خالص پانی کا درجہ حرارت 0°Cسے نیچے نہیں جاتا۔ اس سے زیادہ ٹھنڈا ہونے پر پانی جمنے لگتا ہے۔ نمکین سمندری پانی کا درجہ حرارت2°Cتک جاسکتا ہے۔ یعنی یہ خالص پانی سے دو ڈگری زیادہ ٹھنڈا ہوسکتا ہے۔ لیکن سمندر کے پانی کا درجہ حرارت کہیں بھی 2°Cسے نہیں جاتا۔ زیادہ ٹھنڈا ہونے پر وہ بھی جم کربرف بننے لگتا ہے۔ قطبی علاقوں میں ٹھنڈ زیادہ ہونے سے جاڑے میں سمندر جمنے لگتا ہے۔ برف کی پرت سمندر کی تہہ پر جمنی شروع ہوجاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ تین میٹر یعنی دس فٹ تک موٹی ہوسکتی ہے۔ پانی جم کر برف بننے کی صورت میں پھیلتا ہے۔ اس لیے کبھی کبھی کوئی جہاز اگر برف میں پھنس جاتا ہے تو دباؤ زیادہ ہونے کے سبب یہ ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ برف سے جمے ہوئے سمندر پر جہاز نہیں چل سکتے۔ اس لیے خاص قسم کے مضبوط جہازبنائے جاتے ہیں جو سمندری راستوں میں جمی برف کو توڑ کر راستہ کھلا رکھتے ہیں۔
گرمی کے موسم میں ایسی زیادہ تر برف خود ہی پگھل جاتی ہے۔ سمندر میں ایک اور ذریعہ سے بھی برف آتی ہے۔ گرین لینڈ اور قطب جنوبی پر گلیشئر ہوتے ہیں۔ یہ دراصل جمی ہوئی برف کی ندیاں ہیں جو بہت سست رفتار سے چلتی ہیں۔ سمندر کے کنارے پہنچ کر برف کی چٹانیں گھن گرج کے ساتھ ٹوٹ ٹوٹ کر سمندر میں گرتی ہیں۔ پھر یہ تیرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرے برف کے بڑے بڑے تودے سمندر میں تیرتے رہتے ہیں۔ گرین لینڈ سے آنے والے برف کے تودے نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کی اونچائی پچاس میٹر تک اور وسعت 0.8کلو میٹر تک ہوتی ہے۔ برف کے یہ پہاڑ دو سال تک قائم رہ سکتے ہیں۔ ان کا صرف دسواں حصہ ہی پانی کے اوپر نکلا دکھائی دیتا ہے۔ باقی نو حصے پانی میں ڈوبے رہتے ہیں۔ برف کے یہ پہاڑ موسم بہار اور گرمی میں تیرتے ہوئے سمندری جہازوں کے راستوں میں آجاتے ہیں۔ ان سے ٹکرا کر جہاز ٹوٹ سکتے ہیں۔ ۱۹۱۲ء میں ’’ٹائی ٹانک‘‘ نامی برطانوی جہاز برف کے ایسے ہی پہاڑ سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس حادثہ کے بعد ایک ’’بین الاقوامی برف پیٹرول‘‘ نامی ادارہ قائم کیا گیا۔ جو برف کے خطرناک تودوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے اور ان کی حالت کی اطلاع وائرلیس کے ذریعہ جہازوں کو دیتا رہتا ہے۔ قطب جنوبی سے آنے والے برف کے تودے اور بھی بڑے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل چلتے پھرتے پہاڑ جیسے ہوتے ہیں اور آٹھ دس سال تک قائم رہتے ہیں۔lll