نومبر کی کہر آلود شاموں، شہر کی سنسان گلیوں اور فٹ پاتھ کے کنارے سبز مخمل جیسی گھاس کے قطعات سے لیونارڈ میڈ کو بے حد لگاؤ تھا۔ وہ حسب معمول رات کے آٹھ بجے گھر سے نکلا اور جیبوں میں ہاتھ ڈال کر چوک تک پہنچ گیا۔ چوک میں پہنچ کر اس نے ایک طائرانہ نگاہ چاندنی میں چمکتی ہوئی سڑکوں پر ڈالی اور سوچنے لگا کہ کس طرف جائے؟ ویسے تو وہ جدھر بھی جاتا، تنہائی ہی اس کی ساتھی تھی۔ ۱۹۵۲ء میں بھلا سیر کرنے والے لوگ اسے کہاں سے مل جاتے! لیونارڈ بعض اوقات میلوں تک سیر کرتا اور آدھی رات گزرنے کے بعد ہی گھر واپس جاتا، لیکن اسے اپنے جیسا سیر کا شوقین کوئی بھی نظر نہ آتا۔ نیم تاریک مکانوں کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے ایسے محسوس ہوتا جیسے وہ کسی قبرستان میں سے گزر رہا ہے، کیوں کہ قبرستانوں میں اڑتے ہوئے جگنوؤں کی طرح اکا دکا گھروں کی کھڑکیوں میں سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی نظر آتیں۔ کبھی کبھار چلتے ہوئے اسے کسی گھر کی کھڑکی میں سے کوئی لہراتا ہوا سایہ نظر پڑ جاتا۔ یا کسی مقبرہ نما عمارت میں سے انسانی سر گوشیوں کی آوازیں آنے پر اسے پتا چل جاتا کہ یہاں بھی کوئی ذی روح مخلوق رہائش پذیر ہے۔ ایسے موقعوں پر لیونارڈ ہمیشہ رک کر اپنے کان دیوار کے ساتھ لگا دیتا، لیکن جب کچھ پلے نہ پڑتا تو وہ ہٹ کر دوبارہ فٹ پاتھ پر چلنے لگتا۔ فٹ پاتھ پر اس کے پاؤں کی چاپ بالکل معمولی سی ہوتی تھی، کیوں کہ مدت ہوئی اس نے کتوں کے حملوں سے بچنے کے لیے سیر کے وقت ربڑ کے جوتے پہننا شروع کردیے تھے۔ کتوں کے بھونکنے یا للکارنے کی تو اسے قطعاً کوئی پروانہ تھی، لیکن کتوں کی آواز کے ساتھ ہی گھروں کی روشنیاں جل اٹھتیں اور پریشان چہرے کھڑکیوں میں سے باہر جھانک کر ملامت بھری نظروں سے اس تنہا آدمی کی طرف دیکھتے جو خواہ مخواہ باہر گھوم کر ان کے سکون کو برباد کر رہا تھا۔
اس شام لیونارڈ ایک مغربی سڑک پر ہولیا۔ ٹھنڈ اتنی زیادہ تھی کہ اس کی ناک بالکل برف کا ٹکڑا معلوم ہونے لگی۔ وہ اپنے نرم جوتوں سے خزاں رسیدہ پتوں کو روندتا ہوا اور ہلکی ہلکی سیٹی بجاتا ہوا چلنے لگا۔ سیر کے دوران وہ ایک آدھ پتا اٹھا کر سڑک کے کنارے لگے ہوئے بجلی کے کھمبے کے قریب پہنچ جاتا اور بڑے غور سے اس کا معائنہ کرنے لگتا۔پتے کے اوپر بنے ہوئے نقش و نگار دیکھنے کے بعد وہ بڑے پیار سے اسے ناک کے قریب لے جاتا اور سونگھنے کے بعد ہی زمین پر پھینکتا۔ نہ جانے کیوں اسے پتوں کی خوشبو سونگھ کر سکون ملتا تھا۔
’’ہیلو، گھر میں ہو تم لوگ؟‘‘ وہ مکانوں کے قریب سے گزرتے ہوئے سرگوشی کے لہجہ میں بولا ’’آج چینل نمبر ۴، چینل نمبر ۶ اور چینل نمبر ۹ پر کون سے پروگرام ہیں؟‘‘
سڑک بالکل ویران تھی اور صرف اسی کا سایہ فٹ پاتھ پر پڑتا نظر آرہا تھا۔ اگر وہ آنکھیں بند کرلیتا تو تصور میں اپنے آپ کو اریزونا کے صحرا میں گھومتا محسوس کرسکتا تھا جہاں ہزاروں میل تک کوئی مکان نہ تھا اور صرف دریاؤں کی خشک گزرگاہیں انسان کی ساتھی تھیں۔بعض اوقات لیونارڈ کو ایسے لگتا جیسے اس کے شہر کی گلیاں رات کے وقت دریاؤں کی خشک گزرگاہیں بن جاتی ہیں۔۔۔ خاموش، ویران اور اداس۔
’’وقت کیا ہوا ہوگا؟‘‘ وہ ایک گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔ ’’ساڑھے آٹھ۔ کوئی ماردھاڑ سے بھرپور فلم چل رہی ہوگی یا ذہنی آزمائش کا پروگرام ہوگا، یا ہوسکتا ہے کوئی مسخرا اپنے کرتب دکھا رہا ہو۔‘‘ اسی وقت اسے چاندنی میں چمکتے ہوئے ایک گھر میں سے مترنم ہنسی کی آواز آئی۔ وہ تھوڑی دیر رکا لیکن ہنسی کی آواز فوراً ہی رک گئی تو وہ چل دیا۔ فٹ پاتھ پر ایک جگہ سے سیمنٹ اکھڑ رہا تھا۔ وہ چلتے ہوئے ذرا لڑکھڑایا لیکن جلد ہی سنبھل گیا۔ وہ دس سال سے اس شہر میں رہ رہا تھا لیکن ان دس برسوں میں اپنے سوا اسے کوئی آدمی بھی پیدل چلتا نظر نہ آیا تھا۔
وہ ایک موڑ پر پہنچ کر رک گیا۔ یہاں شہر کی دو بڑی سڑکیں آپس میں ملتی تھیں۔ صبح کے وقت یہ سڑکیں کاروں کا ایک پھنکارتا ہوا سمندر معلوم ہوتی تھیں، جہاں انسان اپنی بلندیِ درجات کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں دیوانے ہوئے جاتے تھے۔ لیکن اس وقت یہ سڑکیں بھی خشک ندیاں معلوم ہو رہی تھیں۔ وہ مڑ کر ایک چھوٹی سی سڑک پر ہولیا جو چکر کاٹ کر اس کے گھر کے سامنے سے گزرتی تھی۔ ابھی وہ اپنے گھر سے ایک بلاک کے فاصلے پر تھا کہ ایک دم ایک کار موڑ کاٹ کر اس کے سامنے آکھڑی ہوئی اور تیز روشنی اس کی آنکھوں پر پھینکی گئی۔ وہ حیران سا ہوکر کھڑا ہوگیا اور پھر ایک پروانے کی طرح جو غیر ارادی طور پر روشنی کی سمت ہی چلتا ہے، کار کی طرف بڑھا۔ ’’یہیں کھڑے ہوجاؤ، ہلنا مت۔‘‘ کار میں سے ایک کھٹکتی ہوئی آواز نے کہا۔ وہ فوراً رک گیا۔
’’ہاتھ اوپر اٹھالو۔‘‘
’’لیکن…‘‘ وہ کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ہاتھ اوپر، ورنہ ہم گولی مار دیں گے۔‘‘
’’اور، تویہ پولیس کی گاڑی ہے۔‘‘ لیونارڈ نے سوچا۔ کتنی عجیب بات تھی کہ تین کروڑ آبادی کے اس شہر میں پولیس کی صرف ایک کار تھی۔ انتخابات کے سال یعنی ۲۰۵۱ء میں پولیس کی گاڑیوں کی تعداد تین کے بجائے ایک کردی گئی تھی۔ جرائم کم ہو رہے تھے، اس لیے پولیس کی ضرورت نہ تھی۔ صرف یہی ایک گاڑی خالی سڑکوں اور ویران گلیوں میں بے مقصد چکر لگاتی رہتی تھی۔
’’تمہارا نام‘‘ پولیس کار میں سے اسی کھنکتی ہوئی آواز نے پوچھا۔
روشنی کی وجہ سے اس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں، اس لیے وہ کار میں بیٹھے ہوئے آدمی کو نہ دیکھ سکتا تھا۔ آہستگی سے بولا ’’لیونارڈ میڈ۔‘‘
’’بولو بھئی۔‘‘
’’لیونارڈ میڈ‘‘ اس نے دوبارہ کہا۔
’’کاروبار یا پیشہ؟‘‘
’’میرا خیال ہے آپ مجھے مصنف کہہ سکتے ہیں۔‘‘
’’یعنی کوئی پیشہ نہیں۔‘‘ کھنکتی ہوئی آواز نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔ روشنی بدستور اس پر ایسے زاویے سے پڑ رہی تھی جیسے وہ عجائب گھر میں رکھا ہوا کوئی نمونہ ہو اور تماشائیوں کی سہولت کے لیے اس کو روشن کیا گیا ہو۔
’’جی ہاں یونہی سمجھ لیں۔‘‘ لیونارڈ نے برسوں سے کچھ نہ لکھ تھا۔ لوگ فرصت کے اوقات میں بھی کتابیں او ررسالے کم ہی پڑھتے تھے۔ بس اپنے مقبرہ نما گھروں میں بند نہ جانے کیا کرتے رہتے تھے۔ رات کو صرف ٹیلی ویژن کی مدھم روشنی ان کے چہروں کو منور کرتی اور وہ مردوں کی طرح بیٹھے ٹیلی ویژن دیکھتے رہتے۔
’’کوئی پیشہ نہیں!‘‘ آواز نے پھر کہا۔ ’’تم باہر کیا کر رہے تھے؟‘‘
’’سیر کر رہا تھا‘‘ لیونارڈ نے جواب دیا۔
’’سیر؟‘‘
’’جی ہاں، صرف سیر کررہا تھا‘‘ لیونارڈ سادگی سے بولا۔ مارے خفت کے اس کا جسم بالکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔
’’سیر! صرف سیر! صرف سیر کر رہے تھے؟‘‘
’’جی جناب‘‘
’’کہاں سیر کر رہے تھے؟ کیوں سیر کررہے تھے؟‘‘
’’بس یوں ہی ہوا خوری کے لیے۔‘‘
’’تمہارا پتا؟‘‘
’’گیارہ ساؤتھ سینٹ جیمز اسٹریٹ‘‘
’’تو کیا تمہارے مکان میں ہوا نہیں ہے؟ مسٹر میڈ تمہارے مکان میں تو ایئر کنڈیشنر لگا ہوا ہے۔‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’اس کے علاوہ وہاں بیرونی مناظر دیکھنے کے لیے اسکرین بھی لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’نہیں!‘‘ عجیب پر اسرار سی خاموشی طاری ہوگئی۔
’’جی نہیں‘‘
’’شادی نہیں کی؟‘‘ آواز نے پوچھا۔
’’کسی کو میری ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔‘‘ لیونارڈ نے مسکرا کر کہا۔
’’بلا ضرورت مت بولو، سوال کیا جائے تو مختصر جواب دو۔‘‘
لیونارڈ سردی سے ٹھٹھرا ہوا خاموش کھڑا پولیس کے سوالات کا انتظار کرنے لگا۔
’’ہاں تو مسٹر میڈ تم صرف سیر کر رہے تھے۔‘‘
’’جی میں بتا تو رہا ہوں بس ہوا خوری اور باہر کے منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیر کر رہا تھا۔‘‘
’’کیا تم اکثر ایسا کرتے ہو؟‘‘
’’میں کئی سال سے ہر رات سیر کو نکلتا ہوں۔‘‘
پولیس کی کارسڑک کے عین درمیان میں کھڑی تھی۔ کچھ دیر تک ماحول پر مکمل خاموشی طاری رہی۔
’’اچھا مسٹر میڈ‘‘ آواز نے پھر کہا۔
’’بس جی اب میں جاؤں؟‘‘ لیونارڈ نے نرمی سے پوچھا۔
’’ہوں‘‘ آواز نے گنگناتے ہوئے لہجے میں کہا اور ساتھ ہی کار کا پچھلا دروازہ کھل گیا۔ ’’اندر بیٹھ جاؤ۔‘‘
’’لیکن میں نے کیا جرم کیا ہے؟‘‘ لیورناڈ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولا۔
’’اندر بیٹھ جاؤ۔‘‘
’’میں احتجاج کرتا ہوں۔‘‘
’’مسٹر میڈ!‘‘ کھنکتی ہوئی آواز چیخی۔‘‘ لیونارڈ ایک شرابی کی طرح کار کی طرف بڑھا، قریب پہنچ کر اس نے اگلی سیٹ پر نظر دوڑائی۔ جیسا کہ اسے توقع تھی کار میں کوئی بھی نہ تھا۔
’’اندر بیٹھ جاؤ۔‘‘ آواز پھر آئی۔ اس نے دروازے کو ہاتھ سے پکڑ کر کار کے پچھلے حصہ میں جھانکا۔ اس حصہ میں سلاخیں لگا کر ایک چھوٹی سی کوٹھری بنائی گئی تھی۔
’’اگر تمہاری بیوی ہوتی تو شاید ہم یہ سوچ کر تمہیں چھوڑ دیتے کہ تم گھر سے کسی ضروری کام سے نکلے ہو لیکن اب…‘‘
’’آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں؟‘‘
کار میں تھوڑی دیر تک خاموشی طاری رہی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی اطلاعی مرکز میں سے سلاٹ کے ذریعے کارڈ نکل رہا ہے۔ آخر کار جواب مل ہی گیا ’’ہم تمہیں دماغی طور پر کمزور لوگوں کے لیے بنائے گئے نفسیاتی مرکز میں لے جا رہے ہیں۔‘‘ وہ اندر بیٹھ گیا۔ درازہ ہلکے سے جھٹکے سے بند ہوگیا اور کار ویران سڑک پر دوڑتی چلی گئی۔ll