سیاسی منظر نامہ اور مسلمان

شمشاد حسین فلاحی

ملک کی کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ علاقائی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی اس انتخاب کو ۲۰۱۴ کے پارلیمانی انتخابات کی تمہید کے طور پر لڑ رہی ہیں۔ بی جے پی نے ۲۰۰۲ میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو انتخاب کی کمان سونپ کر اور وزارتِ عظمی کا امیدوار نامز کر کے ایک طرف تو ہندو کارڈ پر اپنا ہندو وادچہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شدت پسند ہندو سیاست ہی نے اس پارٹی کو اقتدار تک پہنچایا تھا اور اب بھی اگر دہلی کا اقتدار چاہیے تو اسی شدت پسندانہ ایجنڈے کو اختیار کرنا ہوگا۔
نریندر مودی ایک دہائی سے بھی زیادہ مدت سے گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں اور انہوں نے ملک کے بڑے بڑے تاجر گھرانوں کو اپنی ریاست میں سرپرستی دے کر بڑے بڑے تجارتی مواقع فراہم کیے ہیں اس لیے ان کی ان کوششوں کو ’ترقی کا ماڈل‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ حالاں کہ ملک کے عوام چاہتے ہیں کہ گجرات کی ترقی کا جو ماڈل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے وہ صنعتی گھرانوں کی صنعت تجارت کا ماڈل ہے۔ اور اب تو ان کا تجارتی ماڈل بھی بحثوں اور تجزیوں میں آکر اپنی حقیقت آشکارا کر رہا ہے لیکن اس ے باوجود میڈیا کا ایک بڑا طبقہ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا انہیں ایک ایسے کرشماتی لیڈر کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے جس کے پاس جادو کی چھڑی ہو اور وہ وزیر اعظم بنتے ہی اسے گھمائے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک خوشحالی کی سیج پر دادِ عیش دے گا۔ خیر نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بنتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا مگر اس وقت وہ میڈیا کے طفیل لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز ضرور بن رہے ہیں اور ان کی ریلیوں میں لوگوں کی خاطر خواہ تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ وہ یوں کہ جذباتی سیاست کے کامیاب آدمی ہیں، اس لیے لوگ ان کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں لیکن ان جذباتی سیاست پر فکر سے خالی ہے۔ ان کے پاس نہ تو ملک کی ترقی کا کوئی وزن ہے اور نہ ملک کے موجودہ مسائل کا دلوں کو اپیل کرنے والا کوئی حل۔ اور ظاہر ہے مخالف کی پگڑی اچھال کر کسی گروہ کے خلاف نفرت پھیلا کر مخالفین کے حامیوں کو تو جمع کیا جاسکتا ہے۔ مگر ملک نہیں چلایا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کے سامنے اپنا ایجنڈا رکھنے سے زیادہ دوسروں کو ہدف تنقید اور تنقیص بنا کر یہ ثابت کر رہے کہ پارٹی نے انہیں جس عظیم ذمہ داری کے لیے امیدوار بنایا ہے وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔
ریاستی اسمبلیوں کے یہ انتخابات مذکورہ بالا دونوں پارٹیوں کے لیے اس حیثیت سے اہم ہیں کہ آئندہ سال کے پارلیمانی انتخابات پر ان کی نظر ہے اور دونوں کی پارٹیاں انہیں اسی تناظر میں دیکھ کر انتخابی مہم چلا رہی ہیں مگر یہ انتخابات نریندر مودی اور ان کی پارٹی ے لیے ’زندگی اور موت‘ کا معاملہ ہیں کہ اگر عوام نے انہیں مینڈیٹ نہیں دیا تو آئندہ دنوں میں ان پارٹی کی بچی کھچی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور وہ پارٹی جیسے اڈوانی اور اٹل جی نے آر ایس ایس کی سرپرستی میں دہلی کے اقتدار تک پہنچایا تھا وہ آپسی سر پھٹول، انتشار اور قیادت کے خلاء کے سبب اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔
مودی کو انتخابات کی رسمی کمان اور پارٹی عملی کمان سونپ کر ان کی پارٹی نے پورے ملک پر یہ واضح کر دیا ہے کہ اب ان کے پاس صاف ستھری شبیہ اور اٹل بہاری واجپائی جیسی ایمیج رکھنے والے لیڈران نہیں ہیں اور جن مخالفتوں اور آپسی کھینچا تانیوں کے بعد ان کی قیادت صونپی گئی ہے اس سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ پارٹی میں پرانی قیادت کے چلے جانے کے بعد بے لوث قیادت بھی ختم ہوگئی ہے اور اب محض اقتدار کی ہوس کا شکار اور ذاتی مفاد کے پیچھے دوڑنے والی ایسی قیادت ہے جو ’’وِوادوں کے گھیرے میں‘‘ گھری ہوئی ہے۔
اقتصادی کساد بازاری، کرپشن، فرقہ پرستی، علیحدگی پسندی، غیر متوازن ترقی اور غربت ایسے مسائل ہیں۔ ادھر ملک کے سامنے کئی بڑے بڑے چیلنجز ہیں جن کے مقابلے کے لیے سیاسی استحکام، مضبوط داخلی پالیسی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھنے والی قیادت درکار ہے۔ ایسے میں تیسرے محاذ کی تشکیل بے جواز اور بے معنی ہے۔ کیوں کہ سابق میں یہ تجربہ محض چند دن کا مہمان رہا اور اس نے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دو چار کیا۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو متبادل مشکل ہی سے نظر آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہمیں ملک کے مفاد اور ملک کی بہتر تعمیر و ترقی کو ہی اولیت دینی ہوگی۔ اس لیے کہ اس ملک میں اقلیتوں کا مستقبل بھی ملک کے مستقبل سے مضبوطی کے ساتھ جڑا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے ہ ملک کے مسلمانوں کو وقار چاہیے، تحفظ چاہیے، بنیادی شہری حقوق کے پائمال نہ یے جانے کی یقین دہانی چاہیے اور اپنی اقتصادی ترقی اور دستوری مذہبی آزادی چاہیے۔ اور جب تک یہ چیزیں حاصل نہ ہوں اس وقت تک وہ چین کی زندگی نہیں جی سکتے۔
اس حیثیت سے مسلمانوں کے لیے بہتر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو منتشر کرنے کے بجائے متحد اور مستحم کریں اور آئندہ انتخابات کے مسلم قیادت بڑی بڑی سیاسی پارٹی کے سامنے اپنا ایجنڈا رکھے اور اس سے یہ بات منوائے کہ وہ اقتدار میں آئے گی تو اس ایجنڈے کو نافذ کرے گی۔ یہ کہا جاسکتا ہے بات تو ہمیشہ ہوتی رہی ہے مگر سیاسی پارٹیاں ووٹ کے لیے انتخابات کے وقت تو وعدے کرتی ہیں مگر بعد میں یا تو مکر جاتی ہیں یا ٹال مٹول کرنے لگتی ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ مسلم قیادت کی کمزوری ہے کہ وہ اولا تو اپنی بات منوانے میں ناکام رہتی ہے ثانیا کیے گئے وعدوں کو پورا کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
اگر ملک کی سب سے بڑی اقلیت متحد ہو اس میں ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعی مفاد کی فکر مضبوط ہو تو طاقت ور قیادت جنم لیتی ہے اور طاقت ور قیادت وہ ہوتی ہے جس کے پیچھے عوام ہوں۔ مسلم قیادت کیوں کہ خود تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ مسلمان خود مختلف گروپوں میں تقسیم ہیں اس لیے ان کی قیادت کو بھی وہ وزن حاصل نہیں جو مطلوب ہے۔
یہ وقت ہے کہ مسلمان اپنے اندر ملی، اسلامی اور سیاسی شعور پیدا کریں تاکہ مستقبل میں وہ سیاسی قوت بن سکیں ان کے مختلف النوع اجتماعی مسائل کا حل صرف اسی شعور کی بیداری میں ہے۔ ظاہر ہے بے شعور اور بے وزن گروہوں کے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146