’’سلاف‘‘ آئی بہار لائی کلی چمن میں ہے مسکرائی
خدائے رحمت ہے شکر تیرا کہ جسم مردہ میں جان آئی
نہ کوئی غم ہے نہ کوئی شکوہ روش روش ہے بنی خیاباں
ورود مسعود ہے یقینا ’’الفقر فخری‘‘ کی شان لائی
سحر کے احوال جانتی ہے، اذاں سے پہلے پکارتی ہے
اندھیری راتوں کا وقت سارا وہ بندگی میں گزارتی ہے
وجود اپنا وہ جانتی ہے خدا کو مالک وہ مانتی ہے
بگڑتے موسم سے بے خبر وہ فضا کی زلفیں سنوارتی ہے
وہ مسکرائے تو مسکراؤں زمانے بھر کے میں گیت گاؤں
اگر نہ توفیق دے خدایا کہاں سے نعمت میں ایسی پاؤں
کرشمہ سازی کا ہے مرقع، میں اس کی کیا کیا صفت گناؤں
خوشی ملی ہے جو تیرے در سے فلک سے تارے بھی توڑ لاؤں
ہر ایک چہرہ کھلا کھلا ہے نہ این و آں میں ہی فاصلہ ہے
قدم قدم سے ملا رہے ہیں یہ اہل ایماں کا قافلہ ہے
ہوا سے بادل بھی کھیلتے ہیں، درخت جنگل میں جھومتے ہیں
کنارے دریا میں سوچتا ہوں، نئے زمانے میں داخلہ ہے
اسے محبت ہے تیرے گھر سے، ترے نبیؐ سے تری ڈگر سے
کلام تیرا وہ سن رہی ہے بڑی توجہ کڑی نظر سے
تمہاری قدرت کے سارے جلوے جو علم و حکمت کا راز کھولیں
انھیں سمجھنے لگی ہے کچھ کچھ بڑے سلیقہ بڑے ہنر سے
سکوں و راحت ہے اس کے دم سے محبتوں کی بنی علامت
بلند و بالا ہے فکر اس کی نہیں کسی سے کوئی شکایت
ہو حق پرستی ہی اس کا شیوہ اگرچہ دنیا رہے مخالف
ہوس پرستی کا دور دورہ، خدا ہی اس کی کرے حفاظت
تمام دنیا یہ جانتی ہے کہ تیری رحمت سوا ہے سب سے
جھکائے سر کو کھڑا ہوا ہوں تمہارے در پہ نہ جانے کب سے
وہ ننھے ننھے سے پاؤں والی زبان جس کی حسیں مثالی
وہ خوب پھولے پھلے جہاں میں دعا یہ کرتا ہوں اپنے رب سے
(’’سلاف‘‘ شاعر کی پوتی ہے)