علم حاصل کرنے اور سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اور انسان کو گود سے گور تک علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ اس بات کو جاپان کی ۸۲ سالہ خاتون ’ماساکو واکامیا‘ نے ثابت کیا ہے۔ انھوں نے بیاسی سال کی عمر میں موبائل ایپ تیار کر کے دنیا کو بتا دیا کہ بڑھاپا بھی انسان کو ناکاری نہیں ہونے دیتا اگر انسان کے اندر نیا سیکھنے اور اس کے ذریعے انسانوں کی خدمت کرنے کا جذبہ باقی رہے۔ وہ تو یہ بھی کہتی ہیں کہ سیکھنے کا جذبہ ہو اور انسانوں کی خدمت کی امنگ ہو تو بڑھاپے میں بھی انسان اپنی صلاحیتوں کو اسی طرح باقی رکھ سکتا ہے اور استعمال کر سکتا ہے جس طرح وہ جوانی میں تھا۔ ’ماساکو‘ اپنے اسی جذبے کی وجہ سے دنیا کی سب سے عمر دراز موبائل اپلیکیشن ڈولپر بن گئیں اور ان کا نام دنیا بھر میں موضوع گفتگو بن گیا۔
ماساکو جو ۱۹۹۰ میں بینکنگ کی خدمات سے رٹائر ہوچکی تھیں گھر پر خالی بیٹھی موبائل پر وقت گزارتی تھیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ سافٹ ویئر کمپنیاں بزرگوں کو ٹکنالوجی سے جوڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں تو انھوںنے طے کیا کہ وہ یہ کام کریں گی۔ پھر انھوں نے ۶۰ سال کی عمر میں کمپیوٹر سیکھا اور کوڈنگ پر توجہ دی۔ انھوں نے کمپیوٹر تکنیک سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ عمر کے اس مرحلے میں جہاں لوگوں کے اعصاب جواب دے جاتے اوربے کار ہوکر رہ جاتے ہیں، انھوں نے ’’آن لائن ٹیوٹوریل آکر ایپ‘‘ بنا ڈالا۔
رٹائرمنٹ کے بعد وہ اکثر وقت گزاری کے لیے موبائل کا سہارا لیتی تھیں اور گیمس کھیلا کرتی تھیں لیکن انہیں شکایت تھی کہ زیادہ تر گیمس نوجوانوں اور بچوں کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں اور ان کی رفتار ایسی ہے کہ بزرگ افراد کے لیے اس کا پیچھا کرنا مشکل ہے چناں چہ انھوں نے اپنے عملی تجربے اور احساس کو سامنے رکھتے ہوئے نئی ایپلیکیشن ’ہنادن‘ تیار کی۔ ’’ہنادن‘ در اصل ایک گیم ہے جو جاپان کے ڈال فیسٹول ’ہنامت سوری‘ کو بنیاد بنا کر تیار کیا گیا ہے۔ بزرگوں کا خاص خیال رکھتے ہوئے اس کی رفتار عام گیمس کے مقابلے دھیمی ہے۔ ساتھ ہی گیم کے اصول بتانے والا ایک صوتی رہنما بھی ہے۔ ان ہی خوبیوں نے اس گیم کو بزرگوں کے درمیان کافی مقبول بنا دیا ہے۔ ان کا ایجاد کردہ یہ گیم آئی فون پر چلتا ہے۔
ماساکو بتاتی ہیں کہ اس عمر تک آتے آتے اکثر لوگ اپنے جوڑے سے موت کے سبب بچھڑ جاتے ہیں، نوکری سے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آنکھوں کی روشنی کے ساتھ ساتھ دیگر جسمانی صلاحیتیں بھی زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ غرض یہ کہ انسان منفی خوبیوں کا پٹارا بن جاتا ہے۔ لیکن اگر انسان اس عمر میں بھی کچھ نیا سیکھنے اور نیا کرنے کا سوچے تو یہ اس کے لیے حوصلہ بخش اور قوت فراہم کرنے والی بات ہوتی ہے۔ اس طرح انسان نہ صرف اپنی طبعی صلاحیتوں کو باقی اور قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے بلکہ اسے نئی قوت کا بھی احساس ہوتا ہے۔
اگرچہ ہمارے معاشرے میں آپ کو ایسے افراد ضرور مل جائیں گے جو آخری عمر تک خود کو فعال اور متحرک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسے افراد کم ہی نظر آئیں گے جو کچھ نیا سیکھ کر نیا کرنے کی فکر کریں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ جاپانی خاتون یقینا ایک اچھی مثال ہے جس نے نہ صرف ساٹھ سال کے بعد کمپیوٹر ٹکنالوجی سے رشتہ قائم کیا بلکہ اس میں مہارت حاصل کرلی۔
ماساکو عام دنیا کے لیے تو ایک اچھی مثال بن ہی گئیں ان لوگوں کے لیے بھی یقینا حوصلہ دینے والی ہیں جن کے دین میں گود سے گور تک علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ماساکو کے تجربے اور ان سے متعلق معلومات کو ہم اپنے بزرگوں کی زندگی میں دلچسپ موڑ لانے کا ذریعے بنا سکتے ہیں۔
ہمارے دوست نے اپنی دادی کے اندر جو تقریباً نوے سال کے قریب تھیں اور صاحب فراش تھیں انگریزی سیکھنے کا شوق پیدا کر دیا۔ انھوں نے ان کو بول چال کی انگریزی سکھانی شروع کی۔ اس عمل نے صاحب فراش دادی کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی پیدا کی اور کئی قسم کے مسائل سے بھی نجات دلا دی۔lll