساس بہو کے درمیان خوشگوار تعلقات ممکن نہیں؟ کیا یہ رشتہ تلخی کےبغیر نہیں رہ سکتا؟ اس سوال کا جواب عموماً ’’ہاں‘‘ میں نہیں ملتا۔ اس رشتے کے بارے میں یہ نظریہ بن چکا ہے کہ ساس بہو کا تعلق حریف یا دشمن جیسا ہے اور یہ تو ہر گھر کی کہانی ہے، عموماً بہو کو ساس سے شکایت رہتی ہے اور ساس کو بہو سے۔

بہو اگر ساس کو اپنی ماں کا درجہ دے اور اس سے اسی طرح کا سلوک کرے، جیسے اپنی ماں کے ساتھ کرتی تھی، اس کی غصے والی باتوں کو نظرانداز کرے اور جواب دینے کے بجائے تحمل سے کام لے تو اسے ساس کی ڈانٹ ڈپٹ بری نہیں لگے گی۔ اس صورت حال میں وہ یہ سوچے کہ شادی سے پہلے اس کی اپنی ماں بھی تو اسے ڈانٹتی تھی۔دوسری طرف ساس اگر بہو کو اپنی بیٹی کا درجہ دے تو اس کے کاموں پر تنقید کرنے اور خامیاں نکالنے کا انداز ایسا نہیں ہوگا جیسے اس کی گھر میں کوئی حیثیت ہی نہیں، بلکہ اگر اس کا کوئی کام بگڑجائے، تو اسے نظر انداز کرے گی اور اسے سلیقہ سکھائے گی اور پیار سے سمجھائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ اپنی بیٹی کا کام خراب ہونے کی صورت میں کرتی تھی۔ اس طرح بہو کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا اور وہ برا نہیں مانے گی۔

ایک لڑکی جو اپنا گھر چھوڑ کر نئے گھر آتی ہے اس کے دل میں بہت سی امیدیں ہوتی ہیں۔ نئی شادی شدہ زندگی کی امنگیں ہوتی ہیں اور اسے نئے گھر میں سیٹ ہونے میں اور اس کے ماحول و اقدار کو سمجھنے میں بھی کچھ وقت لگتا ہے۔ آج کل کے دور میں لڑکیاں پڑھی لکھی زیادہ اور عموماً گھر گرہستی میں اتنی ماہر نہیں ہوتیں جتنی پہلے ہوا کرتی تھیں۔ ایسے میں اگر انہیں شروع میں بتانے یا سمجھانے کے بجائے امتحان ہی لینا شروع کردیا جاتا ہے، تو وہ پریشان ہوتی ہیں اور پھر تلخی ہونے لگتی ہے۔ پھر ڈانٹ ڈپٹ اور دل دکھانے والا تنقیدی انداز بہو کو ساس سے بددل کردیتا ہے پھر اس کے دل میں ساس کے لیے منفی احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوجاتی ہے، جس میں جیت کسی کی نہیں ہوتی، مگر اس جنگ میں گھر کا ماحول خراب اور رشتے ناطے بے اثر ہوجاتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا اور خطرناک اثر یہ ہوتا ہے کہ ساس بہو کی یہ دشمنی ہم اپنی اگلی نسلوں کو بھی منتقل کردیتے ہیں جہاں ہر لڑکی ساس کو دشمن سمجھتے ہوئے پرورش پاتی ہے اور جب خود اس مقام پر پہنچتی ہے تو وہی رویہ اپناتی ہے اورپھر بڑھاپے میں آکر انہی رویوں کے پھل بھوگتی ہے اور سوچتی ہے کہ کاش اس نے ایسا نہ کیا ہوتا اور گھر کے ماحول کو صحت مند، مثبت اور محبت پر مبنی بنانے کی کوشش کی ہوتی۔

ساس اور بہو کا رشتہ بہت اہم بھی ہے اور نازک بھی۔ بہت سے بہتر یا بدتراحوال پیدا ہونے کا سبب بھی ہے۔ کتنے ہی گھرسب کچھ ہونے کے باوجود تباہ حال ہیں اور وجہ صرف ساس بہو کے رویے ہیں۔ کتنے ہی گھروں کے مرد ظلم کرنے کا جرم کرتے ہیں اور وجہ ساس بہو کے سطحی اور چھوٹی باتوں کے جھگڑے ہوتے ہیں۔ مرد کبھی بیوی کے حقوق ادا نہیں کرپاتا اور وجہ اس کی ماں ہوتی ہے اور کبھی ماں کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرتا ہے اور اس کا سبب اس کی بیوی ہوتی ہے۔

اس کے برعکس کچھ گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخلاقیات اب بھی ہیں، جہاں ساس بہو کے جھگڑے نہیں ہوتے، اگر ہوتے بھی ہیں تو باہمی بات چیت سے یہ تلخی بھی ختم کردی جاتی ہے۔ اس سب کا دارومدار سوچ پر ہوتا ہے، اگر ساس بہو کے لیے بیٹی جیسی سوچ رکھے تو بہو کا ذہن بھی ساس کی طرف سے مثبت رہتا ہے اور اگر یہی ساس کسی کے سامنے بہو کی برائیاں کرتی رہے، تو بہو کی سوچ خود بخود ساس کے لیے منفی ہوتی جائے گی اور نتیجہ رشتوں کے بگاڑ کی صورت میں نکلے گا۔

یاد رکھیے کہ بہو بھی کسی کی بیٹی ہے اس کی عزت نفس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، کیوں کہ ایک لڑکی جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی ہے آپ کا پیار اور شفقت اس کے دل میں بھی آپ کے لیے اچھا اثر ڈالے گا اور وہ بھی ساس کو ماں سمجھے گی۔ اس لیے لہجے میں غصے اور گھن گرج کے بجائے دھیما مزاج رکھیں، کیوں کہ صبر و تحمل ہی وہ خوبی ہے جس سے شتوں کو جوڑا جاسکتا ہے۔

ایسے وقت میں جب کہ تہذیبی اثرات کے سبب رشتے ناطے خود بھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہے ہیں اور خاندانی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں، رشتوں کو بنانے اور مضبوط کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ جب ساس بہو کے جھگڑے سر اٹھاتے ہیں تو وہ محض وقتی اثر کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا اثر اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا ہے اور نسل در نسل ساس بہو کا جھگڑا چلتا رہتا ہے۔ اس جھگڑے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا خاتمہ یہیں اور اسی نسل پر ہونا چاہیے تاکہ ہمارے بچے ساس بہو کے جھگڑے دیکھنے سے محفوظ ہوجائیں اور آئندہ نسل کے لیے ساس بہو کے جھگڑے محض کہانی بن کر رہ جائیں۔ آئیے عہد کرتے ہیں کہ ہم اس روایت کو اپنے ہاتھوں دفن کرکے آئندہ نسلوں کو ایک خوشگوار گھر فراہم کریں گے، جہاں ساس ماں کا درجہ رکھے گی اور بہو بیٹی کا مرتبہ حاصل کرکے زندگی گزارے گی۔آپ تصور کیجیے اور سوچئے کہ ماں اور بیٹی کے درمیان کیسا خوشگوار اور محبت و خدمت کا رشتہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوگا تو ہمارے گھر جنت کا نمونہ بن کر بہت سی خرابیوں سے محفوظ  ہوجائیں گے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں