شادی اور معاشرتی مسائل

حافظ محمد زاہد

شادی بیاہ کی ہندوانہ رسوم نے معاشرے کو عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کو چھوڑنے کی وجہ سے امیر و غریب اور درمیانے درجے کیمسلمان پریشان ہیں۔ ہر ایک اپنی ناک اونچی رکھنے کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ اسلام نے تعلیم دی تھی کہ رشتے کرتے وقت اخلاق و کردار کو سب سے پہلے دیکھا جائے، اس کے بعد حسب و نسب اور مالی حیثیت اور حسن و جمال پر توجہ دی جائے۔ یہاں تو بات ہی یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ لڑکے کی ماہانہ آمدنی کتنی ہے؟ گھر کتنا بڑا اور سجا ہوا ہے؟ گاڑی کس ماڈل کی ہے؟ اگر لڑکے والے ہیں تو پوچھتے ہیں جہیز میں کیا کیا ملے گا؟ پہناوا کیا کیا دیا جائے گا؟ اخلاق و کردار پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑا ہی نازک سا تعلق قائم ہوتا ہے، جس کو قائم رکھنے کے لیے بڑی بڑی رقمیں مہر میں لکھوائی جاتی ہیں کہ اگر جدائی کا ارادہ کرے بھی تو مہر کی رقم کا بندوبست نہ کرسکنے کی وجہ سے خاموش ہوکر بیٹھ جائے۔ ایک صاحب اپنی پیاری بیٹی کی شادی کررہے تھے اور جہیز میں جو جو سامان دیا تھا اس کی فہرست بنا رہے تھے۔ وہ اس فہرست میں یہ بھی درج کررہے تھے کہ کس ملک، کس برانڈ اور کس ماڈل کی وہ چیز ہے۔ کسی نے پوچھاکہ بھائی صاحب اتنی تفصیلات کیوں لکھ رہے ہیں؟ تو برجستہ جواب دیا کہ دونوں میں جدائی ہوگی تو میں واپسی میں یہی برانڈ اور ماڈل کی چیزیں لوں گا۔ یعنی نکاح سے پہلے ہی جدائی کے بعد کے معاملات پر سوچ بچار کیا جارہا ہے۔ اب خود ہی انصاف سے فیصلہ کریں یہ گھر کیسے چل سکتا ہے؟

ایک درمیانہ درجے کا نوجوان جو اچھی ملازمت کررہا تھا اْس کا رشتہ بہت امیر گھرانے کی لڑکی سے ہوا۔ پورا ہفتہ مختلف قسم کی تقاریب میں گزرا۔ نکاح کے بعد زبردست ہنی مون منایا۔ سارا وقت پْرلطف گزرا۔ اس کے بعد اچانک طلاق نامہ گھر پر بھیج دیا اور خود دبئی چلا گیا۔ والدین سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایسا تاثر دیا کہ ہم نے عاق کردیا ہے، کیونکہ ایسی حرکت کرکے اس نے ہماری ناک کٹوا دی۔ مگر کیا ہوا؟ چند ماہ بعد وہ لڑکا اپنے والدین کے ساتھ رہائش اختیار کیے ہوئے تھا۔ لڑکی حیران کہ اچانک یہ کیا ہوا! کہاں سارا سارا دن پیار و محبت کی باتیں اور پوری زندگی ساتھ گزارنے کے وعدے وعید، اور کہاں طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز! تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ لڑکا احساسِ کمتری میں مبتلا تھا کہ میرا مالدار گھرانے میں رشتہ نہیں ہوسکتا، اس نے مصنوعی طور پر خود کو بڑا بنا کر پیش کیا۔ رشتہ ہوگیا۔ اب اس نے انتقامی کارروائی کرکے اپنی ’’انا‘‘ کی تسکین کی، جس میں ایک معصوم لڑکی کی زندگی تباہ و برباد کرکے رکھ دی۔ ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں عام ہوتے جارہے ہیں۔

ایک اور صاحب نے غیر خاندان میں رشتہ کیا۔ والدین نے دینی رجحان کو دیکھتے ہوئے رشتہ قبول کرلیا۔ اب ان حضرت نے لڑکی پر معمولی معمولی الزامات لگا کر اسے میکے بھیجنا شروع کیا۔ لڑکے کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کا پہلے سے کہیں معاملہ چل رہا تھا۔ بس والدین کو راضی کرنے کے لیے رشتہ قبول کرلیا تھا، مگر دل میں پرانی محبت بسی ہوئی تھی، اس لیے مختلف بہانے بناکر یہ حرکتیں کی جارہی تھیں۔ اب اس معصوم بچی کی زندگی تو برباد ہوکر رہ گئی۔ خاندان والے کہہ رہے ہیں کہ غیروں میں کیوں شادی کی؟ اور یہ صاحب ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عجیب و غریب کیفیت میں دیندار لڑکی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس کے سارے سہانے خواب چکناچور ہوگئے اور مستقل ذہنی مرض کا شکار ہوگئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ ساس، نندوں کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے نہیں ہوسکے تو انہوں نے بھی طعنے دینے اور تنقید کرنا شروع کردی۔ اب خود فیصلہ کریں کہ لڑکی یا اس کے والدین کا اس میں کیا قصور ہے؟ قربان جائیے پیارے رسولؐ پر کہ آپؐ نے فرمایا: اچھے مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ معاملات کیے جائیں اور اس کے بعد اس کے طرز عمل کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ یہ آدمی کس قسم کا ہے؟

اپنے عزیز و اقارب میں شادی کرنے سے تھوڑا بہت لڑکے یا لڑکی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سوچ اور خیالات کس قسم کے ہیں، اور اگر اونچ نیچ ہوجائے تو خاندان کے بڑے درمیان میں آکر معاملہ حل کروا دیتے ہیں۔ مگر اب تو خاندان کے بڑے بھی کم ہی درمیان میں آتے ہیں اور صرف دونوں طرف کے لوگوں سے رابطہ کرکے رہ جاتے ہیں۔ ہاں، کوئی آخرت کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے تو وہ اپنی ذات کی پروا کیے بغیر درمیان میں پڑ کر معاملہ درست کرانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ کوشش اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہے جب دونوں طرف نیت صاف ہو، رشتے توڑنے سے زیادہ جوڑنے پر یقین رکھتے ہوں۔ ازدواجی زندگی کا نازک پلِ صراط عبور کرنا کھیل نہیں۔ ضروری ہے کہ شادی سے قبل خاندان کے بزرگ لڑکے اور لڑکی دونوں کو اس سلسلے میں اعتماد میں لیں اور انہیں معاملات کی نزاکت ذہن نشین کرائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں