شراب، خواتین اور سماج

شمشاد حسین فلاحی

بابائے قوم مہاتما گاندھی نے کہا تھا:

’’شراب جسم اور روح دونوں کو تباہ کرنے والی ہے۔‘‘

گاندھی جی دھارمک انسان تھے اس لیے انھوںنے شراب کے نقصانات میں جسم اور روح کا خاص طور پر ذکر کیا لیکن اگر ماہرین سماجیات سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ شراب فرد، خاندان اور سماج سبھی کو تباہ کرنے والی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شراب نے سماج میں بے شمار برائیوں اور لاتعداد جرائم کو جنم دیا ہے۔ قتل کے واقعات سے لے کر خطرناک ڈرائیونگ میں ہلاک ہونے والے لوگوں تک اور شراب کے نشہ میں بیوی بچوں کو مارنے پیٹنے سے لے کر طلاق تک میں شراب کا خاص رول نظر آتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ شراب بندی کی تحریک میں خواتین پہلے سے متحرک تھیں اور اب بھی وہ اس کے لیے فعال ہیں۔ آندھرا پردیش، تمل ناڈو، مہاراشٹر اور یوپی کے علاوہ کئی ریاستوں میں خواتین نے شراب کے خلاف منظم اور لاٹھی ڈنڈوں سے مسلح تحریک چلائی۔ انھوں نے خواتین کو اس کے خلاف منظم کیا اور طاقت کے بل پر انھوں نے شراب کے ٹھیکوں کو تباہ کیا۔ شراب سازی کرنے والی بھٹیوں کو توڑا اور شراب پینے والے مردوں کو سر عام پیٹ کر اپنا احتجاج بھی درج کرایا اور اس کرب کو بھی ظاہر کیا جیسے وہ شراب نوش شوہروں کے ہاتھوں جھیلتی آئی ہیں۔ ملک کے کئی علاقوں میں ’’گلابی گینگ‘‘ جسے خواتین کے لاٹھی بردار گروپ ہیں جو آج خواتین کے خلاف تشدد کرنے والے مردوں اور شراب نوشی کی لت میں گرفتار شوہروں کو ڈنڈے کے بل پر روکنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان کی اس طاقت کو سماج اورحکومتوں نے بھی محسوس کیا اور سیاسی جماعتوں نے بھی۔

خواتین شراب کے خلاف اس قدر منظم، متحرک اور شدت پسند کیوں ہوگئیں یہ سوال اہم ہے۔ اور اس کے بارے میں صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے شراب کا عورتوں پر ظلم حد سے گزر گیا اور وہ ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کی مصداق اس کے خلاف میدان میں کود پڑیں۔

ایلیٹ کلاس (دولت مند) کی شراب نوشی کے اثرات اس کی خانگی اور معاشی زندگی پر کیا مرتب ہوتے ہیں اس سے بالکل قطع نظر ان خواتین کو محض اپنی ذات، اپنے خاندان اور اپنے بچوں کی زندگی کی فکر نے اس قدر شدت پسند ااور متحرک بنایا۔ کیوں کہ ایک شرابی شوہر سے پٹتے پٹتے ایک عورت تھک گئی اور ایک شرابی باپ کی زیادتیوں سے ایک بیٹی تنگ آگئی۔ ایک شرابی شوہر کی بیوی جو گھروں میں محنت مزدوری کر کے چند روپے کما کر لاتی ہے تو اس لیے لاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کر سکے مگر جب اس کا شرابی شوہر اس سے وہ روپے بھی شراب کی بوتل خریدنے کے لیے جبرا چھیننے لگے تو وہ کہاں تک صبر کرے۔ آج اگر گاندہی جی زندہ ہوتے تو شاید وہ ان مظلوم خواتین کی حمایت میں شراب بندی کے لیے ’مرن ورت‘ کے لیے تیار ہو جاتے۔ اب ذرا ہم شراب سے متعلق چند حقائق پر نظر ڈالتے ہیں:

l ہندوستان میں ہر سال شراب 5000 سے زیادہ افراد کی جان لیتی ہے۔

l گھریلو تشدد بیوی بچوں سے مار پیٹ اور طلاق کی بڑھتی شرح میں اس کا کلیدی رول ہے۔

l دنیا بھر میں جتنا الکوہل بنتا ہے اس کا پانچواں حصہ صرف ہندوستان میں استعمال ہوتا ہے۔

l کل شراب کے استعمال کا جو تخمینہ ہے اس کا دو تہائی ریکارڈ سے باہر ہے۔

l سال 2015 کے دوران ایک لاکھ پچاس ہزار کروڑ روپے کی شراب فروخت ہوئی۔

l شراب کی صنعت ملک میں 30 فیصد سالانہ کی شرح سے ’’ترقی‘‘ کر رہی ہے۔

l زیادہ تر ریاستوں کی آمدنی کا 20 فیصد شراب سے حاصل ہوتا ہے۔

l ملک میں ہونے والے سڑک حادثات کا 70 فیصد شراب کے سبب ہیں۔

شراب کی یہ تباہ کاری صرف ہمارے ملک ہندوستان ہی میں نہیں ہے کہ یہ خواندگی، ترقی اور اقتصادی اعتبار سے کمزور ملک ہے اور غربت زدہ عوام شراب پیتی ہے۔ شراب کی ان تباہ کاریوں سے ترقی یافتہ ممالک بھی پریشان ہیں۔ امریکہ میں خواتین کے خلاف جرائم اور جنسی جرائم کی بڑی وجہ شراب نوشی ہے۔ برٹش کرائم سروے رپورٹ کے مطابق 47 فیصد گھریلو تشدد شراب کے نشہ میں ہوتا ہے اور 65 فیصد اجنبی خواتین کے خلاف جنسی جرائم شراب کے نشے میں ہوتے ہیں۔ جب کہ گھریلو تشدد کے بارے میں برطانیہ کے آزاد اداروں کا خیال ہے کہ گھریلو تشدد کے 73 فیصد واقعات شراب کے نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں تاحال ایسا کوئی ڈاٹا تیار نہیں ہوا جس میں شراب کے نشہ میں ہونے والے گھریلو تشدد اور خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی الگ سے رپورٹنگ ہوتی ہو۔ لیکن زمینی صورتِ حال بتاتی ہے کہ شراب کی لت سے مجبور اکثر شوہر گھر میں مار دھاڑ کرتے نظر آتے ہیں اور اس چیز کا مشاہدہ ہم خود اپنے پاس پڑوس میں کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ یوروپ، امریکہ اور افریقی ممالک میں شراب نوشی اور شراب کی تجارت کے خلاف بڑی تعداد میں خواتین سڑکوں پر نکل رہی ہیں۔ لیکن کیوں کہ شراب دنیا بھر میں حکومتوں اور صنعت کاروں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس لیے حکومت اور صنعت کی ملی بھگت کہیں بھی کوئی موثر اقدام کرنے کے لیے تیار نہیں۔

ہندوستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ریاستوں میں شراب پر قانونی طور پر پابندی ہے مگر اس کے باوجود وہاں شراب کھلے عام بکتی ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ شراب حکومتوں کی بڑی آمدنی کا ذریعہ ہے اور اگر حکومتیں اس سے خود کو محروم کرنے کی منصوبہ بندی کر بھی لیں تو صنعت کار اس کے لیے کہاں سے راضی ہوں گے۔

کبھی کبھی سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہندوستان میں بہت سے کام محض سیاسی وجوہات کے سبب بھی انجام پا جاتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے خواتین کی سیاسی طاقت کا ادراک کرتے ہوئے جب شراب پر مکمل پابندی کا اعلان کیا تو خواتین اس کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئیں۔ اس سے آگے بڑھ کر وہاں خواتین نے شراب پر مکمل پابندی کے نفاذ میں اہم رول ادا کیا۔ غیر قانونی طور پر فروخت کرنے والوں کو پکڑنے اور سزا دلوانے میں حکومت کا تعاون کیا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ جب کہ بہار میں مکمل شراب بندی کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے دیگر ریاستوں میں سیاسی گروپوں نے اقتدار میں آنے پر بہار کے طرز پر شراب پر مکمل پابندی کا وعدہ کر ڈالا۔ ظاہر ہے اس کی وجہ بھی سیاسی ہی ہے اور خواتین کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے برسر اقتدار لوگوں نے نتیش کمار کی اتباع میں اس چیز کو انتخابی ایشو بنا لیا۔

دوسری ریاستوں میں کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں، اس سے قطع نظر صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نے کامیابی کے ساتھ شراب پر پابندی لگا کر نصف انسانیت کو بڑی مشکل زندگی اور مسائل سے بچانے کی اچھی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بہار کے ہزاروں خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچایا ہے۔ لاکھوں بچوں کو اچھی زندگی جینے کا موقع دیا ہے اور ہزاروں گھروں کی معیشت کو مستحکم کرنے اور لاکھوں افراد کی صحت کو تباہ ہونے سے بچایا ہے۔ اگر دیگر ریاستوں میں بھی اسی طرز کی مکمل شراب بندی نافذ ہوتی ہے تو یہ حکومت کے خزانے کو بھلے ہی کمی سے دوچار کرے مگر لاکھوں خاندان کی معیشت کو ضرور تباہ ہونے سے بچائے گی۔ بابائے قوم کے مطابق مکمل شراب بندی انسانوں کی روح اور جسم دونوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ اور اگر انسان کی روح اور جسم دوونوں صحت مند ہوں تو پھر کیا کہنا lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں