سسرالی رشتوں کا پاس و لحاظ

عباس انصاری

خاندان انسانی معاشرے اور انسانی تہذیب کا سنگِ بنیاد ہے، اسی پر معاشرہ کھڑا ہوگا اور اسی کی بنیاد پر ریاست بنے گی۔ اگر خاندان کی تعمیر میں کوئی ٹیڑھ رہ جائے تو یہ اثر اوپر تک محسوس ہوگا۔ قرآن خاندان کے ادارے کو مضبوط اور مستحکم کرنا، اور اسے صحیح بنیادوں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے جس میں کسی طرح کا عدم توازن اور کوئی اونچ نیچ نہ ہو، نہ کوئی ظلم و زیادتی اور نہ کوئی کمزوری اور اضمحلال کا شکار ہو۔ خاندان میاں بیوی، بچوں، والدین اور سسرالی رشتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ترجمہ) ’’اوروہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔‘‘ (الفرقان 54)۔

شوہر اور بیوی دونوں پر یکساں فرض ہے کہ وہ سسرال کے حقوق ادا کریں۔ ان حقوق میں عمدہ طرزِ عمل، خدمت اور مالی فائدہ پہنچانا شامل ہے۔ شوہر کسی کا داماد ہوتا ہے اور بیوی کسی کی بہو ہوتی ہے۔ داماد اگر نیک بخت ہو تو دل کو خوش کردیتا ہے، دل کو موہ لیتا ہے، اور اگر نیکوکار نہ ہو تو دل کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تین داماد تھے۔ حضرت عثمانؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ داماد تھے جو مال دار بھی تھے، سخی بھی تھے اور حیادار ایسے تھے کہ فرشتے بھی شرما جاتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آپؐ کے نکاح میں آئی تھیں اس لیے انہیں ’’ذوالنورین‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے جس طرح دامادِ رسولؐ ہونے کا اعزاز دو مرتبہ پایا اسی طرح ہجرت کا شرف بھی دو مرتبہ حاصل کیا۔

ہم سیرتِ عثمان غنیؓ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ داماد ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیٹیوں کے سلسلے میں کبھی کوئی شکایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لے کر نہیں آئے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ داماد کو سسر کی بیٹی یعنی اپنی بیوی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ حتی الامکان وہ یہ کوشش کرے کہ اس کی ذات سے بیوی کے واسطے سے خسر یا ساس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے رنجش ہوگئی تو آکر کہنے لگیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حضرت علیؓ سے شکایت ہے۔ آپؐ نے پہلے ان کو سمجھایا بجھایا، کہا کہ دیکھو اپنے شوہر کی اطاعت کرو اور گھر چلی جائو۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر بچی آکر اپنے باپ، ماں، بہن، بھائی سے آکر کوئی بات کہے اور شوہر کی شکایت کرے اور اس کے گھر والوں کی شکایت کرے تو اس کی شکایت پر کان نہ دھرتے ہوئے اور اس کی بات کا ایکشن نہ لیتے ہوئے اسے واپس کردینا چاہیے۔ اگر معاملہ بہت زیادہ سیریس ہوگیا ہے تو بیٹھ کر اس کو سنجیدگی سے حل کرلیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت فاطمہؓ حضرت علیؓ کی شکایت لے کر آئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاکید فرمائی کہ تمہیں اپنے شوہر کی اطاعت کرنی چاہیے اور جائو گھر چلی جائو۔

میاں بیوی کے درمیان بگاڑ اور ماحول کی خرابی کا ایک سبب سسرال والے بھی ہوتے ہیں۔ جاکر لڑکی نے اپنے بھائی سے کچھ کہہ دیا تو اْس کے شوہر کی بات سنے بغیر بھائی ایکشن لے لیتا ہے اور لڑکی کے گھر والے داماد کی مخالفت کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اپنی بہن، بیٹی کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس سے شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات تو رہتے ہیں لیکن مزید خراب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کبھی کبھی سسرال کے لوگ بھی میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کا محرک بنتے ہیں۔ یہ تعلق بڑا ہی نازک اور بڑا ہی لطیف ہوتا ہے۔ اس کو بڑے قاعدے سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ شوہر کے گھر والے ہوں یا سسرال کے لوگ۔

قرآن میں دس مقامات پر حکم دیا گیا ہے کہ رشتے داروںکا حق ادا کرو۔ سسرال کے افراد داماد کے قرابت دار ہیں، لہٰذا ان کے حقوق کی ادائیگی داماد پر فرض ہے۔ بیوی کے تمام معاملات کا اختیار شوہر کے پاس ہے، لہٰذا بیوی کو اس کے ماں باپ اور اقربا کے حقوق ادا کرنے کی اجازت دے۔ سسرال بچوں کا ننھیال ہے، لہٰذا مرد کو چاہیے کہ بچوں کو سسرال سے مربوط رکھے تاکہ بچے بھی قرابت داری کا حق ادا کرسکیں۔ یہ بچوں کا حق بھی ہے اور سسرال کا حق بھی، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں درج ہے۔

ایک رشتہ نسبی ہوتا ہے اور ایک رشتہ سسرالی ہوتا ہے۔ کسی بھی عقل مند سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ سسرال والے، شوہر کی جو بیوی ہے، بیوی کے اہلِ قرابت ہیں، اور یہی سسرال والے شوہر کے بچوں کے ننھیالی رشتہ دار ہیں۔ اس طرح ایک تو ان سے دامادی رشتہ ہے اور دوسرا رحم کا رشتہ ہے۔

حضورؐبحیثیت داماد

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتوں میں جلیل القدر صحابہ کے علاوہ مشرکین اور یہود و عیسائی بھی تھے، اور جن سے آپؐ کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ آپؐ نے اپنی پہلی بیٹی کا نکاح اپنی سالی کے بیٹے ابوالعاصؓ سے کیا تھا۔ یہ مثال ہے اپنے سسرالی رشتوں سے مزید گہرے تعلقات کی۔ آپؐ اپنے سسرال کی بہت تکریم بھی کرتے تھے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سسرالی رشتے داروں کو تحفے تحائف بھیجا کرتے تھے اور اپنی ازواج کو بھی کہتے کہ اپنے رشتے داروں کو تحفے تحائف دیں۔ امامہ بنتِ حمزہؓ کی کفالت جعفرؓ نے کی، کیوں کہ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیوی اس بچی کی خالہ ہے، جب کہ کفالت کے لیے علیؓ و زید بن حارثؓ بھی دعویدار تھے۔ (بخاری کتاب الصلح، حدیث 1219)۔

آپؐ نے سسرالی رشتوں کے ساتھ احسان کا رویہ اپنایا جس کی مثال ایک حدیث سے ملتی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب جویریہ بنتِ حارث بن المصطلق سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور جب لوگوں نے یہ سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ سے نکاح کرلیا تو انہوں نے بنی مصطلق کے تمام قدیوں کو چھوڑ دیا اور کہنے لگے کہ یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے ہیں، ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی اپنی قوم پر جویریہؓ سے زیادہ، کہ ان کے سبب سے سو قیدی بنی المصطلق کے آزاد ہوگئے (سنن ابودائود۔ جلد سوم۔ حدیث نمبر 540)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سسرالی رشتے داروں اور ازواجِ مطہرات کی سہیلیوں کی آمد پر اظہارِ مسرت کرتے تھے (صحیح مسلم۔ جلد سوم، حدیث نمبر 1781)۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہؓکی بہن حضرت ہالہ بنت ِ خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے کی اجازت مانگی تو آپؐ کو حضرت خدیجہؓ کا اجازت مانگنا یاد آگیا تو آپؐ اس کی وجہ سے خوش ہوئے اورفرمایا: اے اللہ یہ تو ہالہ بنتِ خویلد ہیں۔ سسرالی رشتے دار بلا تکلف آپؐ کے گھر آتے جاتے تھے۔ معذور اور عمر رسیدہ لوگوں سے خود جاکر ملتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر ابوقحافہؓ سیدہ عائشہؓ کے دادا کو اسلام قبول کرنے کے لیے لایا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ان کو کیوں تکلیف دی، میں خود ان کے پاس جاتا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بیوی کے کمزور اور بیمار رشتے داروں کے پاس جانا، یہ مرد کی ذمہ داری ہے۔

ایک دفعہ حسانہ مزنیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملاقات کرنے کے لیے آئیں اور بڑی دیر تک آپؐ ان سے بات چیت کرتے رہے اور ان کے حالات دریافت کرتے رہے۔ جب حسانہ مزنیہ چلی گئیں تو حضرت عائشہؓ نے سوال کیا کہ وہ عورت کون تھی، جس سے آپؐ بات چیت فرما رہے تھے اور اْس کے حالات دریافت کررہے تھے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ حسانہ مزنیہ تھی، میری پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کی سہیلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سسرالی رشتے کا اتنا پاس و لحاظ کرتے تھے کہ اگر بیوی کی سہیلی بھی آجاتی تو آپؐ اس کا ادب و احترام، تعظیم و تکریم کرتے تھے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐ کے داماد ہیں، انہوں نے اللہ کے راستے میں کتنا مال خرچ کیا وہ ہم سے مخفی ہے۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآنِ میں جہاں بھی حقوق و فرائض کی آیت ہے، وہاں اللہ نے حق کو وصول کرنے کے بجائے حق ادا کرنے کی زیادہ تاکید کی ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد مبارک ہے ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچا دو، اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو‘‘(النساء 58)۔ جب حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم نسبی رشتوں کی بھی حفاظت کریں، اور جو لوگ نسبی رشتوں سے ہم سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے حقوق کا خیال رکھیں، ان کے بھی حقوق کا ہم پاس و لحاظ کریں۔ ان تمام واقعات پر ذرا غور فرمایئے تو ایک معاشرتی زندگی کا عجیب و غریب سبق ملتا ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ ایک طرف تو آپؐ اپنی بیوی کے جذبات کا احترام کررہے ہیں، دوسری طرف ان کے خاندان کے لوگوں کی تکریم فرما رہے ہیں تاکہ بیوی کو یہ احساس ہو کہ اس گھر میں شوہر کی نظر میں میری بڑی عزت ہے، بڑی تکریم ہے، اور اس کے گھر کے اندر میرے والدین اور میرے گھر والوں کی بھی بڑی عزت ہے۔

اسلام میں رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار ہے، اس کے لیے مرد وعورت دونوں پر ذمہ داریاں اور ایک دوسرے پر دونوں کے جائز حقوق متعین کیے گئے ہیں جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور معاشرے میں امن و سکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ گھر میں بیوی اور اولاد ایک امانت ہیں، اسلامی خطوط پر ان کی تربیت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، کل قیامت کے دن آپ کو اپنے ماتحتوں کے متعلق جواب دینا ہے، اس لیے اپنے آپ کو ایک ذمے دار اور دیندار شوہر بنائیں، اپنی بیوی کو پاک باز اور تقویٰ شعار بیوی بنائیں، اپنے بچوں کو نیک اور فرماں بردار اولاد بنائیں اور اپنے گھر کو ایک مثالی گھر بنائیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں