شریکِ حیات کو سمجھیں- اس کی بات مانیں

سحرش پرویز

کہتے ہیں ازدواجی زندگی کے چھوٹے موٹے جھگڑوں میں کسی ایک کی خاموشی بڑے جھگڑے کو ٹال دیتی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ایک ساتھی کی خاموشی کے ساتھ ہی ازدواجی زندگی میں دراڑیں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ تنقید کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ امریکی محققین کا کہنا ہےکہ شادی شدہ جوڑوں کی تنہائی میں ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنا ان کے ازدواجی رشتے کو خراب کرتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق شادی شدہ جوڑوں میں اکثر تنقید سے بچنے کے لیے خاموشی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ جذباتی رویہ لاتعلقی کہلاتا ہے اور یہ لا تعلقی ازدواجی بندھن اور اپنے جیون ساتھی کے لیے دل میں ناپسندیدگی یا پھر نفرت کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ نخرے والی ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنے شوہروں کی ہر بات اور ہر چیز میں نقص نکالتی ہیں۔ جس سے شوہر کے دل کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اس طرح آپس کا رشتہ اوران کا گھر دونوں خراب ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تنہائی میں ایک دوسرے کی بات کو جھلینے والوں میں دوسری طرح کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر طرح کی تنقید کو خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں اور اپنے ساتھی سے توقع رکھتے ہیں کہ شکایت نہ کرنے کے باوجود ان کا ساتھی خود ہی ان کی تکلیف اور جذبات کا احساس کرے گا، لہٰذا اکثر ایسی صورت حال میں مزاحمت کرنے کا جذبہ باقی نہیں رہتا اور یہی جذبہ انھیں غیر مطمئن بناتا ہے اور چھوٹے موٹے جھگڑوں کے بعد صلح صفائی سے روکتا ہے۔

ایبلر یونیورسٹی کالج آف آرٹس اینڈ سائنس ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات پروفیسر کیتھ سین فورڈ نے کہا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں میں لاتعلقی کا رویہ سب سے زیادہ پریشان کن اور نقصان دہ ہوتا ہے۔جرنل آف امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی تحقیق میں ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ میاں بیوی کی طرف سے معمول کی تنقید سے بچنے کے لیے خاموشی اختیار کرنے والا حربہ بھی تقریبا لاتعلقی اپنانے جتنا ہی برا اور تکلیف دہ ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر کیتھ سین فورڈ نے کہا کہ خاموشی ایک طرح سے دفاعی حربہ ہے، جو لوگ اُس وقت استعمال کرتے ہیں، جب وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذات پر حملہ کیا جارہا ہے۔ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ میاں بیوی کی لاتعلقی اور غیر مطمئن رویے کا ان کے ازدواجی رشتے کے ساتھ براہِ راست تعلق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فورڈ کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کی تنقید سے دست بردار ہونا بڑے نقصان سے گریز کا ایک طریقہ ہے اور یہ ایک فرد کے دکھی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ اکثر معمولی تنقید بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ لہٰذا دونوں میں سے ایک خاموشی سے دست بردار ہوجاتا ہے اور دوسرا اپنے مطالبے پر ڈٹا رہتا ہے۔ اگرچہ اس رشتے میں ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر ایسے رشتے سے وابستہ میاں بیوی پریشان ہیں۔ ان میں خود مختاری، صبر اور فاصلے کو برقرار رکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ دوسری جانب وہ لوگ جنھیں توقع ہوتی ہے کہ ان کا شریکِ حیات اپنی غلطی کا احساس کرلے گا، وہ زیادہ بے چین رہتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ دریں اثنا ایسے لوگ اس لیے بھی فکر مند رہتے ہیں کہ ان کا ساتھی ان سے محبت کرتا بھی ہے یا نہیں؟ نظر انداز ہونے کا احساس ان کے اندر دکھی اور تکلیف دہ جذبات پیدا کرتا ہے۔

ماہرین نے اپنی تحقیق تین حصوں میں تقسیم کی ہے۔ پہلے حصے میں 588شادی شدہ جوڑوں سے سوال کیا گیا کہ ازدواجی زندگی میں تکرار کی صورت میں وہ کون سی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں؟ مثلاً کیا وہ خاموش ہوجاتے ہیں، یا دوسری طرف سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے جذبات کا خود ہی احساس کریں۔ دوسرے حصے میں 223 بالغان جو رومانوی رشتے سے منسلک تھے، ان کے رشتے کی کامیابی اور معمولی اختلافات میں ان کی حکمتِ عملی کا جائزہ لیا گیا اور تیسرے مرحلے میں 135 انڈرگریجویٹس طلبہ سے میاں بیوی کے باہمی تنازع اور صورت حال سے بچنے کے لیے دفاعی طریقہ اختیار کرنے پر سوال کیا گیا۔ نتیجے سے ظاہر ہوا کہ جو لوگ دکھی ہیں یا اپنے ساتھی سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے خیالات کو پڑھنے کی کوشش کرے، ایسے لوگوں کے اپنے ازدواجی رشتے میں ناخوش رہنے کے حوالے سے مضبوط شواہد ملے۔ محققین نے نتیجے سے اخذ کرتے ہوئے کہا کہ اکثر میاں بیوی ایک دوسرے کی تنقید سے بچنے کے لیے خاموشی والے طریقے کو استعمال کریں۔ خاص طور پر بیویوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیویاں بات بات پر اپنے شوہروں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، انھیں تنگ کرتی ہیں، ان پہ غصہ کرتی ہیں، اس طرح سے خواتین اپنی انا اور ضد میں اپنا بنا بنایا گھر اپنے ہی ہاتھوں سے اجاڑ دیتی ہیں۔

ان تحقیقات اور تجزیوں کے بعد ہم یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ہمیں سیرت پاک کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ رسولؐ پاک کی سیرت سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ آپ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک میں سب سے آگے تھے اور ایسی کوئی بات نہ کہتے جس سے کسی بیوی کی دل آزاری ہو۔ اسی طرح رسولؐ کی خانگی زندگی کے مطالعے سے یہ بات بھی ہمارے سامنے آتی ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کے باوجود رسولؐ سب کو اس قدر محبت سے رکھتے کہ ہر ایک کا خیال ہوتا کہ وہ سب سے زیادہ محبت مجھ سے کرتے ہیں۔

یہ زندگی گزارنے کا ایک عملی طریقہ ہے جو حضور پاکؐ کی زندگی سے ہمیں حاصل ہوتا ہے۔ خوشگوار خانگی زندگی کے لیے اس کا مطالعہ اور اس پر عمل جنت نظیر گھر کی ضمانت ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں