وقت اپنی رفتار سے بہتا رہا۔ سورج اور چاند آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب چند دنوں میں بڑے بھیا کو اسپتال سے چھٹی مل جائے گی۔ یہ سوچ کر ہم سبھی لوگ دل ہی دل میں خوش تھے۔
ہوا یہ تھا کہ بڑے بھیا شیخ حسین جو موٹر مکینک اور ڈرائیور تھے، ٹرک سے گرپڑے اور ان کی پسلیاں متاثر ہوگئیں۔ باہری چوٹیں معمولی نظر آرہی تھیں مگر اندرونی طور پر کافی نقصان پہنچا تھا۔ پسلیوں میں جگہ جگہ خون جم گیا تھا۔ انھیں اکولہ کے ضلع اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔ اس وقت اس سرکاری اسپتال میں جو سہولتیں میسر تھیں وہ کسی پرائیویٹ اسپتال میں دستیاب نہیں تھیں۔
اس حادثہ کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ بھیا کا معاون ٹرک میں مال بھرے جانے کے بعد، رسیاں باندھ رہا تھا۔ وہ اس کی مدد کرنے کے لیے اوپر چڑھے۔ اتفاق سے جو رسّی وہ کھینچ رہے تھے وہ ٹوٹ گئی اور وہ زمین پر آرہے۔
بھیا تقریباً ڈھائی مہینے اسپتال میں رہے۔ دن بدن بھیا کی حالت میں سدھار دیکھ کر گھر کے سبھی افراد مطمئن اور خوش تھے۔
ڈاکٹروں نے کہا کہ بھیا کے جسم میں خون کا لیول کم ہوگیا ہے اس لیے انہیں خون چڑھانا پڑے گا۔ دو بوتل خون انہیں دیا گیا۔ چڑھائے جانے والے خون کا مریض کے خون سے میچ ہونا بھی ایک نازک مرحلہ ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مرحلہ بھی بحسن و خوبی طے ہوگیا۔ خون چڑھانے کے دو دن بعد بھیا کی طبیعت بگڑنے لگی۔ ڈاکٹروں نے مختلف قسم کے انجکشن دیے اور سلائسیں چڑھائیں۔ لیکن کچھ بھی افاقہ نہ ہوا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آخر کار ایک دن ڈاکٹروں نے اعلان کردیا کہ ’’بھیا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔‘‘ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے کہا: ’’میں ڈیتھ سرٹی فیکٹ تیار کرواتا ہوں آپ لاش لے جانے کا انتظام کیجیے۔‘‘ بس پھر کیا تھا صفِ ماتم بچھ گئی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کشتی کنارے پہنچ کر ڈوب گئی۔ بھابی جان اور والدہ محترمہ کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی۔ رو رو کر ان کا برا حال تھا۔ بچے الگ بلک رہے تھے۔ تمام رشتے دار اور متعلقین افسردہ تھے۔
لاش گھر لے جانے کے لیے گاڑی لانے کے لیے کہا گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں گاڑی اسپتال کے مین گیٹ کے پاس کھڑی تھی۔ اتوار کا دن تھا اور چاروں طرف سناٹا تھا۔
والدہ محترمہ اور بھابی جان سامان سمیٹنے لگے۔ ایک آدمی سرٹیفیکٹ حاصل کرنے کے لیے اسپتال آفس چلا گیا۔ میں، والدہ محترمہ اور بھابی جان لاش کے پاس رکے رہے۔ایک آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ بھیا کے مردے جسم میں ارتعاش سا محسوس ہوا۔ اور ہم سب چونک گئے۔ میں دوڑا دوڑا ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر بھی فوراً ساتھ ہولیا۔ اس نے بھیا کو چیک کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بھیا کی نبض چل رہی تھی۔ بھیا زندہ تھے یہ جان کر ہم لوگوں کی خوشی کا اندازہ لگانا عام آدمی کے لیے مشکل تھا۔
اس واقعے کے بعد، بھیا لگ بھگ بیس برس زندہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان کتنی عظیم ہے نا؟ وہ فرماتا ہے:
ونخرج الحی من المیت ونخرج المیت من الحیّ۔ (آل عمران: ۲۷)
’’اور ہم نکالتے ہیں مردہ میں سے زندہ کو اور نکالتے ہیں زندہ میں سے مردہ کو۔‘‘
اور پھر ہم نے اللہ کے اس ارشاد کا مطلب اپنی آنکھوں سے دیکھ کر سمجھ لیا۔