شکوہ اور آرزو

افتخار احمد ، اسلام نگر، ارریہ

اے ربِّ کریم! ایسا لگتا ہے جیسے زندگی بوجھ بن گئی ہو۔ اکتاہٹ نے ذہن و فکر پر جیسے قبضہ جمالیا ہو۔ صرف دو دن کے لیے بچے اپنی ماں کے ساتھ گئے ہیں تو آنگن سونا اور بھائیں بھائیں کرتا ہوا اور کمرے خالی خالی لگتے ہیں۔ حالانکہ پہلے سے زیادہ مصروفیت سے مطالعہ کررہا ہوں اور لکھ رہا ہوں۔ یا اپنی تحریروں کو ایڈٹ کررہا ہوں، یکسوئی حاصل ہے۔ مگر پھر بھی زندگی بے مصرف لگتی ہے۔
ننھے کا قہقہہ سنتا تھا، بچی کو پڑھایا کرتا تھا، ان کی شرارتیں دیکھتا اور جھیلتا تھا تو دنیا اور اس کی دلچسپیوں میں گم سا ہوجاتا تھا۔ مگر اب صرف دو ہی دنوں میں دل و ذہن کی کیفیت بدلتی معلوم ہوتی ہے۔ دراصل مطالعے سے ان دو دنوں میں آپ کی دنیا کے ’’وہ‘‘ ہونے کا احساس شدید ہوگیا ہے جسے میں بیان نہیں کرسکتا۔ غزہ کی خبریں اور انسانوں کے قتل کی اخباری سرخیاں اور ٹیلی ویژن کی بریکنگ نیوز دیکھ اور پڑھ کر تو لگتا ہے آپ کی اس دنیا میں اشرف المخلوقات کہا جانے والا ’’انسان‘‘ جیسے درندہ ہوگیا ہے۔ محض ایک دوسرے پر برتری اور غلبہ کے لیے اس نے کتنا کچھ کرڈالا ہے۔ اس کی خود غرضی دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے صرف اپنے آپ کو آرام پہنچانے کے لیے بنیادی اور اخلاقی قدروں کو روند رہا ہے۔ ہر طرح کی لذت اور آسائش حاصل کرنے کے لیے، ہر قسم کی ذمہ داریوں کو اس نے بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ محبت و اخوت کو بھی اس نے ایسے ہی توڑ پھوڑ ڈالا ہے جیسے زمین کی سطح اور پہاڑوں کو ڈائنامائیٹ کیا ہے۔ مروت و ہمدردی کو بھی ویسے ہی آلودہ کیا ہے جیسے سمندر کو آلودگی سے بھردیا ہے۔ اخلاق اور رشتوں کو یوں پامال کیا ہے جیسے فضا کو زہر آلود کیا ہے۔ عصمت اور عفت کی چادر کو یوں تار تار کیا ہے جیسے اوزون کی سطح میں چھید کیا ہے۔ادب و تہذیب و شائستگی سے یوں بھاگتا ہے جیسے جنگلی جانور آگ سے بھاگتے ہیں۔ آپ کی دی ہوئی عقل سے اس نے وہ صنعتی ترقی کرلی ہے کہ اب مشینیں ہی اس کی خدا ہیں۔
ہر انسان جھوٹ کے پیچھے بھاگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہر کوئی لڑ رہا ہے، کو ئی اپنے اندر لڑرہا ہے، کوئی باہر۔ زمین پر تین چوتھائی پانی ہے اور پانی سے ہی آپ نے زندگی پیدا کی ہے اور پانی آلودہ ہوچکا ہے۔
باقی جو خشکی ہے، اسے آپ نے پہاڑوں سے ساکن قرار دیا ہے۔ کیا آج کل وہ ساکن ہے؟ یہ سب ملک در ملک، براعظم در براعظم ہیں۔ ایشیا ہے، افریقہ ہے، یورپ ہے، امریکہ ہے،روس ہے، چین ہے، ہندوستان ہے، پاکستان ہے۔ مگر انسان کے لیے وہ جائے سکون ’’زمین‘‘ کہا ںہے؟ جس کا تذکرہ آپ کی مقدس کتابوں میں ہے۔ تذکرہ ان کتابوں میں جنت و جہنم کا بھی ہے۔ جنت وہ جگہ جہاں حزن و ملال نہیں ہوگا۔ اور جہنم وہ جگہ جو مصیبتوں اور عذابوں کی آماجگاہ ہوگی۔
مگر خدایا! ہم کیا کریں اگر آج کا انسان اس دنیا ہی کو جہنم میں تبدیل کرلے۔ نہیں یہ حقیقت ہے یہ دنیا اب جہنم زار سی لگتی ہے۔ اور آپ نے تو فرمایا ہے قرآن میں:
ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس۔
اے ربِ کریم! اس جہنم زار دنیا میں ہم جئے جاتے، تیری اس جنت کی امید پر جس کا تو نے اہلِ ایمان سے وعدہ کیا ہے۔ مگر کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا اس وعدے کے دائرے میں ہم آتے بھی ہیں یا یونہی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ جامد اور معطل سے بے کار اور سست سے۔ ظلم و جبر کے مقابلے میں ناکارہ سے۔بس لگی بندھی مصروفیات کے ساتھ زندگی گزارے جاتے ہیں۔
کمانا، کھانا، سونا، اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، گپ شپ، غیبت، شکوہ، تحریر، تقریر اپنے لیے کرنا، اپنے بچوں کے لیے کرنا، اپنے بزرگوں کے لیے کرنا، پھر بھی جی بھر کے نہیں کرپانا اورمحرومی کے احساس سے کڑھنا۔
طرح طرح کی رکاوٹ طرح طرح کے جھنجھٹ ، ہر قدم پر کشمکش! وہی صبح، وہی شام، وہی زمین ، وہی آسمان، وہی موسم، وہی انداز اور عمر عزیز کے پچاس سال!
اب اس بے کار زندگی سے اکتاہٹ ہونے لگی ہے۔ بس خدایا یا تو زندگی کو جہدوعمل سے ہمکنار کرکے تلخ زندگانی کو شہد کی لذت میں تبدیل کردے کہ میں اس ناکارہ زندگی سے نکل کر تیری راہ میں جدوجہد کرسکوں یا پھر باعزت موت دے کر اپنی جنت میں بلالے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146