’’میں ایک بند کتاب کی طرح ہوں جسے دیکھنے والے تو بہت ہیں لیکن کوئی کبھی پڑھتا نہیں ۔ ‘‘
وہ میری خالہ زاد بہن تھی اور نہایت خوش مزاج اور ہنس مکھ تھی۔ لیکن مجھے نہیں پتہ کہ اس کی ہنسی کے پیچھے ایک مایوسی بھی چھپی ہے۔ ایک دن میں خالہ جان کے پاس گئی ہوئی تھی۔ مجھے پتہ چلا کہ اس کے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔ وہ بہت اچھا ہے۔ میں بہت خوش ہوئی۔ ایک دن میں شام میں ان کے پاس گئی۔ مجھے امید تھی کہ اس کا رشتہ طے ہوگیا ہوگا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی خوشی سے میں نے اپنی خالہ زاد سے پوچھا ’’کیوں، تو اب آپ جا رہی ہیں ہمیں چھوڑ کر؟‘‘
انھوں نے کہا ’’نہیں۔‘‘ مجھے ان کا ٹکاسا جواب سن کر اچھا نہیں لگا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان کے لیے جو بھی رشتہ آتا ہے، انہیں پسند کیے بغیر ہی واپس چلا جاتا ہے کیوں کہ وہ صحت مند ہے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ دل سے کتنی خوبصورت ہے۔ سب اس کی صورت پر چلے جاتے۔ ان دو سالوں میں کئی رشتے آئے۔ ہر ایک سے یہی امید ہوتی کہ یہ ہوگا لیکن ایسا نہ ہوا۔ ادھر گھر کے سارے افراد خصوصاً والدین اسی فکر میں گھلے جا رہے تھے کہ ان کی اس ذمہ داری کا بوجھ کب کم ہوگا۔ مزید یہ کہ ذمہ داری سے سبکدوشی نہ ہونے کے احساس نے انھیں چڑچڑا بنا دیا تھا۔ وقت بھی گھوڑے کی رفتار سے زیادہ تیز گزر رہا تھا لیکن اس کی رفتار تو وہی تھی۔
خالہ جان اکثر اپنی ہی بیٹی کو ڈانٹتی رہتی تھیں۔ کہتی تھی کہ جانے کون سا وقت تھا کہ اس منحوس کا قدم ہمارے گھر میں پڑا یہ اسی دن مرجاتی تو اچھا تھا جس دن پیدا ہوئی تھی۔ یہ تمام باتیں سن کر مجھے بہت برا لگتا تو اسے کتنا برا لگتا ہوگا۔ لیکن اس کا کب کسی کو احساس تھا؟ ایک دن میں خالہ جان کے پاس گئی ہوئی تھی۔ وہ اُنھیں اسی طرح کی باتیں سنا رہی تھیں۔ اپنی امی کو غصے میں دیکھ کر میری بہن اوپر چلی گئی اور دروازہ بند کرلیا۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ وہ کچھ غلط نہ کر بیٹھے۔ میں نے اوپر جاکر دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تو وہ کمرے کی صفائی کر رہی تھی۔ میں نے اُن سے کہا ’’تمہیں بہت برا لگا ہوگا، ہے نا؟‘‘ تو انھوں نے کہا ’’نہیں‘‘ اب مجھے ایسی باتیں سننے کی عادت ہوگئی ہے۔ خالہ جان اکثر میری امی کے سامنے کہتی تھیں کہ لڑکی میکے سے زیادہ سسرال میں اچھی لگتی ہے لیکن پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا؟
اپنی امی کی باتیں سن کر میری خالہ زاد بہن کو بھی احساس ہونے لگتا کہ اللہ تعالیٰ کب امی کی پریشانی کو دور کرے گا؟ اگرچہ وہ تہجد گزار تھی لیکن اس کی دعائیں ابھی صبر چاہتی تھیں۔ وہ اپنے مستقبل کو ڈھونڈ رہی تھی، کسی اندھیرے میں اپنی دعاؤں اور عبادتوں کی روشنی کے چراغ لے کر۔ لیکن اس نے کبھی بھی مایوسی کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا۔ وہ بڑے صبر سے مجھ سے کہتی ’’مجھے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے۔‘‘
اس کا موڈ خراب ہونے پر میں کبھی کبھی اسے سیر کے بہانے لے کر چلی جاتی تھی لیکن اب تو اپنی پڑھائی میں بہت زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں بھی اپنا وقت نہیں دے پا رہی تھی۔ میں اور میری ماموں زاد بہن دو ہی تو ایسے تھے جو اسے غمگسار لگتے۔ باقی سب کو تو خالہ جان کی باتیں ہی سچ لگتی تھیں کہ وہ ان کے سر پر بوجھ اور نحوست ہے۔
میری خالہ زاد بہن کی دو پھوپھی زاد بہنوں کی شادیاں ہوگئیں جو ان سے چھوٹی تھیں۔ اب تو ان کی بے چینی مزید بڑھ گئی۔ کچھ دنوں بعد ایک رشتہ آیا۔ امید تھی کہ راستے نکل جائیں گے لیکن یہ بات بھی خدا کو نامنظور تھی۔ معلوم ہوا کہ لڑکے نے انکار کر دیا ہے۔
اب میری بہن ایک نئے موڑ پر کھڑی تھی۔ وقت نے انگڑائی لی اور خدا کے فیصلے کو لیے آن پہنچا۔ پھر صبح کی وہ پہلی کرن نکلی جس کا سب کو انتظار تھا۔ یعنی ان کی شادی کا دن، ارے دلہن کو تیار کرو، دلھے والے آتے ہی ہوں گے۔‘‘ تیاریاں زور و شور کی آوازیں، یہ ساری آوازیں اس گھر کی آرہی تھیں جہاں وہ لڑکی کو ہمیشہ طنز و طعنوں کا شکار بناتے تھے۔ بار بار میرا نام کوئی پیچھے سے پکار رہا تھا۔ ’’نشاط ۔۔۔۔ نشاط بیٹے اتنی پیکنگ کر دے۔ دو تین ڈریس ابھی باقی ہیں۔‘‘ میں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو وہ خالہ جان تھیں جن کی خوشی کی آج کوئی انتہا نہ تھی اور آج وہ اپنی بیٹی کے سر پر بار بار ہاتھ پھیر رہی تھیں اسے گلے لگا رہی تھیں۔ اور وہ سب کر رہی تھیں۔ جو انہیں ماں کی حیثیت سے کرنا چاہیے تھا۔
ان سب باتوں سے میرے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ جب اس کا وقت آتا ہے تو اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ میری خالہ زاد بہن تو ایک سیپ میں بند موتی کی طرح تھی۔ جو موتی ہوتے ہوئے بھی اس کی چمک سیپ میں بند تھی لیکن اب اللہ تعالیٰ نے سیپ کا منہ کھول دیا تھا۔
بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے کہ ہر وقت شکوے شکایات کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ پہلے لڑکی نہ ہونے پر شکوہ، پھر لڑکی ہونے پر شکوہ، پھر لڑکی کی قسمت پر شکوہ، پھر خود کی قسمت پر شکوہ، غرض شکوے شکایات کرتے کرتے زبان تھکتی ہی نہیں۔
آج کل ہماری پسند ناپسند کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں نفسیاتی بیمار بن رہی ہیں۔ ٹی وی نے معاشرے کے لوگوں کو مذہب سے اتنا دور کر دیا ہے کہ انھیں رشتے کے معاملے میں خوب صورتی اور دولت کے سامنے کچھ نظر نہیں آتا بس جہیز اور خوبصورتی ہی رشتے کا معیار بن گیا ہے۔ حالاں کہ ہمارے پیارے نبیؐ نے امت مسلمہ کے لیے رشتوں کا معیار مقرر کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے اس کے مال کی بنیاد پر، اس کی خاندانی شرافت کی بنیاد پر، اس کی خوبصورت کی بنیاد پر، اور اس کی دینداری کی بنیاد پر، تو تم دین دار عورت کو حاصل کرو، تمہارا بھلا ہو۔‘‘lll