شادیوں کا جاہلانہ تصور

مولانا اشرف علی تھانویؒ

ہم ان تقریبات کو خوشی کے مواقع سمجھتے ہیں، ان کے واسطے اچھے دن تلاش کیے جاتے ہیں ساعت سعید (جنتری میں) دیکھی جاتی ہے اس خبط میں یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ یہ جائز ہے یا ناجائز۔

نجومیوں اور پنڈتوں سے ساعت پوچھ کر بیاہ رکھا جاتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ساعت نحس کی پڑے اور یہ خبر نہیں کہ نحس حقیقی ساعت کون سی ہے۔ نحس حقیقی وہ ساعت ہے جس میں حق تعالیٰ سے غفلت ہو، جس وقت میں آپ نے نماز چھوڑ دی اس سے زیادہ نحس کون وقت ہوسکتا ہے اورجو اشغال نماز چھوڑنے کا باعث بنے ان سے زیادہ منحوس شغل کون سا ہوسکتا ہے۔

(بعض لوگ) بعض تاریخوں اور مہینوں کو (مثلاً خالی یا محرم کے چاند کو) اور سالوں کو مثلا اٹھارہ سال کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس میں شادی نہیں کرتے یہ اعتقاد بھی عقل اور شرع کے خلاف ہے۔

(دراصل یہ علم نجوم کا شعبہ ہے) اور علم نجوم شرعاً مذموم اور باصلہ (بالکلیہ) باطل ہے اور کواکب میں سعادت و نحوست منفی (ناقابل اعتبار) ہے اور بعض واقعات کا اہل نجوم کے موافق ہو جانا اگر اس کے صدق اور حق کا تجربہ سمجھا جائے تو ان سے زیادہ واقعات کا خلاف ہونا اس کے کذب کا بدرجہ اولیٰ تجربہ ہوگا۔

پھر مفاسد کثیرہ اس پر مرتب ہوتے ہیں۔ اعتقاد قبیح اور شرک صریح اور ضعف توکل علی اللہ وغیر ذالک۔

ماہِ ذی قعدہ

اس جگہ ایک بات قابل تنبیہ ہے کہ عام لوگ ماہ ذی قعدہ کو منحوس سمجھتے ہیں یہ بڑی سخت بات ہے اور باطل عقیدہ ہے، دیکھئے آں حضرتؐ نے چار عمرے کیے ہیں وہ سب ذی قعدہ میں تھے سوائے اس ایک کے جو حج وداع کے ساتھ تھا کہ وہ ذی الحجہ میں واقع ہوا تھا (متفق علیہ) دیکھئے اس سے کتنی برکت ثابت ہوتی ہے کہ آں حضرتؐ نے اس ماہ میں تین عمرے کیے ہیں نیز ماہ ذی قعدہ حج کے مہینوں میں سے ہے (جو بڑی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے) (احکام حج)

ذی قعدہ و محرم میں شادی

جاہل عورتیں ذی قعدہ کو خالی کا چاند کہتی ہیں اور اس میں شادی کرنے کو منحوس سمجھتی ہیں یہ اعتقاد بھی گناہ ہے اس سے توبہ کرنا چاہیے، اسی طرح بعض جگہ تیرہ تاریخ صفر کے مہینے کو نامبارک سمجھتی ہیں یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں ان سے توبہ کرنا چاہیے۔

محرم کا مہینہ مصیبت کا زمانہ مشہور ہے جس کا سبب حضرت سیدنا امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ ہے جو در حقیقت ایک حادثہ جانکاہ ہے۔ مگر جہالت کے سبب ہم لوگوں نے اس میں حدود سے تجاوز کرلیا ہے جس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اس زمانہ میں نکاح و شادی کو ناگوار اور مکروہ سمجھ لیا۔

چناں چہ ہمارے ایک عزیز کی شادی ذی الحجہ کی تیس تاریخ کو قرار پائی تھی۔ جس میں محرم کی چاند رات کا ہونا تو یقینی تھا۔ اور یہ بھی احتمال تھا کہ شاید کسی جگہ آج ہی محرم کی پہلی ہو۔ تو لڑکی کے ولی کو یہ بات بہت ناگوار ہوئی کہ شادی کی تاریخ کے لیے بھلا یہی دن رہ گیا تھا مگر انہوں نے اتنا کرم کیا کہ شادی میں اگرچہ وہ خود شریک نہیں ہوئے۔ لیکن نکاح کی اجازت دے دی اور اپنی طرف سے اپنے ماموں کو بھیج دیا۔ ہم نے کہا کہ اس خیال کو توڑنا چاہیے۔ اسی دن نکاح کیا مگر کئی سال تک عورتوں کو خیال رہا۔ دیکھئے کوئی ناگوار بات نہ پیش آئے۔ اگر لڑکی کا ذرا بھی کان گرم ہوا تو اس کے ولی یہی کہیں گے کہ اس تاریخ میں نکاح ہونے کی نحوست ہے۔ مگر الحمد للہ کوئی ناگوار بات پیش نہیں آئی اور دونوں میاں بیوی خوش و خرم ہیں۔ صاحب اولاد بھی ہیں، حق تعالیٰ نے کھلی آنکھوں دکھلا دیا کہ عوام کا ان زمانوں کے متعلق یہ خیال بالکل غلط ہے۔ نصوص میں جابجا اس کی تصریح ہے کہ نحوست و سعادت کا سبب زمانہ وغیرہ نہیں۔ نہ کوئی دن منحوس ہے نہ کوئی مہینہ نہ کسی مکان میں نحوست ہے نہ کسی انسان میں بلکہ اصلی نحوست معصیت اور گناہ کے اعمال میں ہے۔ کوئی دن منحوس نہیں بلکہ نحوست کا مدار معصیت اور گناہ ہے:

بعض پڑھے لکھے لوگوں نے دنوں کے منحوس ہونے پر قرآن پاک کی اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ و ارسلنا علیہم ریحا صرصرا فی ایام نحسات اور ہم نے ان پر ایک تند و تیز ہوا ایسے دنوں میں بھیجی جو ان کے حق میں منحوس تھے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جن دنوں میں عاد پر عذاب نازل ہوا ہے، وہ منحوس ہیں، مگر میں کہتا ہوں کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ دن کون کون سے ہیں اس کا پتہ دوسری آیت کے ملانے سے چلے گا۔ فرماتے ہیں:

و اما عاد فاھلکوا بریح صرصر عاتیۃ، سخرہا علیہم سبع لیال و ثمانیۃ ایام حسوما۔ کہ آٹھ دن تک ان پر عذاب رہا تو اس اعتبار سے تو چاہیے کوئی دن مبارک نہ ہو بلکہ ہر دن منحوس ہو۔ کیوں کہ ہفتہ کے ہر دن میں ان کا عذاب پایا جاتا ہے، جن کو ایام نحسات کہا گیا ہے۔ تو کیا اس کا کوئی قائل ہوسکتا ہے؟ اب آیت کے صحیح معنی سنئے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن دنوں میں ان پر عذاب ہوا۔ وہ دن عذاب نازل ہونے کی وجہ سے خاص ان کے لیے منحوس تھے نہ کہ سب کے لیے۔ او روہ عذاب تھا معصیت کی وجہ سے۔ پس نحوست کا مدار معصیت ہی ٹھہرا۔ اب الحمد للہ کوئی شبہ نہیں رہا۔

چاند و سورج گہن کا وقت

ایک بات یہ مشہور ہے کہ کسوف و خسوف (یعنی جب چاند و سورج میں گہن لگا ہو) کا وقت منحوس ہوتا ہے ایسے وقت نکاح یا کوئی شادی کی تقریب نہ کرنا چاہیے۔ میں حیدر آباد اپنے بھتیجے کا نکاح کرنے گیا تھا جو دن اور جو وقت نکاح لیے قرار پایا تھا، اس وقت خسوف ماہ (چاند گہن) ہوگیا۔ اب وہاں کے لوگوں میں کھلبلی پڑی کہ ایسے وقت میں کیا نکاح ہوگا اور اگر ایسے وقت نکاح کیا تو تمام عمر نحوست کا اثر رہے گا۔ بہت سے جنٹلمین بھی ان مہملات میں مبتلا تھے، چناں چہ جمع ہوکر میرے پاس آئے اور کہا کہ کچھ عرض کرنا ہے میں نے کہا فرمائیے، کہنے لگے کہ کیا چاند گرہن کی وقت بھی نکاح ہوگا؟ میں نے اس وقت تو نکاح کرنا بہت ہی اولیٰ و افضل ہے اور میرے پاس اس کی دلیل بھی موجود ہے وہ یہ کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ خسوف کے وقت ذکر اللہ اور نوافل میں مشغول ہونا چاہیے۔ اب سمجھئے کہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ نکاح میں مشغول ہونا نوافل میں مشغول ہونے سے افضل ہے، بس ایسے وقت نکاح کا شغل اور بھی افضل و اولیٰ ہے۔ ان سب نے اس کو تسلیم کیا۔

میں نے بیان تو کر دیا لیکن میرے دل میں ان لوگوں کے خیال سے ایک انقباض رہا اور دعا کی کہ اے اللہ جلدی چاند صاف ہوجائے اگر اس حالت میں نکاح ہوا اور بعد میں کوئی حادثہ تقدیر سے پیش آیا تو ان لوگوں کو کہنے کی گنجائش ہوگی کہ ایسے وقت نکاح کیا تھا اس لیے یہ بات پیش آئی۔ اللہ کی قدرت تھوڑی دیر میں چاند صاف ہوگیا، سب خوش ہوگئے اور نکاح ہوگیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں