سماجی خدمت کا اسلامی نظریہ

شمشاد حسین فلاحی

سماجی زندگی سماج کے افراد کی خدمت کا نام ہے اور سماجی رول اس کی خدمت سے ادا ہوتا ہے۔ ہمارے دین میں انسانوں کی خدمت کو حسین ترین اور اللہ کے نزدیک بہترین عملی بتایا گیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:

’’بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔‘‘

اس کے علاوہ بے شمار ارشادات رسولؐ ہیں جو سماجی خدمت یا انسانی خدمت کی اہمیت اور عظمت بھی بتاتے ہیں اور ان کو انجام دینے کے لیے شوق بھی دلاتے ہیں۔ حضورِ پاکؐ کی زندگی کو اگر دیکھیں تو قبل نبوت ہی سے انسانی خدمت کے لیے وقف تھی۔ غریبوں، کمزوروں، یتیموں اور بیواؤں کی خدمت آپ کا محبوب ترین عمل تھا اور تاحیات رہا۔ جب آپ کو بار نبوت سونپا گیا اور آپ حیران و پریشان گھر لوٹے اور حضرت خدیجہ سے اس کا تذکرہ کیا تو حضرت خدیجہ نے آپ کے انہی انسانی خدمت کے اعمال کا حوالہ دے کر تسلی دی اور کہا کہ گھبرائیں نہیں۔ آپ یتیموں، بیواؤں اور کمزوروں کے کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ کے رسولؐ کا مشہور قول ہے آپ نے فرمایا:

میں کسی انسان کی ضرورت کی تکمیل کے لیے خود چل کر اس کے پاس جاؤں یہ مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ میں اپنی اس مسجد میں ایک ماہ اعتکاف کروں۔

اور ایک اور جگہ آپ نے فرمایا:

’’بے شک اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہو۔‘‘

انسانوں کی خدمت اور سماجی خدمت کا نظریہ کوئی محدود دائرہ نہیں رکھتا۔ اسلام کے نزدیک اپنی جان پر کھیل کر کسی کی جان بچانے سے شروع ہوتا ہے اور کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانے سے ہوتا ہوا کسی انسان سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنے اور اس کے لیے اچھے اور محبت کے جذبات رکھنے تک پر محیط ہے۔ اور حقیقت میں یہی تصور جب انسان کے ذہن و فکر میں راسخ ہوکر عمل میں ڈھل جائے تو خیر الناس ہو جاتا ہے اور اگر پوری امت میں یہ تصور بن کر عمل میں ڈھل جائے تو وہ خیر امت ہوجاتی ہے۔ تمام انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کے لیے۔

کنتم خیر امۃ اخرجت للناستم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے، نہ کہ مسلمانوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔ خیر امت کے افراد انسانوں کے لیے سراپا نفع اور خیر ہوتے ہیں۔ خیر الناس من ینفع الناس۔ (بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے)۔

انسانوں کے لیے نفع بخش ہونا اور رہنا ہی انسانی زندگی کے وجود اور بقا کا جواز ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہ نے آپ کی انسانی خدمات کا حوالہ دے کر یہ بات کہی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی انسانوں کے لیے بھی اہم ہے اور ان کے رب کے نزدیک بھی محبوب۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ زمین میں وہی چیز باقی رہتی ہے تو جو انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہو اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ ہوا ہو جاتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔ (الرعد:۱۷)

خیر کا باعث ہونے اور انسانوں کے لیے نفع بخش ہونے کا یہ تصور انسانوں کی انفرادی زندگی پر بھی نافذ ہوتا ہے اور گروہوں اور امتوں کی زندگی پر بھی یکساں طور پر نافذ ہوتا ہے اور جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو یہ دین ہی انسانوں کی منفعت اور فائدے کے لیے آیا ہے۔ اس کے لیے ہم رسول پاکؐ کی ذاتی زندگی کو بھی دیکھ سکتے ہیں اور اللہ کے احکامات اور نبوی زندگی کی تعلیمات کے ذریعے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ انسانوں کے لیے فائدہ پہنچانے کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچالیا جائے اور اس کی معمولی ترین صورت یہ ہے کہ ہمارے ذریعے کسی انسان یا جاندار کی کوئی تکلیف دور ہوجائے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی پریشانی دور کر دی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی (کربت) کو دور فرمائے گا۔ حدیث میں ہمیں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک انسان نے پیاس سے تڑپتے ایک کتے کو پانی پلایا اور اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اس کو جنت کا حق دار بنا دیا۔ اسی طرح ایک عورت کے بارے میں آتا ہے کہ اس نے ایک بلی کو باندھے رکھا نہ اسے کھانے پینے کے لیے چھوڑا اور نہ ہی خود اسے کھانا دیا اور وہ مرگئی۔ اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ عمل اس قدر ناپسند ہوا کہ اس کے لیے جہنم کا فیصلہ ہوگیا۔

ان دونوں واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مومن سرتا پا خیر ہے اور اس کو انسانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ کائنات کی ہر مخلوق کے لیے خیر ہی خیر ہونا چاہیے۔ البتہ انسان اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ انہیں انسانوں سے خیر دستیاب ہو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے وجود کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا والوں کے لیے رحمت ہی رحمت قرار دیا ہے۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔

اسلام اہل خانہ اور اہل خاندان کی خدمت اور ان پر خرچ کرنے کو اگرچہ سماج نہ مان کر قریبی کے درجہ میں رکھتا ہے، مگر ان پر خرچ کرنے کو دوہرے اجر کا باعث اور افضل ترین صدقہ قرار دیتا ہے۔ قریبی رشتہ داروں کے سلسلے میں انسانی خدمت اور رشتوں کو نبھانے کے دوہرے اجر کی بات ہمیں ہمارے دین میں ملتی ہے۔ بیوی بچوں کی خیرخواہی اور ان کو جہنم کی آگ سے بچانا فرد کی ذمے داری قرار دی گئی ہے اور ان پرخرچ کرنے کو افضل ترین صدقہ کہا گیا ہے۔ حضورِ پاکؐ نے فرمایا کہ ’’سب سے افضل وہ دینار ہے جو انسان اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے۔‘‘ بیوی بچوں اور قریبی رشتے داروں کے بعد سماج کی سرحد شروع ہوتی ہے اور اس کی سب سے پہلی یونٹ پڑوس ہے۔ پڑوسی وہ یونٹ ہے جو ہماری جانب سے انجام پانے والے ہر خیر اور نفع کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا حق دار ہے۔

حضورؐ نے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں تاکید کی فرمایا کہ حضرت جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے لیے اس قدر تاکید فرماتے کہ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ کہیں اسے وراثت میں حصہ دار نہ بنا دیا جائے۔

سوچئے کہ ایک شخص اپنا خون پسینہ بہاکر روزی روٹی کما کر لاتا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر کھاتا ہے اور وہ صاحب ایمان بھی ہے مگر اس کا یہ خون پسینہ سے کمایا ہوا مال اسے ایمان کے دائرے سے نکلنے کے قریب پہنچادیتا ہے اگر اس کے گھر کے آس پاس کے چالیس گھروں میں ایک بھی فرد رات کو بھوکا سونے پر مجبور ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو، یاد رکھئے کہ اس میں پڑوسی کا مسلمان ہونا ضروری نہیں وہ ہندو، سکھ، عیسائی یا یہودی کے ساتھ ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی دین کا ماننے والا اور کسی بھی رنگ و نسل کا ہوسکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ آپ کا دوست ہے یا مخالف اور دشمن۔ تصور کیجیے اگر ہم حضور پاک کی ایک تاکید کی روشنی میں زندگی گزاریں تو انسانیت کے لیے اور سماج کو ہم کس قدر خیر سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔

اس بات کو اگر ہم ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں، جہاں مذہب اور طبقات کی بنیاد پر پیدا ہونے والی نفرت اور کشمکش نے پورے ملک میں عجیب و غریب فضا پیدا کر رکھی ہے ایسے میں اگر ہم سماجی خدمت میں اس یونٹ کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کرلیں تو ہمارے لیے اور نتیجتاً اسلام کے لیے لوگوں کا طرز فکر و عمل یکسر تبدیل ہوجائے گا۔ ایک غیر مسلم، دلت، پچھڑا ہوا اور غریب انسان برسر عام کہے گا کہ مسلمان اوراسلام تو سراپا خیر ہے۔ میرے پڑوسی مسلم نے میر ی اس وقت مدد کی جب میرے سماج اور میرے رشتہ داروں نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ اس نے مجھے اور میرے بچوں کو اس وقت کھانا کھلایا جب وہ بھوکے تھے اور کہیں سے کھانے کی کوئی امید نہ تھی۔

اسلام نے بھوکے کو کھانا کھلانے کی زبردست تاکید کی ہے اور اسے جنت کا راستہ بتایا ہے۔ قرآن اور حدیث میں بہت سے مقامات پر اس کا حکم بھی ہے اور ذکر بھی۔ مگر آج ہم جب اپنا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی ان تمام نعمتوں پر جو اس نے ہمیں عطا کی ہیں ہم صرف اپنا ہی حق تصور کرتے ہیں اور غریبوں، یتیموں اور محروموں کو بھول جاتے ہیں حالاں کہ ہروقت کے کھانے میں ہم یہ کام بڑی آسانی سے اور اضافی خرچ کے بغیر کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف ذرا سکھ برادری پر نظر ڈالیں۔ ہندوستان میں پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کو وہ کھانا کھلا رہے ہیں، سیریا کے مظلوم اور مقہور انسانوں تک کو کھانا کھلانے وہ پہنچے ہوئے ہیں اور عرب شیوخ اپنے محلوں میں داد عیش دے رہے ہیں۔ خیر امت تو ہم بنا کر بھیجے گئے تھے، انسانوںکو نفع پہنچانے والے تو ہم تھے۔ ہم نے اس کام کو چھوڑ دیا اور اب ہم بہ حیثیت امت اور بہ حیثیت فرد کہاں کھڑے ہیں، اس کا آپ کو خوب اندازہ ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ آتا ہے۔ حضرت علیؓ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک شخص نے شرارتاً انہیں روک لیا اور ان سے ایک سوال پوچھنے کا ارادہ کیا، اس کا اندازہ تھا کہ حضرت علیؓ کو اس کے جواب میں ایک لمبی چوڑی تقریر کرنی پڑے گی جس میں کافی وقت لگ جائے گا اور ان کا وہ کام نہ ہوسکے گا، جس کے لیے وہ نکلے ہیں۔ اس نے حضرت علیؓ کو روکا اور کہا کہ پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں گے اور پھر کہیں جائیں گے۔ حضرت علی نے اس کا سوال سنا، وہ پوچھ رہا تھا کہ اسلام کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے اپنی سواری پر سوار ہوتے ہوئے جواب دیا:

العظمۃ لامراللہ و الشفقۃ لخلق اللہ

اللہ کے حکم کو بڑا درجہ دینا (یعنی اس کی اطاعت کرنا) اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت و محبت کرنا۔

ہم سماجی خدمت یا سماجی کردار کی ادائیگی کا مطلب ادارے چلانا اور NGOچلانا سمجھتے ہیں حالاں کہ اس سے زیادہ بنیادی اور اہم کام یہ ہے کہ ہم انفرادی سطح پر اس طرزِ عمل کو اور طرزِ زندگی کو اختیار کریں جس کی تعلیم و تاکید ہمارا دین ہمیں کرتا ہے۔ تصور کیجیے ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے کہ کسی کو خیر کی بات سکھا دینا یا جو کچھ ہم جانتے ہیں اسے دوسروں کو سکھا دینا صدقہ ہے اور عملا یہ بڑی انسانی خدمت بھی ہے۔ لیکن ہم صرف جیب سے نکال کر روپے پیسے خرچ کرنے ہی کو صدقہ تصور کرتے ہیں۔ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے اور راستہ چلنے والوں کی خدمت اور ان کا تحفظ بھی، مگر ہم چلتے پھرتے اس پر توجہ نہیں دیتے۔ نہ صرف یہ کہ ہم راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کو نہیں ہٹاتے بلکہ راستے میں اور زیادہ تکلیف دہ چیزیں ڈالتے ہیں۔ اپنے گھر کی صفائی کے بعد کوڑا راستے میں، آدھی دکان سڑک پر، کار راستے میں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے رسول نے راستہ چلنے والوں کے بھی حقوق کا تحفظ کیا ہے اور سرراہ غلط انداز میں بیٹھنے اور چلنے پھرنے سے بھی روکا ہے۔ راستوں میں تنگی پیدا کرنے سے منع کیا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ سماج میں بسنے والے انسانوں کے لیے ہم آسانی کا ذریعہ بنیں پریشانی کا نہیں۔

اللہ کے رسول پر نازل ہونے والی پہلی وحی حصولِ علم اور اشاعت علم سے متعلق ہے جب کہ دوسری وحی صفائی و پاکیزگی اختیار کرنے اور گندگی (ہر قسم کی) سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ مسلم سماج عالمی سطح پر اس وقت علم و تحقیق کے میدان میں پسماندہ ہے جب کہ پاکی و صفائی خواہ وہ افکار و نظریات کی ہو یا عملی زندگی میں صفائی ستھرائی اختیار کرنے والی جسے انگریزی میں Sanitation کہتے ہیں، ہمارے یہاں کم ہی قابل اہتمام ٹھہرتی ہے۔

اگر ہم اسلامی نظریہ سماجی خدمت کو حقیقتاً سمجھ لیں تو ہمارے یہاں ہر تعلیم یافتہ فرد ایک مدرسہ اور اسکول بن جائے اور سماج سے جہالت کا خاتمہ ہوجائے۔ اگر ’’طہارت نصف ایمان ہے‘‘ کی تعلیم کو سمجھ لیں تو ہمارا سماج فکر و عمل کے اعتبار سے پاک و صاف سماج بن جائے۔

ہمارے دین نے غربت کو پورے سماج کے لیے تھریٹ تصور کیا ہے اوراسی وجہ سے غربت کے خاتمے کے لیے زکوٰۃ اور انفاق کا نظام قائم کیا ہے۔ جہالت کو علم اور انسانی ترقی کے لیے تھریٹ تصور کیا اور اس وقت فروغ علم کے لیے مہم چلائی۔ بیماری کو صحت انسانی کے لیے تھریٹ تصور کرتے ہوئے حفظان صحت کے اصول کو دین بنایا اور ان پر عمل کو باعث اجر و ثواب۔ تو کیا مسلم سماج سے ایسے افراد اٹھیں گے جو دین کے سماجی خدمت کے اس نظریے کی عملی تفہیم کرا سکیں۔

ہمارے رسول نے فرمایا تھا:

’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ مسلم اور مومن ہمیشہ دینے والا ہوتا ہے اور دینے کا نام ہی خدمت ہے۔ عزت بھی دینے والوں کو ہی ملتی ہے۔ رہے لینے اور مانگنے والے تو ان کو کچھ ملے یا نہ ملے مگر ذلت ضرور ملتی ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں