سکون کی تلاش

عبد الغافر صلاح

جس کائنات میں زمین و آسمان کے علاوہ بے شمار موجودات ہیں۔ اس کا نظام بڑے سکون اور باضابطہ انداز میں رواں دواں ہے مگر ہماری یہ چھوٹی سی دنیا جو صرف کرہ ارض پر آباد ہے، اس کا نظام ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک یوں اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہے کہ انسان کو انسان کھائے جا رہا ہے۔

ناحق کو حق کے لبادے میں پوری ڈھٹائی سے پیش کیا جا رہا ہے اور حق کو اس کے اپنے جائز لباس میں بھی پیش کرنے کی کسی میں جرأت نہیں۔ کوئی بولے تو مجرم قرار پاتا ہے۔ خاموش رہے تو زندگی بھی موت بن جاتی ہے۔ روئے زمین کے کسی خطے میں بھی دیکھ لیجئے، کہیں اطمینان بخش اور حوصلہ افزا صورت نظر نہیں آئے گی۔ فلسطین پر نگاہ ڈالیے۔ غیر ملکی یہودیوں نے مسلمانوں کے ملک پر قبضہ کر کے انہیں اپنی ہی سرزمین سے بے دخل اور محروم و مجبور بنا کر رکھ دیا ہے۔ زمین ہی سے محروم نہیں جانوں اور مالوں سے بھی ان کو تہی دست کر دیا گیا ہے لیکن وقت کا شداد اور ہامان پھر بھی دنیا کے چودھری کی نظر میں ’’پرامن‘‘ ہے۔

امت مسلمہ کا کوئی شعبہ زندگی اس کی دستبرد سے محفوظ نہیں۔ اس کی معاشیات پر اس کا تسلط ہے۔ اس کی سیاسیات اس کے شکنجے میں ہے۔ اس کی روایات اس کے رحم و کرم پر ہیں۔ حتی کہ اس کا دین اس کی بیان کردہ تشریح اور تعبیر کا مرہون بنا دیا گیا ہے۔ دین کی وہی بات قابل عمل ہوگی، جس کو آج کا جبر درست قرار دے۔ باقی سب دہشت گردی، انتہا پسندی، تشدد پسندی، بنیاد پرستی، قدامت پرستی اور تنگ نظری کہلائے گی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

اہل عقل حیران ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ سوچنے والے سوچ رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا تجویز کردہ علاج بتاتا ہے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ تجزیہ کرنے والوں نے تجزیہ کیا کہ امت متحد ہوجائے تو اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتی ہے۔ کسی نے کہا اسلام کے دامن سے اپنی وابستگی کو مضبوط کرلے تو اس کی بگڑی سنور سکتی ہے۔ کسی نے کہا دین کو اقتدار سے نکال دو تو الجھے مسائل سلجھ سکتے ہیں۔ جتنے حکیم اتنے ہی علاج۔

ان سب کو اصلاح کا کام کرنا چاہیے، پہلی فرصت اور ترجیحی بنیادوں پر کرنا چاہیے، مگر جب تک یہ اپنی بنیادوں کو خالص عادلانہ اصولوں پر استوار نہیں کر لیتیں، اپنے اندر سے آمریت ختم نہیں کرلیتیں، اپنی ترجیحات کو ذاتی اور انفرادی اغراض سے پاک نہیں کرلیتیں، اپنی سمت کا تعین بے آمیز طریقے سے نہیں کرلیتیں، اپنے اندر سے کھوکھلے اور بودے کرداروں کو چھانٹ نہیں دیتیں، جعل ساز اور دغا باز افراد کو اپنی صفوں میں گھسنے کا راستہ روک نہیں دیتیں، خود غرضی کے ماروں کو عہدوں اور مناصب سے دور نہیں کردیتیں، احتساب کا عمل پہلے اپنے اندر جاری نہیں کرلیتیں، ان کے لیے کسی قوم کی اصلاح تو دور کی بات ہے ایک فرد کی اصلاح بھی نہیں ہوسکتی۔

دانش وروں کا کہنا ہے کہ اصلاح کا عمل اپنی ذات سے شروع کرو۔ اگر کوئی جماعت یا پارٹی کوئی حکومت یا ادارہ، کوئی شعبہ یا محکمہ عوام اور رعایا کی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اس کو پہلے اپنے عمل و کردار کی صفائی کرنی ہوگی، پھر وہ اپنے آپ کو بطور نمونہ اپنے مخاطبوں کے سامنے پیش کرے اور ان سے وہی سوال کرے جو آج سے چودہ سو برسوں قبل ایک عرب نوجوان نے اپنے ہم وطنوں سے کیا تھا، جب اہل وطن نے اس جوان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کیا ہی خوب سوال تھا یہ جس نے سامعین کی زبانوں کو گنگ کر دیا اور ان کے دماغ کوئی جھوٹا جواب تراشنے کی بھی ہمت نہ کرسکے!

یہ محسن انسانیت، رحمت کائنات، نبی معظم اور رسول اکرم جناب محمدؐ بن عبد اللہ تھے جنہون نے اہل عرب کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی تو عربوں نے اسے قبول کرنے میں پس و پیش سے کام لیا اور حیلے بہانے کرنے لگے۔ الٹے سیدھے مطالبے کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: میں نے تو تمہارے درمیان ایک عمر گزاری ہے تمہیں کیوں سمجھ نہیں آئی کہ میں کس طرح کا آدمی ہوں؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میںنہ کوئی جھوٹی بات کہی جاسکتی تھی اور نہ کوئی الزام تراسا جاسکتا تھا، لہٰذا ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا!

کاش آج بھی کوئی ایسا انداز اختیار کرے اور اہل زمین کا کھویا ہوا سکون انہیں واپس مل جائے!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں