شیلٹر ہومز: پناہ گاہیں یا عقوبت خانے

ادارہ

ایک طرف جہاں حالیہ مانسون اجلاس میں ملک کی پارلیمنٹ میں نابالغ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے لیے عمر قید اور سزائے موت تک کا اہتمام رکھنے کے لیے قانون منظور کیے گئے ہیں، وہیں دوسری طرف بچوں اور عورتوں پر مظالم اور زیادتی کے واقعات کم و بیش ہر روز اخبارات میں آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ عدالت عظمی کو حکومت کی سرزنش کرنی پڑی کہ آخر یہ سب کب تک چلے گا؟ تازہ ترین واقعات بہار کے مظفرپور اور اتر پردیش کے دیوریا کے ہیں جہاں خواتین اور بچیوں کے شیلٹر ہومز میں جنسی استحصال کے چشم کشا انکشافات ہوئے ہیں۔ اتر پردیش کے دیوریا کے ایک شیلٹر ہوم سے 10 سالہ بچی کے فرار ہونے اور پولیس میں شکایت کرنے کے بعد اس شیلٹر ہوم سے 24 بچیوں کو بچایا گیا جبکہ وہاں سے 18 بچیاں اب بھی لاپتہ ہیں۔ واضح رہے یہ شیلٹر ہوم پولیس تھانے سے زیادہ دوری پر نہیں تھا اور ریاستی حکومت کی جانب سے اس ادارے کی رجسٹریشن بھی رد کی جاچکی تھی۔ اس سے قبل مظفر پور کے شیلٹر ہوم میں 34 بچیوں کی عصمت دری کے واقعے سے پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ ان شیلٹر ہومز کو غیر سرکاری تنظیمیں چلاتی ہیں جن میں سیاسی طور پر بہت بارسوخ افراد شامل ہیں۔ انھیں چلانے کے لیے ریاستی اور مرکزی حکومت اور نجی اداروں سے مالی امداد ملتی ہے، لیکن بجائے بے سہارا عورتوں اور بچیوں کو پناہ فراہم کرنے کے، مذکورہ معاملات میں یہی شیلٹر ہوم ان کے استحصال کا ذریعہ بن گئے۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں حقوق انسانی کی پامالی کا شکار سب سے زیادہ خواتین اور بچے بنتے ہیں۔ ہندوستان کے قومی جرائم ریکارڈ کے ادارے این سی آر بی کے مطابق ملک میں عورتوں پر جنسی زیادتی کے واقعات میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے۔ 2015 سے ان جرائم کی تعداد میں اوسطاً 34 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی ادارے کے اعداد و شمار کی رو سے ملک میں ہر چھ گھنٹے میں عصمت دری کا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ چونکادینے والے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ بچے اور عورتیں اپنے گھروں اور محفوظ پناہ گاہوں میں بھی، جن کے قیام کا مقصد ہی بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، غیر محفوظ ہیں۔ (آؤٹ لک میگزین)

شیلٹر ہوم کا مقصد، جیسا کہ ان کے نام ہی سے ظاہر ہے، مصیبت زدہ عورتوں اور بچیوں کو محفوظ پناہ فراہم کرنا ہے۔ یہ عام طور پر غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے چلایا جاتا ہے اور عام طور پر انھیں حکومت فنڈ کرتی ہے۔ یہ ادارے Immoral Traffic and Prevention Act, 1956 کے تحت کمزور اور غیر محفوظ عورتوں کو سہارا دینے کی غرض سے قائم کیے جاتے ہیں۔ شیلٹر ہوم عورتوں اور بچوں کو پر تشدد اور غیر محفوظ حالات سے نکالتے اور انھیں سہارا فراہم کرتے ہیں اور ان کی عارضی یا مستقل رہائش کا انتظام کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں ہونے والے مختلف مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مظلوم خواتین اور بچوں کی بازآبادکاری کرنے، انھیں محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے، ان کو جسمانی و ذہنی صدمے سے بنرد آزما ہونے اور زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور مواقع فراہم کرنے میں شیلٹر ہومز انتہائی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم مثالی اور حقیقی دنیا میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔

شیلٹر ہوم کے مقاصد میں شامل ہوتا ہے کہ ظلم و زیادتی کی شکار بچیوں اور عورتوں کو شیلٹر ہوم میں مختلف قسم کے پیشہ ورانہ کاموںکی تعلیم و تربیت دی جائے تاکہ وہ سماجی اور مالی طور پر مستحکم ہوسکیں۔ انھیں قانونی مدد فراہم کی جائے اور ان کی نفسیاتی کاؤنسلنگ کی جائے تاکہ وہ زخم مندمل ہوسکیں جو ظلم و زیادتی یا محرومی کی شکل میں ان کی روح پر لگے ہیں۔ لیکن یہ مقاصد محض کاغذات کی حد تک ہیں اور یہ کافی نہیں بلکہ ایسا نظام ہونا چاہیے کہ ان شیلٹر ہوم میں خواتین اور بچیوں کی بازآبادکاری کے لیے مساعی کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے اور ان کی درجہ بندی ہو تاکہ اچھی کارکردگی کے لیے نہ صرف ان شیلٹر ہومز کی حوصلہ افزائی ہو بلکہ ان کے کام کی نگرانی بھی ہوسکے۔

لیکن کیا ایسا ہورہا ہے؟ ملک میں تقریباً نو ہزار شیلٹر ہومز ہیں۔ ان کی نگرانی کرنے اور جائزہ لینے کے لیے کیسا نظام موجود ہے؟ اور اس نظام کی آڈٹ یا احتساب بھی ہوتا ہے یا نہیں۔

ایک رسمی نظام یقیناً موجود ہے۔ ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں، مختلف سرکاری ادارے اور افسران کو ان شیلٹر ہومز کی نگرانی اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے، جو ان کے پچھلے کام کی بنیاد پر فنڈنگ کی مقدار طے کرتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً معمول کی جانچ بھی ہوتی ہے جس میں شیلٹر ہوم کا دورہ، وہاں کے انچارج اور اہل کاروں سے ملاقات، سہولتوں، ریکارڈ، کھانے، رجسٹروں وغیرہ کا جائزہ شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ رسمی خانہ پری کی حد تک ہے۔ سرکاری سطح پر ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس کے ذریعے وہاں رہائش پذیر افراد کا جائزہ لیا جائے، ایسا صرف سوشل آڈٹ میں ہی ممکن ہے۔

مظفرپور کا واقعہ، جس میں 42 میں سے 34 بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، ان سرکاری اداروں کے ذریعے نہیں بلکہ ممبئی کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (TISS) کے ذریعے کیے گئے سوشل آڈٹ کی بدولت طشت از بام ہوا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ جائزے کا موضوع شیلٹر ہومز کی انتظامیہ کو نہیں بلکہ وہاں رہائش پذیر عورتوں اور بچیوں کو بنایا گیا۔ اور اسی وجہ سے وہاں جاری شرمناک معاملہ روشنی میں آیا۔ TISS سے وابستہ طارق، جنھوں نے سوشل آڈٹ رپورٹ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کہتے ہیں: ــ’’عمومی انسپکشن میں دیکھاجاتا ہے کہ مثلاً شیلٹر ہوم میں پانی صاف کرنے کی فلٹر مشین موجود ہے یا نہیں۔ اگر موجود ہو تو سوال نامے میں ٹِک کردیتے ہیں۔ لیکن سوشل آڈٹ میں محض فلٹر مشین کا موجود ہونا کافی نہیں۔ اس میں کسی بچی کو خالی گلاس دے کر پانی لانے کو کہا جاتا ہے۔ اب اگر وہ عام نل سے پانی لاتی ہے تو نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ موجود فلٹر مشین ان کے لیے نہیں ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ یہی رویہ جائزے کے تمام پہلوؤں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘

TISS کی اس چھوٹی سی ٹیم نے بڑی جانفشانی اور خاموشی سے کام کیا۔ انھیں اس کام میں مہینوں لگ گئے۔ اس دوران انھوں نے بہار کے 35 ضلعوں میں 110 شیلٹر ہومز کا دورہ کیا۔ انھوں نے بلاواسطہ بچیوں سے بات چیت کی۔ شیلٹر ہومز کی انتظامیہ کو ان کے ساتھ بات چیت میں شریک نہیں رکھاگیا۔ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ بچیوں کو اعتماد میں لیا جاسکے۔ 100 صفحے کی اس رپورٹ میں ریاست کے ’’سنگین مسائل کے حامل‘‘ 15 شیلٹر ہومز پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اور یہ تعداد صرف بہار کی ہے۔ ایسے نہ جانے اور کتنے مشکوک شیلٹر رسوم پورے ملک میں موجود ہیں۔

اس معاملے پر مرکزی وزیر مینکا گاندھی کو خود کہنا پڑا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس طرح کے اور بھی معاملات پائے جاتے ہوں، لہٰذا ملک کے تمام شیلٹر ہومز کا سوشل آڈٹ کیا جانا چاہیے۔ حکومت نے اب تک ان اداروں کو سوائے پیسہ دینے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔ اس چشم کشا انکشاف کے بعد دہلی کے خواتین کمیشن نے بھی راجدھانی میں شیلٹر ہومز کے مفصل جائزے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اتر پردیش کی بہبودی خواتین و اطفال کی وزیر ریٹا بہوگنا جوشی کے مطابق پوری ریاست میں چلائے جانے والے شیلٹر ہومز کے سرکاری آڈٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ شیلٹر ہومز چلانے والے افراد نے سرکاری فنڈ حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں کی ہیں۔ وزیر کے مطابق تفصیلی جانچ جاری ہے تاہم سردست کہا جاسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ان اداروں میں مالی گھپلوں کا انکشاف ہوا ہے۔

دیوریا معاملے میں بھی اس قسم کے مالی گھپلے کے بعد مذکورہ شیلٹر ہوم کا لائسنس 2017 میں رد کیا جاچکا تھا، تاہم اس کے بعد بھی ادارہ چلتا رہا۔

ادھر روہتک، مظفر پور، دیوریا، پیلی بھیت، پرتاپ گڑھ اور دیگر کئی مقامات پر ایک کے بعد ایک شیلٹر ہوم کے اس طرح کے معاملوں میں ملوث پائے جانے کے بعد سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ عدالت عالیہ نے مرکزی حکومت کو سخت پھٹکار لگائی ہے اور شیلٹر ہومز پر جلد پالیسی طے کرنے کا حکم دیا ہے۔

آ وٹ لک میگزین کی کالم نگار ایکتا کمار لکھتی ہیں:

’’حقیقت یہ ہے کہ شیلٹر ہومز جیسے نازک اداروں کے چلائے جانے کے تعلق سے شفافیت نام کو نہیں ہے۔ یہ معلوم کرنا قریب قریب ناممکنات میں سے ہے کہ ان اداروں کے اندر کیا چل رہا ہے۔ حکومت اور غیر سرکاری ایجنسیوں کے پاس شیلٹر ہومز کے تعلق سے ڈیٹا کی کمی ہے۔ ان میں رہائش پذیر خواتین اور بچیوں کی درست تعداد تک معلوم نہیں۔ انسپکشن کے نام پر رسمی طور پر جانچ ضرور ہوتی ہے، شکایت بکسے موجود ہیں، تحفظِ اطفال کی کمیٹیاں اور افسر بھی موجود ہیں، لیکن کیا ان سب سے یہ ضمانت مل سکتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے؟ شاید نہیں۔ ہمیں ایسا باضابطہ میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس بڑے کام کا بیڑا اٹھایا جاسکے۔ ہم نے ایک بڑے طویل عرصے سے شیلٹر ہومز کی اصل آوازوں کو نظرانداز کیے رکھا ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ اب صحیح لوگوں سے صحیح سوال کیے جائیں۔‘‘

شیلٹر ہومز میں جو بے ضابطگیاں ہورہی ہیں وہ ملک کی خراب حکمرانی ہی کا ایک نمونہ ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اترپردیش اور بہارکی کارکردگی، جہاں شیلٹر ہومز کے جنسی استحصال میں ملوث پائے جانے کے اندوہ ناک واقعات کا انکشاف ہوا ہے، انتظامی سطح پر بھی انتہائی خراب واقع ہوئی ہے۔ ضرورت ہے تو اس بات کی کہ حکومت اور ارباب حل و عقد حرکت میں آئیں اور اپنی داخلی کارروائیوں کے عمل کو سدھاریں اور احتساب و جواب دہی کا مضبوط نظام پیدا کریں۔ بصورتِ دیگر ان سنگین جرائم میں اضافے کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا اور خواتین اور بچوں پر زیادتی کرنے والے گھناونے عناصر اسی طرح پنپتے رہیں گے۔

بہار کے وزیر اعلیٰ جو ایک زمانے تک ’’سُشاسن بابو ‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے شاید اس موقع پر سچ بول گئے جب انھوں نے کہا کہ مظفر پور شیلٹر ہوم کا معاملہ ’’سسٹم کا فیل پور‘‘ ہے۔ نتیش کمار نے شاید یہ بات خود کے دفاع میں کہی ہو کہ اس کی ذمے داری وزیر اعلیٰ پر عائد نہیں ہوتی مگر حقیقت میں وہ اس سے زیادہ بڑی بات کہہ گئے۔ سسٹم کا فیل پور اگر ہے تو بڑی تشویش کی بات ہے کہ اب لوگوں کا اعتماد سسٹم پر بھی قائم رہے یا نہ رہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں