شخصیت کے چیک پوسٹ]ایسی تحریر جو ہمیں دو رنگی سے بچا کر تعمیر شخصیت کے گر سکھاتی ہے۔[

ڈاکٹر احمد عروج مدثر

ایک زمانہ تھا ہمارے بزرگ بچوں کے پیر دیکھ کر کئی پیشگوئیاں کرتے تھے۔ اس میں کئی سچ ہوتے اور کچھ غلط بھی ہوتے ۔ پھر آنکھیں دیکھ کر شخصیت کے کئی راز سمجھنے کا فن اجاگر ہوا۔ اب تو کچھ کورسس ایسے ہیں جن میں ایک مستقل مضمون آنکھوں سے حالات، نفسیات، اور درد پتہ لگانے کا فن سکھایا جاتا ہے ۔
ہمارے اردگرد ایسے کئی چیک پوسٹ لگے ہیں جہاں سے ہم بغیر چالان کے گزر تو جاتے ہیں مگر اس چیک پوسٹ پر ہماری شخصیت کی ایسی تصویر نقش ہوجاتی جو آنے والے ہر ایک کے لئے ہمارے تعارف کا باعث ہوتی ہیں ۔ یا اس چیک پوسٹ سے ہمیں ایسا چالان ملتا ہے جو ہمیں بری طرح متاثر کردیتا ہے ۔ یہچالان ہماری پہچان بن جاتا ہے ۔ اس طرح کے چیک پوسٹ پر لوگوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی کھڑے ہوتے ہیں جو ہر عمل کو اچھی طرح دیکھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں، وہاں ہم رکتے بھی ہیں اور صرفِ نظر بھی کرجاتے ہیں ۔
تحریر کا چیک پوسٹ
آج کل سوشل میڈیا پر انسانوں کا ایک عظیم گروہ ہر وقت فعال رہتا ہے ۔ کچھ لوگ لکھنے میں ،کچھ تصاویر ڈالنے میں اور کچھ کمینٹ کرنے میں مصروف ہیں یا پھر لمبی لمبی chatting لگے ہوتے ہیں ۔ ہم وہاں جو کچھ لکھتے ہیں وہ ہماری پہچان بناتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جن سے ہمارے سوشل میڈیا پر مجازی (virtual) تعلقات ہوتے ہیں وہ ہمیں حقیقت میں بھی جانتے ہیں۔ اب ہماری تحریر یہ عیاں کرتی ہے کہ صاحب تحریر ذوالوجھین (دو چہرے والا) ہے یا صاحب تحریر عین مطابقِ لفظ ( عالم با عمل) ہے ۔ ہمارا ہر لفظ سوشل میڈیا کے سمندر کی گہرائیوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ ہم اسے مٹانا چاہیں بھی تو مٹا نہیں سکتے ۔
دراصل انٹرنیٹ کی دنیا مصنوعی ذہانت artificial intelligence کے طریقے پر عامل ہے۔ ہم نے پہچان کے جو نقش چھوڑے ہیں انہی بنیادوں پر وہ ہماری تصویر بناتے ہیں۔ اکثر خوش مزاج نظر آنے والے لوگ مسکرا کر ملتے ہیں مگر جب لکھتے ہیں تو اپنی خباثت و frustration کے مصداق نظر آتے ہیں۔ یہ چیک پوسٹ سب جان بھی لیتا ہے اور ظاہر بھی کرتا ہے، خود پر بھی اور دوسروں پر بھی۔ وہ صاحب تحریر کے اسرارورموز سے واقف ہوجاتے ہیں ۔ اگر ہم خود کو سمجھ لیں کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں تو پھر خود کی شخصیت کو سنبھالنا، تعمیر کرنا، اور منوانا آسان ہوجاتا ہے ۔
عمل کا چیک پوسٹ
عقل مند لوگ عمومی طور پر اپنے طرز عمل کے لیے بہت محتاط ہوتے ہیں ۔ گفتگو، چال چلن، رویہ، وغیرہ ۔۔۔۔ لیکن بھول جاتے ہیں کہ گھر بھی ایک چیک پوسٹ ہے ۔ باہر تو شریفانہ طرزعمل، مہذب لب ولہجہ، یوسفانہ کردار، اور حکیمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں مگر جب گھر آتے ہیں تو تمام چیزیں کافور ہوجاتی ہیں۔ جس کی زباں سے ابھی کچھ دیر پہلے پھول جھڑ رہے تھے اچانک کانٹوں بھری زبان استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ شریفانہ طرزعمل یکسر جاہلانہ ہوجاتا ہے ۔ یوسفانہ کردار تو گھر آتے نظر زنداں ہوجاتا ہے ۔ گھر کے باہر باحیاء لوگ جب گھر آتے ہیں اور phonography کی ذلالت میں غرق ہوجاتے ہیں تو اپنا کردار نظر زنداں ہی کررہے ہوتے ہیں۔ رہی بات حکیمانہ رویہ کی تو وہ بھی حاذق حکیم سے علاج کا محتاج بن جاتا ہے ۔ یہ شخصیت کا دوہرا معیار زندگی میں نہ اندرونی سکون قائم رہنے دیتا ہےاور نہ ہی بیرونی سکون دے پاتاہے۔ انہیں خود کبھی کبھی احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ دوہری زندگی جی رہا ہوں لیکن اکثر نظر انداز کردیتے ہیں۔ نبی کریم نے فرمایا کہ ”خَیرُکُم خَیرُکُم لِاَھلِہ وَ اَنَاخَیرُکُم لِاَھلی تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں ۔‘‘( ابن ماجہ) ہم اس چیک پوسٹ کویا تو ثانوی حیثیت دیتے ہیں یا قطعاً نظر انداز کرتے ہیں جبکہ یہی انسانی پہچان کی ابتدائی کڑی ہے ۔ لہٰذا مشہور ہے کہ اگر کسی کا اخلاق و کردار معلوم کرنا ہو تو اس کے اہل وعیال سے معلوم کریں۔ عمل کے چیک پوسٹ پر تو کُل زندگی کی کہانی درج ہوسکتی مگر ہم نے ابتدائی درجہ سے گزرنے، گزارنے کا سوچا ۔۔۔۔۔۔۔ !
اخلاقی جرات کا چیک پوسٹ
ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو بڑی اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں ۔ یہ اخلاقی قدریں سکھانے والے اکثر واٹس اپ یونیورسٹی کے پروفیسرز ہوتے ہیں۔ یہ پروفیسرز اکثر اخلاقی قدروں کو ہر نمایاں طریقے سے پیش کرتے ہیں ۔ مگرجب چیک پوسٹ سے گزرنے کی بات آتی ہے voluntary retirement ( اعزازی سبکدوشی) لے لیتے ہیں ۔ یہ چیک پوسٹ کبھی دو لوگوں کے تنازعات کے وقت لگا ہوتا ہے ۔ تو کبھی پیٹھ پیچھے بات کرنے gossiping کے وقت لگا ہوتا ہے ۔ تو کبھی بیٹوں کی شادی کے موقع یا پھر سرراہ لوگوں سے معاملات کرتے وقت ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جب پیٹھ پیچھے اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں تو وہ اپنے حق گو اور بیباک ہونے کا ثبوت پیش کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں لیکن عملی طور پر چیک پوسٹ سے گزر کر ان اخلاقی قدروں کے عملی نفاذ کا مرحلہ آتا ہے تو کہیں گُم ہوجاتے ہیں۔ مطلب ان میں اخلاقی جرأت نہیں ہوتی۔ اخلاقی جرأت یہ ہوتی ہے کہ ہم جو بات کہتے ہیں، لکھتے ہیں، ذہن سازی کرتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں ان تمام کو اپنی عملی زندگی میں رُو بہ عمل لائیں، چاہے اصلاح معاشرہ کی بات ہو، عدل و قسط کا پیغام ہو، بدعت و خرافات کے خاتمے کی بات ہو یا ماحول کی درستگی کی بات ہو، ہر جہت پر اخلاقی جرأت ضروری ہے۔ کہیں ایسا ناہو کہ ۔۔۔۔۔۔ گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا ۔
مسلمان بن کر چیک پوسٹ سے گزرو
کبھی بھی معروف و منکر یکجا نہیں ہوسکتے، بیک وقت ایک شخص دورنگا نہیں ہوسکتا ، کبھی بھی اچھائی اور برائی ایک جیسی نہیں ہوسکتی، قرآن کہتا ہے کہ ” لَا یَسْتَوِیْ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ‘‘ دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں۔ پھر ناجانے کیوں ایک شخص دو مختلف کرداروں کو، دو مختلف کیفیات کو، دو مختلف طرز زندگی کو یکجا کرکے مطمئن نظر آتا ہے ۔ شخصیت کی تعمیر کے لئے الله نے نفس انسانی کو چیک پوسٹ لگاکر پیدا کیا ہے۔ نفس امارہ اور نفس لوامہ دونوں فرد کی ذات میں پنہاں ہیں۔ نفس لوامہ دراصل چیک پوسٹ ہے جہاں ہم خود کو روک کر نفس امارہ پر چالان کاٹ سکتے ہیں ۔ اس چالان کی صورت میں شخصیت میں نکھار پیدا کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں کم از کم چار الوہی صفات پیدا کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے دو رنگی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے قہّار بننا ہوگا ۔ قہّاری کہتے ہیں مغلوب رکھنے کی قوت کو جو نفس امارہ کو مغلوب رکھ سکے، ہمیں غفّاری جیسی وصف سے بھی آشنا ہونا ضروری ہے تاکہ ہم معاف کرنے والے مہربان بنیں۔ ہمیں قدّوسی صفت سے بھی بہرہ یاب ہونا ہوگا کہ قدّوسی کہتے ہیں پاکیزہ و منزہ کو جو نفس لوامہ کو ایکٹیو رکھ سکے، ساتھ ہی جبروت جیسی صفت سے بھی متصف ہونا ضروری ہے ۔ جبروت کہتے ہیں حشمت، عظمت، بزرگی و جلال کو جو شخصیت میں بردباری پیدا کرکے حلیم بنائے، تب کہیں جاکر ہم ایک مسلمان بن کر چیک پوسٹ سے گزر پائیں گے ۔
قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں