سماجی ارتقا کی ضرورت

شمشاد حسین فلاحی

ملک ترقی کر رہا ہے۔ صنعتی ترقی کے اعداد و شمار اور فی کس آمدنی میں اضافے کا ’’فلسفہ‘‘ اس کی شہادت دیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ صنعتی ترقی کی شرح نمو اگر کم ہوتی نظر آتی ہے تو اس پر سرکاری ایوانوں سے لے کر عوام الناس تک کے درمیان بحث ہوتی اور تشویش کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ ملک کے شہریوں کو ملک کی صنعتی ترقی اہم نظر آتی ہے۔ مگر اس کی اہمیت نے عوام کے ذہنوں سے یہ بات یکسر بھلادی ہے کہ اس ترقی کی طرح ہی بلکہ اس سے زیادہ اہمیت کے حامل ایک اور ترقی بھی ہے اور وہ ہے سماجی ارتقا کا عمل۔

سماجی ارتقا کی اہمیت اور اس کی ضرورت کے عدم احساس نے عجیب و غریب سماجی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ ملک ترقی کر رہا ہے مگر سماج تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ افراد اور خاندانوں کا معاشی ارتقا ہو رہا ہے مگر گزشتہ زمانوں کی سنہری اور دل پذیر اقدار و روایات معدوم ہو رہی ہیں۔ معیارِ زندگی بلند ہو رہا ہے مگر انسانی اخلاق و کردار پستیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ حالت پورے معاشرے اور سماج کی ہے۔

معیشت اور معاشرت ہی کی طرح سیاست دانوں کی سیاست بھی تنزلی کی طرف ڈھلکتی چلی جاتی ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی جو ناک تک انسانی خون میں ڈوبے ہوئے ہیں، گجرات کی ترقی کا ’نام نہاد ماڈل‘ پیش کرکے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک کا اقتصادی اور صنعتی ارتقا اہم اور ضروری ہے۔ مگر اس سے زیادہ اہم اور ضروری سماج اور معاشرے کا ارتقا ہے اور اس ارتقا کا مطلب ہے کہ سماج و معاشرے میں اچھی اقدار مضبوط ہوں اور انھیں فروغ حاصل ہو، پرانی اور قابل رشک روایات مستحکم ہوں، انسان کم از کم ان بنیادی انسانی اخلاقی قدروں کو دانتوں سے پکڑے رہیں جو کسی بھی مہذب اور باکردار معاشرے کا تصور دیتی ہیں۔ مگر کیوں کہ سماجی ارتقا کی فکر کسی کو نہیں اس لیے انسان ترقی کر رہا ہے مگر انسانیت بتدریج حیوانیت کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ گینگ ریپ، چوری ڈکیتی، معاشی سفید پوش جرائم، ذہنی اور نفسیاتی امراض، خاندانوں کا بکھراؤ، ٹوٹتے بکھرتے اور اپنی اہمیت کھوتے رشتے ناطے ایسے موضوعات ہیں جو سماجی ارتقا کے عمل کی شدید ترین ضرورت کا احساس دلاتے ہیں۔ مگر اس ارتقا کی فکر نہ تو ملک کے اربابِ اقتدار اور اربابِ سیاست کو ہے اور نہ ملک کے ماہرین علم سماجیات کو۔ اور اگر ہو بھی تو ان کی سوچ قانون سازی اور مغربی طرز کے چند مشوروں سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کا خاکہ تو صرف اسلام اور اہل اسلام دے سکتے ہیں۔ تو کیا ہم اس موضوع پر سوچنے کی کوشش کریں گے؟lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146