سوشل میڈیا اورگھریلو زندگی

زینب حسین غزالی

ایک بہن نے سوال کیا کہ اگر شوہر گھر آکر بھی مسلسل سوشل میڈیا، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا موبائل ہی میں لگا رہے، بیوی بچوں اور گھر میں دلچسپی نہ لے تو کیا کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ بات ایک بہن نے کہی اس لیے بیوی کا مسئلہ نظر آرہا ہے۔ میرے خیال میں صورت حال اس کے بالکل برعکس بھی ہوسکتی ہے، اور حقیقت میں بہت سی جگہ دیکھنے میں آتی ہے وہ یہ کہ بیوی، ٹی وی، موبائل یا سوشل میڈیا میں اس قدر غرق اور منہمک رہتی ہے کہ اسے بچوں، شوہر اور گھر کے کاموں کی فکر ہی نہیں رہتی۔ بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں اور ماں ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہے یا موبائل پر لگی پڑی ہے۔ شوہر گھر آیا ہے، اور بیگم صاحبہ کو کوئی خبر نہیں ہے کیوں کہ وہ سوشل میڈیا پر مصروف ہیں۔

یہ کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ بے شمار خاندانوں میں نظر آنے والی بھگتی جا رہی باتیں بلکہ حقیقت ہے۔ سوشل میڈیا، موبائل اور ٹی وی ہماری زندگی میں کینسر کے مانند داخل ہوکر پھیل رہا ہے اور بہ ظاہر اس کا کوئی علاج نظر نہیں آتا۔ یہ مسئلہ صرف شوہر یا بیوی کا ہی نہیں ہے بلکہ بچوں اور نوعمروں سے لے کر بڑی عمر تک کے لوگوں کو ایک لت کے طور پر اپنی گرفت میں لیے ہے۔ اس کا سب سے پہلا اور عام نقصان تو یہ ہے کہ انسان کے مزاج اور توجہ میں ارتکاز ختم ہوگیا ہے اور دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ اسی سوشل میڈیا نے انسان کو سوسائٹی سے کاٹ کر ’’ان سوشل‘‘ بنا دیا ہے، اور بچوں پر تو اس کے اثرات غیرمعمولی ہیں جو ان کے مزاج، سرگرمیوں، تعلیم اور صحت تک کو متاچر کر رہا ہے۔ بچوں میں تشدد کے بڑھتے رجحان، پڑھنے لکھنے اور تعمیری سرگرمیوں دوری کے پیچھے بھی ماہرین اسی کو بڑا سبب قرار دے رہے ہیں۔

دوسری طرف اس کا اثر خاندان، رشتوں اور تعلقات پر بھی واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کہیں یہ کیفیت شوہر کے ساتھ نظر آتی ہے تو کہیں بیوی کے ساتھ اور کہیں بچوں کے ساتھ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پورا گھر اس صورت حال کی گرفت میں ہوتا ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے بے گانہ اور اپنے اپنے کام میں مگن ہوتا ہے، دوسروں سے بالکل بے فکر اور لاتعلق سا۔ ایسے میں کون کس کی کس سے شکایت کرے؟ بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ایک بیماری ہے، ذہنی بیماری جس کا علاج کسی طبیب کے پاس تو نہیں ہے البتہ خود اس شخص کے پاس ضرور ہے جو اس مرض کا شکار ہے اور اس کے علاج کی صورت یہی ہے کہ انسان خود اپنا جائزہ لے اور سوچے کہ آخر وہ اپنا وقت ایک بے فائدہ، غیر ضروری اور غیر تعمیری کام میں کیوں برباد کر رہا ہے اور وہ بھی دیگر اہم اور ضروری کاموں کو چھوڑ کر۔

جہاں تک شوہر بیوی کے رشتوں اور باہمی توجہ اور وقت دینے کا سوال ہے تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ بیوی کی بے توجہی سے اوب کر شوہر نے سوشل میڈیا سے دوستی کرلی ہے یا بیوی نے شوہر کے روکھے اور غیرمحبتی رویہ سے تنگ آکر سوشل میڈیا سے تعلق مضبوط کرلیا ہے۔ پھر دونوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے بچے جو ہر وقت سوشل میڈیا سے چپکے رہتے ہیں کہیں ہماری بے توجہی اور ان کے لیے برتی جانے والی لاپرواہی کے سبب یہاں پناہ گزین تو نہیں ہو رہے ہیں۔

ایسے حالات میں ڈانٹ ڈپٹ اور لڑائی جھگڑے کے بجائے باہمی گفتگو، تبادلہ خیال، ایک دوسرے کی باتیںسننا اور ایک دوسرے کے افکار و خیالات جاننا، گھر میں اور گھر کے باہر تعمیری سرگرمیوں اور مفید کاموں کا آغاز کرنا اور ایسے کاموں کی فہرست بنانا اہم ہے جن میں گھر کے تمام افراد پوری دلجمعی سے شریک بھی ہوں اور ان سے لطف اندوز بھی ہوں۔ اسی طرح گھر کے باشعور فرد، وہ شوہر بھی ہوسکتا ہے اور بیوی بھی، اس بات کے لیے ذمہ دار ہے کہ وہ گھر میں باہمی محبت، ایک دوسرے کے لیے خدمت اور توجہ کا ماحول پروان چڑھانے پر توجہ دے اور گھر کے اندر ایسے کاموں کی شروعات کرے جس میں سب کی شرکت مطلوب بھی ہو اور ان کے لیے مفید اور دلچسپ بھی۔ اس طرح گھر کے افراد کو، جو الگ الگ پڑے سوشل میڈیا میں مصروف رہتے ہیں، ایک ساتھ بیٹھنے اور تعمیری کام کرنے کا موقع ملے گا اور وہ ایک دوسرے سے قریب رہ کر محبت اور توجہ کا تجربہ کرسکیں گے جو سوشل میڈیا سے ناممکن ہے۔ دراصل ہمارے خاندانی نظام یا گھریلو زندگی میں ایک بڑا خلا پیدا ہو رہا ہے اور یہ خلا دن بہ دن بڑھتا جاتا ہے۔ یہ خلا محبت اور جاں نثاری کاہے۔ اگر شوہر بیوی کومحبت اور جاں نثاری کے بندھن میں باندھے رہے تو بیوی کے لیے دوری ناممکن ہوگی اور اگر بیوی شوہر کو محبت کے مضبوط بندھن میں باندھے رکھے تو شوہر کے لیے ایسا کرنا دشوار ہوگا اور دونوں مل کر اگر بچوں کو محبت و شفقت کی رسی سے مضبوط طور پر باندھے رکھیں تو بچے بھی یقینا ایسی کیفیت کا شکار نہیں ہوں گے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ اس وقت بے شمار معاشرتی اسباب سے ہمارا خاندانی نظام شدید قسم کے خطرات اور مشکلات کی زد میں ہے، ان میں سر فہرست رشتوں اور تعلقات کی سرد مہری اور ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات سے بے توجہی اور لاتعلقی ہے۔ بعض اوقات ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے خاندان کے افراد ایک دوسرے سے بالکل لاتعلق ہوتے ہیں اور زیر نظر مسئلے میں اس کی بڑی مثال ہے۔

اس وقت انفرادی طور پر اپنے اندر بھی اور سماجی خدمت اور دعوت دین کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے اجتماعی طور پر بھی یہ شعور عوام کے اندر بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ رشتہ داروں اور افراد خاندان سے محبت سے بھرا مضبوط تعلق ہر انسان کی طبعی ضرورت بھی اور دینی ضرورت بھی۔ قیامت کے دن بھی ہم سے پوچھا جائے گا کہ رشتہ داروں اور ذوی الارحام اور ذوی القربیٰ کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔ انسانی حیثیت سے بھی ہم جو کچھ حسن سلوک کرتے ہیں اس کے سب سے زیادہ حق دار ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں۔ جو جتنا قریبی ہے وہ اسی قدر ہماری محبت کا حق دار ہے۔ موجودہ دور میں جب کہ سماج و معاشرے میں نفرت کا زھر گھولا جا رہا ہے خاندان کو مضبوطی کے ساتھ جوڑنا اور متحد کرنا اتحادِ امت کی پہلی کڑی ہے۔ مقامی طور پر بعض سیاسی مسائل کے مقابلے کے لیے بھی خاندانی اتحاد غیر معمولی طور پر اہم ہے۔

اب آخری بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے سلسلے میں یہ رویہ شوہر کا ہو یا بیوی کا یا پھر بچوں کا ہر صورت میں علاج والدین کے ہی ہاتھوں میں ہے، جو فریق بھی اس سلسلے میں متاثر ہو اسے چاہیے کہ وہ دوسرے کو اچھی طرح سمجھائے، کھل کر گفتگو کرے، گھریلو زندگی کی ضروریات، ترجیحات اور ذمے داریوں کو ایک دوسرے کے سامنے رکھے اور قائل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر دوسرا فریق مان جاتا ہے تو ٹھیک ہے بہ صورتِ دیگر ہمت بارنے کے بجائے کوشش اور دعا دونوں جاری رکھی جائیں اور مایوسی، لڑائی، جھگڑا اور ڈپریشن لینے کے بجائے اصلاح کی کوشش اور دعا کا سہارا زیادہ بہتر راستہ ہے۔ دیکھیے قرآن نے ہمیں کتنی پیاری دعا سکھائی ہے:

ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماما

’’اے ہمارے رب ہمیں اپنے اپنے جوڑوں سے اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہم سب کو متقین کا امام بنا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں