اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یہودی علماء اور بعض شیاطین انس کے بارے میں فرمایا:
’’اللہ ان کی رسّی دراز کررہاہے وہ اپنی سر کشی میں اندھوں کی طرح بھٹک رہے ہیں۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہدایت کے عوض گمراہی خریدلی۔‘‘
جزیرہ نمائے ہند کے مسلمان چھ،سات، دہائی پیشتر اگر مغربی تہذیب سے متاثر نہیں بھی تھے تو ہندو رسم رواج سے ضرور متاثر تھے۔
اسلام جب اپنی نورانی کرنیںبکھیر رہا تھا تب ہندوستان و پاکستان میں جولوگ مسلمان ہوئے وہ اپنی پچھلی رسم ورواج کو نہ چھوڑ سکے ۔ یقینا اس کے پیچھے دینی تعلیم و صحیح تر بیت کا فقدان تھا۔
غیر مسلموں نے مسلمانوں کے سنگ ساتھ سے بہت فائدے اٹھا ئے اور اسلام کی ضوء پاش کرنوں سے اپنے گھروں کو خوب روشن کیا صفائی مسلمانوں سے سیکھی، رہنے سہنے کا سلیقہ و تمیز، چھوٹے بڑے کا ادب لحاظ اپنایا یہاں تکہ طلاق و وراثت کے قوانین بھی اپنا لئے ۔ ورنہ ان کے یہاں طلاق کا تصور نہیں تھا ۔ پتی کے مرنے کے ساتھ پتنی کو ستی کردیا جاتا تھا یا پھر ساری عمر کے لئے منحوس کا لقب اور اسکا سایہ بھی بد بختی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
مگر ان سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ مسلمانوں نے غیر مسلموں کے طور طریقے اپنا لئے کیوں کہ کچھ نے اسلام لانے کے بعد بھی پچھلے ڈھنگ نہیں چھوڑے تھے۔ یہی ہے ہدایت کے عوض گمراہی خرید نا ۔
عام خیال ہے کہ عام مسلمان غریب ہے مگر آپ ان کی تقریبات میں چلے جائیں آپکی ساری غلط فہمی دور ہو جائے گی اور بیہودہ رسم و رواج کی بھرمار تو الامان الحفیظ۔ بہت سی شادیوں میں تو سچ مچ نہیں لگتا کہ یہ مسلمانوں کی تقریب ہے ۔ اسلام کی سادگی ،الفت و محبت، حیا مفقود ہوتی جارہی ہے ، نتیجہ میں نکاح مشکل ترین کام ہوگیا ہے۔ شادی میں اصل اور اہم نکاح، مہر اور ولیمہ ہوتا ہے مگراب وہ انتا اہم نہیں جتنا دوسری خرافات یا اس اہم کام تک پہنچنے کے لئے کئی فضولیات کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔ رشتہ پکا ہونے سے پہلے سے تقریبات شروع پھر عید ی بقرعیدی اور کئی اہم اور غیر اہم موقع پر لوازمات، پھر تاریخ رکھائی، ہلدی، مہدی، مایوں،مانجھا، رت جگے، گود بھرائی ،سات سہاگنوں کا ہاتھ لگنا، دلہن کے ڈوپٹہ کے پلوں میں اناج ، ہری گھاس اور روپیہ پیسے باندھنا۔ جہیز کی خریداری ،دولہا والوں کی مانگ، دلہن والوں کاشوآف، فوٹوگرافی، مووی بننا، ہر کسی کا اس مووی کا حصہ بنا ،اس کیلئے پوز دینا ، عورت مرد ،جواں لڑکے لڑکیاں خلط ملط… گویا اسلام کسی چڑیا کا نام تھا جو پھر ہوگئی۔حیا، پردہ، سادگی اور نظافت اسلام میں لازم و ملزوم ہیں مگر غلط رسوم ورواج نے انکی جگہ لے لی جس کی وجہ سے اکثر شادی خانہ آبادی کے بدلے خانہ بر بادی بن جاتی ہے۔
نکاح تو چند جملوں کا رسمی تبادلہ بن گیا۔ خطبہ نکاح کے نام پر بے سوچے سمجھے کچھ عربی پڑھ کر سنانا اور پھر مہر لڑکے والوں کے اسٹیٹس کی علامت ۱۰ لاکھ بھی باندھ دیں یا لکھوالیں تو کیا فرق پڑتاہے۔ دینا کسے ہے؟ بڑے بڑے ڈگری یافتہ لڑکے اورPh.D. کی ہوئی لڑکیوں کی علم دین اور اسلامی تعلیمات سے لاعلمی اور بے توجہی کا یہ حال ہے کہ اگر مہر کی کوئی بات سامنے آئی بھی تو وہ اس کو طلاق سے منسلک سمجھتی ہیں ۔میں چشم دید گواہ ہوں اور اپنے کانوں سے سنی بات آپ کو بتاتی ہوں کہ ایک گھرمیں دلہن آئی تو اسکی ساس یعنی دلہے کی ماں پڑھی لکھی (اسلامی تعلیم) عورت تھی اسنے لڑکے کے ہاتھ میں مہر تھماتے ہوئے کہا کہ دلہن کو دیدو… دلہن کا رنگ پیلا پر گیا… اور اس نے منت سماجت کے لہجے میں کہا کہ اس کو طلاق نہ دی جائے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کاروا ں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
شیطان اتنا خوبصورت اور دلفریب اندازمیں مسلمانوں کو بہکا نے کے مشن پر ہے۔ اور خدا نا شناس فکر آخرت سے بے پر واہ انسان اسکے پیچھے سر پٹ بھاگ رہاہے یقینا وہ انسان کو گڈھوں میں گراکر دم لے گا۔ اب چاہے وہ دنیا میں زندگی بھر کی ناکامی کا گڈھا ہو یا آخرت میں جہنم کا گڈھا ۔
پھیلے ہیں ھمرنگ زمیں
حرص و حوس کے جال نہ پوچھو
لہٰذا ہمیں یعنی مجھے اور آپ کو یعنی امت مسلمہ کے ہر صاحب شعور، صاحب علم و عمل کو، یعنی ہر مومن اور مومنہ کو یہ سوچنا ہوگا، کر نا ہوگا اور کراناہوگا کہ خرافات کی دلدل سے کیسے نکلا جائے اور رسومات کی اس کھائی کو کیسے پاٹاجائے اور للہ کے بندوں کو صحیح دین اسلام کس طرح پہنچایا جائے اور جہالت کا سدّباب کس طرح ہو۔
آج کا سماج خواہ وہ پراگندہ نام نہاد مسلم معاشرہ ہو یا ہندو اور غیر مسلم معاشرہ (گلوبالائزیشن کی وجہ سے دنیا ایک ولیج کی مانند ہوکر رہ گئی ہے ) تقریبا سب ایک ہی حمام میں ہیںیعنی بے راہ روی ، خود غر ضی ، بد دیا نتی ، اور بے حسی میں یکساں، مگر پھر بھی اُس معاشرے سے بہتر ہیں جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ ؐ اس دور سے زیادہ پر آشوب دور میں آئے تھے۔
ہم اور آپ آنحضور ﷺ کی امتی ہیں۔ آئیے ہم کھڑے ہوجائیں ۔ جانور بھی احسان اور محبت کو سمجھتے ہیں ہم احسان اور محبت کا رویہ اپنا ئیں گے تو لوگ ضرو ہمارے ساتھ آئیں گے، پھر مل کر بھی اور تنہا تنہا بھی قرآنی تعلیمات اور احادیث نبوی کو عام کیا جائے اور عمل کر کے اسلام کی افادیت کا اظہار کیا جائے ۔ پہلے سے جو لوگ یہ کام کررہے ہیں وہ اگر ہمارے مزاج کے خلاف بھی ہوں تو ان کو برا یا غلط ہر گز نہیں کہا جائے بلکہ ان کیلئے سہولت پیدا کی جائے اور ان کو بھی اہمیت دی جائے اور انکا احسان مند ہواجائے۔
اللہ نے رسولوں کو اس لئے بھیجا کہ وہ رسو م ورواج میں جکڑی نوع انسانی کوکھول دیں۔ غلط عقیدوں اوررسومات کی بیڑیاں اور فضولیات وخرافات کے قلادے اتاریں۔اور آپ ﷺ نے بھی ان ہی زنجیر وں سے اللہ کے بندوں کو آزاد کرایا تھا ۔لہٰذافرمایا:’’نکاح کو آسان کرو۔‘‘ نیز فرمایا:ـ’’ولیمہ کا وہ کھانا برا کھانا ہے جس میں غریبوں کو نہ بلایا جائے۔‘‘
آپ ﷺ نے نہ صرف بیٹی کو رحمت و برکت کا موجب بلکہ اس کی پر ورش اور اچھی تعلیم وتر بیت کو جنت میں اپنی ہمراہی وصحبت کا ضامن بھی بتایا ہے او ر لڑکی والوں پر کسی قسم کا کوئی بوجھ یعنی کسی طرح کی کوئی تقریب ،کوئی کھانا نہیں بتایا۔چہ جائیکہ جہیز… یہ غیر اسلامی رسم ہم نے خود ایجاد کی، وہ خود اختیا ر کی اور آدھاتیتر آدھا بٹیر کی طرح مہر تو فاطمی ہو مگر جہیز جس کا نافاطمی ثبوت، نہ رقیہ،نہ کلثومی،نہ زینبی …وہ ضرورضرور ہو۔ انواع و اقسام کے کھانے تو لڑکی والے کھلائیں مگر نکاح کے چھوہارے لڑکے والے ہی لائیں گے۔
ہم امت وسط یعنی خیر امت ہیں۔ ہم لوگوں کو بتائیں کہ حضرت علیؓ کے ولی اور کفیل سب کچھ محمدﷺ تھے، پھر آپ ﷺ نے بیٹی کا باپ ہونے کے ناطے حضرت علی ؓسے پوچھا (حضرت فاطمہؓسے رشتہ ہوجانے کے بعد اور نکاح سے پہلے)’’اے علی مہر میں دینے کو کیا ہے؟‘‘ انہوں نے فرما یا:’’کچھ نہیں یا رسول اللہ ؐ۔‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’تمہاری زرہ کیا ہوئی؟۔‘‘ حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’وہ تو ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’چلو اس کو بیچ کر مہر اور شادی کا انتظام کرو۔‘‘
اور پھر بھی حضرت علیؓ کے زرہ کے پیسوں سے جو سامان گھر کی عورتوں نے تیار کیا وہ ایک کھجور کی چھال کا بستر، ایک مشکیزہ ،ایک چکی اور چندمٹی کے برتن کچھ خوشبو اور پہنے کے ایک جوڑے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
’’ہم جہیز کی رسم ختم کریں،نکاح مسجد میں کریں ‘‘
ولیمہ ضرور کریں اور غریبو ں کو بھی بلائیں ۔مہر حسب حیثیت باندھیں اور ضرور ضرورادا کریں ۔نکاح کے خطبے کا اردویا مقامی زبان میں تر جمہ کریں۔ اور مہر کی اہمیت و افادیت کو واضح کریں لڑکیوں کو خود اعتماد مگر منکسر المزاج بنائیں ۔ ولیمہ میں صرف ایک ڈش یا حد سے حد ایک میٹھی ڈش کا اضافہ کریں۔ فضول خرچی سے بچیں۔مغربی تہذیب اور خدا بیزار معاشرے کی تشکیل سے پر ہیز کریں۔ خلوص و للہیت آپ کے لئے تیر بہدف و تریاق کا کام کرے گی۔lll