رات کے گمبھیر سناٹے میں یخ بستہ ہوا کی سنسناہٹ نے ایک پر اسرار کیفیت طاری کر رکھی تھی۔ شہر پر گھنی خاموشی مسلط تھی۔ تین طرف سے کچے پکے مکانوں میں گھرا یہ میدان صحرا جیسا ہولادینے والا منظر پیش کر رہا تھا۔ کسی کونے سے کوئی دبکا، سہما ہیولا نمودار ہوتا، دو قدم چلتا، اپنے ہی قدموں کی چاپ سے دہلتا، لمحوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتا، مقررہ مقام تک پہنچ کر رکتا، سر پر لدا بوجھ پھینکتا اور واپس اندھیرے میں گم ہو جاتا۔ یہ کھیل گھنٹوں سے جاری تھا۔ قانون نافذ کرنے والوں کی گاڑیاں اندھیرے میں بھوت نظر آرہی تھیں، ان میں بیٹھے جوان اپنی آنکھوں کے سامنے مجرم سایوں کا رقص ابلیس دیکھ رہے تھے مگر خاموش تھے کیوں کہ انہیں مال کی برآمدگی کا حکم ملا تھا، مجرموں کو پکڑنے کا نہیں۔ ایسے میں ایک سایہ کسی کونے سے نکلا اور سامان کے ڈھیر میں گم ہوگیا۔ شب تاریک اپنے انجام کی سمت بڑھ رہی تھی۔ اس میدان حشر میں کسی نے نہیں دیکھا کہ سائے نے اپنا سامان واپس پھینکا کہ نہیں۔ یہاں تو سب کو اپنی اپنی پڑی تھی، بس بوجھ اتار پھینکیں اور لوٹ جائیں۔ یہ خوف، خدا کا نہیں، پولیس اور نیجرز کا تھا کہ اگر کسی کے گھر سے تلاشی کے دوران میں لوٹے ہوا مال برآمد ہوا تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔ آج صبح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار میگافون لیے گلی گلی اعلان کرتے پھر رہے تھے۔ تین دن تک ہنگاموں میں جو لوٹ مار ہوئی تھی، اس میں کروڑوں کا سامان لوٹا گیا تھا۔ لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی لوٹی گئی تھی، بیسیوں گاڑیاں جلا دی گئی تھیں۔ لوگ حکومت سے ہر جانے اور اپنے مال کی برآمدگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس نے بھی جب سناٹے کو چیرتا اعلان سنا تو اپنے دکھتے جسم پر رکھے اپنے بھاری سر کو جنبش دی، اپنی آنکھیں بہ مشکل کھول کر آواز کی سمت دھیان دینے کی کوشش کی مگر بے سود۔ ابھی اس کے حواس بحال نہیں ہو پائے تھے کہ وہ پھر بے دم ہوگئی۔ میگا فون سے پھر اعلان ہوا۔ اس بار آواز قریب سے آئی تھی مگر اتنی طویل بے ہوشی کے بعد اسے آواز سننے میں بھی خاصی دقت ہو رہی تھی البتہ اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوا تھا ’’مجھے مرجانا چاہیے تھا‘‘ اتنی بے عزتی، اتنی درندگی کے بعد موت ہی اصل راہِ نجات ہوتی ہے۔ اس نے سوچنے کی کوشش کی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، وہ کون تھے، جن کے وہ ہتھے چڑھی تھی؟ صرف اتنا یاد تھا کہ وہ کام سے واپس آرہی تھی، ہنگاموں کی وجہ سے ٹریفک غائب تھی، جگہ جگہ آگ لگی تھی، گاڑیوں اور دکانوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، لوگوں کے غول کے غول لوٹ مار میں مصروف تھے، وہ اپنی ساتھی لڑکیوں کے ساتھ کبھی اس گلی میں، کبھی اس گلی میں دوڑتی، جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی، سردیوں کے سورج کو بھی چھپ جانے کی جلدی تھی۔ وہ بھٹک کر کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ ہر گلی میں سناٹا اور اندھیرا، ڈرے، سہمے لوگ دروازے بند کیے اندروں میں دبکے ہوئے تھے، کوئی کسی کی مدد پر آمادہ نہیں تھا۔
اس نے ان کی گرفت سے آزاد ہونے کی بہت کوشش کی تھی، مگر وہ انسان نہیںدرندے تھے، جنہوں نے اس کے جسم کے ساتھ اس کی روح کو بھی گھایل کر دیا۔ ایک بہت ہی بھیانک رات کی صبح ضرور ہوگئی مگر اس رات سے زیادہ بھیانک، جب اسے اپنے ساتھ ہونے والے جرم کا ادراک ہوا۔ وہ شور مچاتی تو ضرور اس کی آواز کسی کو متوجہ کرتی، لوگ مدد کو آتے، اسے اسپتال پہنچاتے، اس کے گھر والوں کو تلاش کیا جاتا۔ یقینا اس کا باپ اور بھائی اسے اسپتالوں اور مردہ خانوں میں تلاش کر رہے ہوں گے مگر وہ انہیں ملنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ شرم سے جھکے ان کے سر دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
پہلے فرش پر بھوک، پیاس، ٹھنڈ اور زخموں کی شدت سے تڑپی پھر آہستہ آہستہ وہ بے خبر ہوتی گئی۔ اسے اپنی زندگی کا احساس میگافون کے اعلانات سے ہوا۔ آہستہ آہستہ حواس بحال ہوئے تو اعلانات کا مطلب واضح ہونے لگا۔ ’’لوٹا ہوا مال واپس لینا ہے مگر لوٹی ہوئی عزت؟‘‘ وہ اپنے بے معنی وجود کو معنی دینا چاہتی تھی۔ جس میدان میں سامان جمع کیا جا رہا تھا وہ اس جگہ سے صاف نظر آرہا تھا۔ رات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے اور سامان کے ڈھیر بلند ہو رہے تھے۔ لوگ اپنے اپنے گناہوں کی گٹھریاں میدان میں پھینک کر یہ سمجھ رہے تھے، جیسے ضمیر کا بوجھ اتار رہے ہیں۔
وہ رات کے گھپ اندھیرے میں نکلی اور اپنے وجود کو گھسیٹتی وہاں جا پہنچی۔ یہاں سب کو اپنی اپنی پڑی تھی کہ کہیں کوئی پہنچانا نہ جائے، کسے فرصت تھی کہ اسے دیکھتا۔ اس کھلے اور ٹھنڈے میدان کی جان لیوا سردی میں وہ آہستہ آہستہ ایک گھنی تاریکی اور خاموشی کی اتھاہ کھائی میں اترنے لگی۔
صبح جب لوگ لوٹے ہوئے سامان میں سے اپنی چیزیں چھانٹ رہے تھے، تو ایک لڑکی کی اکڑی ہوئی لاش دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیں۔ کوئی سامان کے ساتھ لاش بھی پھینک گیا ہے، جانے کس کی بہو، بیٹی ہے۔ آوازیں بلند ہوتی چلی گئیں، لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ پولس آگئی پھر ایمبولینس پہنچ گئی اور لاش اٹھا کر ہوٹر بجاتی چلی گئی۔ کچھ دیر بعد میدان میں سامان رہا، نہ انسان… لاش نے سارے میں سراسیمگی پھیلا دی تھی۔
وہ اپنے کم سن بیٹے کے ساتھ دو دن سے مختلف تھانوں اور اسپتالوں میں بیٹی کو تلاش کرر ہا تھا، آخر اطلاع ملی کہ اسپتال کے مردہ خانے میں ایک لڑکی کی لاش پڑی ہے۔ اس نے لاش کی رپورٹ لرزتے کانپتے بوڑھے ہاتھوں میں تھام رکھی تھی۔ لڑکی کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بوڑھے نے لاش کے چہرے سے کپڑا سرکایا اور فوراً ڈھانپ دیا ’’یہ میری بیٹی نہیں‘‘ اس نے اپنے ٹوٹتے بکھرتے وجود کو سمیٹا اور کم سن بیٹے کا سہارا لے کر باہر نکل آیا، تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ اعصاب جواب دینے لگے۔ پھر ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح زمین پر بیٹھ گیا اور ہچکیاں لے لے کر رونے لگا۔ بیٹے نے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے پوچھا: ’’پاپا میں نے خود دیکھا، وہ دیدی ہی تھی۔‘‘ باپ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’چپ کر جاً کوئی سن نہ لے، عزت دو کوڑی کی رہ جائے گی، ماں سے بھی مت کہنا، اپنی بہنوں کو اور کسی سے بھی نہیں، ہم باپ بیٹے اکیلے میں اسے رولیںگے۔‘‘ لڑکے نے بھی آنسو پونچھ لیے اور سرگوشی میں پوچھا ’’گھر جاکر کیا کہیں؟‘‘ باپ نے گلو گرفتہ آواز میں کہا ’’کہہ دیں گے، مردہ خانے میںبہت سی جلی ہوئی لاشیں تھیں، ہوسکتا ہے ان میں ہماری بیٹی بھی ہو۔‘‘ بوڑھا، بیٹے کا ہاتھ تھام، کمر کو سہارا دیتا اٹھا اور گھر کو روانہ ہوگیا۔ وہ لوٹا ہوا مال تو تھی نہیں کہ شناخت بتاتے اور لے آتے، لٹی ہوئی عزت تھی، ناقابل شناخت ہی رہے تو بہتر ہے۔lll