محمد رسول اللہﷺ انسانوں کے لیے ا ن کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بھی بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں، ان کو گم راہ کرسکتے ہیں، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں، مگر نبیﷺ ان کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں، جس میں اُن کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں، حماقتیں کرکے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرسکتے ہیں لیکن نبیﷺ ان کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقع ان کے حق میں نافع ہو اور جب معاملہ یہ ہے تو نبیﷺ کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپؐ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں۔ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ وہ آپ سے محبت رکھیں، اپنی رائے پر آپؐ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپؐ کے فیصلے کو مقدم رکھیں اور آپؐ کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔
محمد رسول اللہؐ کا خلق عظیم
ایک مختصر عرصہ میں آپ کے جو لوگ گرویدہ ہوچکے تھے، اس میں آپﷺ کے اخلاق و کردار کا بہت بڑا دخل تھا، جونہی لوگ آپؐ کے قریب ہوتے تو آپؐاپنے بے مثال اخلاق کے ذریعے ان کے دل جیت لیتے۔ سیرت و کردار کی پختگی سے لوگ آپؐکے دامن رحمت میں جگہ پالیتے اور جس کسی نے ایک مرتبہ بھی آپ سے کلام کیا، وہ بس آپؐ ہی کا ہو کے رہ گیا۔ پھر کوئی قوت و طاقت اس کو آپؐ سے جدا نہ کرسکی۔ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے، لیکن نہ جھکتے، نہ بکتے، نہ دبتے۔ یہی تو سبب تھا کہ کافر کہتے تھے کہ جب آپ گفتگو کریں تو اپنے کانوں میں انگلیاں دبا دیا کرو، ورنہ تم ان کی باتوں سے اثر لیے بغیر نہ رہ سکوگے۔
آج کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ یہ دین اسلام بزورتلوار پھیلا ہے۔ نہیں نہیں، اس کے پیچھے تو ایک بہت بڑی سیرت و کردار کی طاقت تھی۔ محبت و اپنائیت کا وہ ماحول تھا، جو آپؐ نے بنا رکھا تھا۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ زیدؓ کو آپؐ نے فرمایا کہ اے زید! تمہارے باپ اور تمہارے چچا آئے ہیں، تم جانا چاہو تو بخوشی ان کے ساتھ جاسکتے ہو، میں ان سے کوئی رقم بھی طلب نہیں کروں گا۔ لیکن حضرت زیدؓ نے اپنوں کو کیا جواب دیا تھا کہ مجھے جو محبت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں نصیب ہوئی ہے، جو شفقت میں نے یہاں پائی ہے بخدا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، میں تو آپؐ سے ایک لمحہ کے لیے بھی جدا نہیں ہوسکتا۔ اے میرے والدین آپ مطمئن ہوجائیں، میں جس آغوش میں پل رہاہوں، اب وہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ اس سراپا محبت و شفقت کے پاس ہی مجھے رہنے دیجئے۔
ایک موقع پر حضرت زیدؓ چند روز باہر گزار کر واپس آئے، گھر پرجاکر آواز دی، آپؐ فوراً اٹھے، آپؐ نے اپنا کرتا مبارک تک نہیں پہنا تھا۔ دروازہ کھولا، زیدؓ کو گلے لگا لیا اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ ایک غلام کے ساتھ اتنی محبت بس اندازہ کیجیے کہ آپؐ کے دربار میں کس قدر شفقت موجود تھی۔ آپؐ کی دختر نیک اختر فاطمہؓ گھر آتیں، تو آپؐ احترام میں کھڑے ہوجاتے، آپ کو چادر بچھا کر بٹھاتے، پدرانہ شفقت کا بے مثال مظاہرہ فرماتے۔ ہر طرح کا خیال رکھتے۔ دس سال تک خدمت کرنے والے خادم انسؓکہتے تھے کہ آپؐ نے بڑے طویل عرصے میں مجھے نہ کبھی روکا نہ ٹوکا۔ عمر بھر آپؐ نے مجھے اف تک نہ کہا۔
عرب کا معاشرہ اس وقت جو رویہ اپنی بیٹیوں اور غلاموں سے روا رکھتا تھا، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ان حالات میں آپؐ نے عورتوں اور خادموں کو جو مرتبہ عطا فرمایا اندازہ کیجئے وہ کس قدر لائق تحسین ہے۔
یہ حضرت عمرؓ کا سیدی بلالؓ کہہ کر پکارنا، اس بات کا اعلان تھا کہ میرے آقا نے مالک و غلام کے فاصلے ختم کردیے ہیں۔ یہاں تک کہ’ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز‘ کا معاملہ بدرجہ اتم نظر آتا تھا۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے والوں میں دوست و احباب بھی تھے، نوجوان اور بوڑھے بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام ساتھیوں کے ساتھ عزت و تکریم، پیار و شفقت کا برتاؤ کرتے تھے، اور اگر کوئی نازیبا بات کسی میں پاتے، تو اس انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باتوں باتوں میں اشارہ فرماتے کہ کسی کو بھی معلوم تک نہ ہوتا کہ آپ اس بات سے کسی کو روک ٹوک رہے ہیں اور اس سے وہ شخص بھی بات کا ادراک کرلیتا کہ یہ بات تو مجھ میں موجود ہے اور وہ اپنی اصلاح کرلیتے۔
محمد رسول اللہﷺ کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہؓ نے اپنے قول میں فرمائی ہے: کان خلقہ القرآن ’’قرآن آپؐ کا اخلاق تھا۔‘
اس کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہؐ نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم پیش نہیں کی تھی، بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھایا تھا۔ جس چیز کا قرآن میں حکم دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل کیا۔ جس چیز سے روکا گیا، آپؐ نے خود سب سے زیادہ اس سے اجتناب فرمایا۔ جن اخلاقی صفات کو اس میں فضیلت قرار دیا گیا، سب سے بڑھ کر آپؐ کی ذات ان سے متصف تھی، اور جن صفات کو اس میں ناپسندیدہ ٹھیرایا گیا سب سے زیادہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ان سے پاک تھے۔
ایک اور روایت میں ہے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو نہیں مارا۔ کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا۔ اپنی ذات کے لیے کبھی کسی ایسی تکلیف کا انتقام نہیں لیا، جو آپؐ کو پہنچائی گئی ہو، الا یہ کہ اللہ کی حرمتوں کو توڑا گیا ہو اور آپؐ نے اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا ہو۔ اور آپؐ کا طریقہ یہ تھا کہ جب دو کاموں میں سے ایک کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتخاب کرنا ہوتا تو آپؐ آسان تر کام کو پسند فرماتے تھے۔ الاّ یہ کہ وہ گناہ ہو۔ اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپصلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ اس سے دور رہتے تھے۔ (مسند احمد) lll