صحابیات کی دینی خدمات

مولانا عبد السلام ندویؒ

دینی خدمات میں اشاعت اسلام سب سے اہم ہے اور اس میں ابتدائے اسلام ہی سے صحابیات کی مساعیِ جمیلہ کا کافی حصہ شامل ہے، چنانچہ حضرت ام شریکؓ ایک صحابیہ تھیں جو آغازِ اسلام میں مخفی طور پر قریش کی عورتوں کو اسلام کی دعوت دیا کرتی تھیں، قریش کو ان کی مخفی کوششوں کا حال معلوم ہوا تو ان کو مکہ سے نکال دیا۔
ایک غزوہ میں صحابہ کرامؓ پیاس سے بے تاب ہوکر پانی کی تلاش میں نکلے تو حسن اتفاق سے ایک عورت مل گئی، جس کے ساتھ پانی کا ایک مشکیزہ تھا، صحابہ اس کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں لائے اور آپ کی اجازت سے پانی کو استعمال کیا۔ اگرچہ آپ نے اسی وقت اس کو پانی کی قیمت دلوادی، تاہم صحابہ پر اس کے احسان کا یہ اثر تھا کہ جب اس عورت کے گاؤں کے آس پاس حملہ کرتے تھے تو خاص طور سے اس کے گھرانے کو چھوڑ دیتے تھے، اس پر صحابہ کرام کی اس منت پذیری کا یہ اثر ہوا کہ اس نے اپنے تمام خاندان کو قبولِ اسلام پر آمادہ کیا اور وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔
حضرت ام حکیم بنت الحارث کی شادی عکرمہ بن ابی جہل سے ہوئی تھی، وہ خود تو فتح مکہ کے دن اسلام لائیں، لیکن ان کے شوہر بھاگ کر یمن چلے گئے۔ حضرت ام حکیمؓ نے یمن کا سفر کیا، اور اس کو دعوت اسلام دی، وہ مسلمان ہوکر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے۔
حضرت ابو طلحہؓ نے حالت کفر میں حضرت ام سلیمؓ سے نکاح کرنا چاہا، لیکن انھوں نے کہا کہ تم کافر ہو، اور میں مسلمان، نکاح کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر اسلام قبول کرلو تو وہی میرا مہر گا، اس کے سوا تم سے کچھ نہ مانگوں گی، چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے اور اسلام ہی ان کا مہر قرار پایا۔
نومسلموں کا تکفّل
ابتدائے اسلام میں جو لوگ اسلام لاتے تھے، ان کو مجبوراً اپنے گھر بار اہل و عیال اور مال و جائداد سے کنارہ کش ہونا پڑتا تھا، اس بنا پر اس وقت اشاعت اسلام کے ساتھ اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ ان نومسلموں کی کفالت کی جائے، اور صحابیات اس میں نمایاں حصہ لیتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ام شریکؓ کا گھر ان نومسلموں کے لیے گویا مہمان خانہ بن گیا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ بنتؓ قیس کو ان کے یہاں صرف اس بنا پر عدت بسر کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ان کے گھر میں مہمانوں کی کثرت سے پردہ کا انتظام نہیں ہوسکتا تھا، حضرت درہ بنت لہب بھی نہایت فیاض تھیں اور مسلمانوں کو کھانا کھلایا کرتی تھیں۔
خدمت مجاہدین
جس طرح صحابہ کرام بہ شوق غزوات میں شریک ہوتے تھے اسی طرح صحابیات بھی خدا کی راہ میں ان سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی تھیں، ان کے لیے سب سے زیادہ موزوں کام زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کے آرام و آسائش کا سامان بہم پہچانا تھا، اور وہ اس خدمت کو نہایت خلوص اور دل سوزی سے انجام دیتی تھیں۔ غزوہ خیبر میں متعدد صحابیات شریک جہاد ہوئیں، رسول اللہﷺ کو ان کا حال معلوم ہوا تو ناراضی کے لہجے میں پوچھا کہ تم کس کے ساتھ اور کس کی اجازت سے آئی ہو؟ بولیں یا رسول اللہ! ہم اون کاتتے ہیں اور اس سے خدا کی راہ میں اعانت کرتے ہیں، ہمارے ساتھ زخمیوں کے لیے دوا علاج کا سامان ہے، لوگوں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے ہیں، اور ستو گھول گھول کر پلاتے ہیں۔
حضرت ام عطیہؓ ایک صحابیہ تھیں جو رسول اللہﷺ کے ساتھ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں، وہ مجاہدین کے اسباب کی نگرانی کرتی تھیں، کھانا پکاتی تھیں۔ مریضوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
غزوۂ احد میں خود حضرت عائشہؓ شریک تھیں، اور وہ اور حضرت ام سلیمؓ اپنی پیٹھ پر مشک لاد لاد کر لاتی تھیں، اور لوگوں کو پانی پلاتی تھیں۔
حضرت ربیع بنت مسعودؓ کا بیان ہے کہ ہم سب غزوات میں شریک ہوتے تھے، پانی پلاتے تھے، مجاہدین کی خدمت کرتے تھے اور مدینہ تک زخمیوں اور لاشوں کو اٹھااٹھا کر لاتے تھے۔
حضرت رفیدہؓ نے مسجد نبوی میں خیمہ کھڑا کر رکھا تھا، جو لوگ زخمی ہوکر آتے تھے، وہ اسی خیمے میں ان کا علاج کرتی تھیں، چنانچہ حضرت سعد بن معاذؓ غزوہ خندق میں زخمی ہوئے تو ان کا علاج اسی خیمہ میں کیا گیا۔
صحابیات کی یہ خدمات خود صحابۂ کرام کے زمانے میں نہایت قابل قدر خیال کی جاتی تھیں، اور خود خلفائے راشدین بھی ان کا لحاظ رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک بار حضرت عمرؓ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم فرمائیں، ایک عمدہ چادر رہ گئی تو کسی نے کہا کہ اپنی بی بی ام کلثومؓ کو دے دیجیے، بولے ام سلیط اس کی زیادہ مستحق ہیں، کیوں کہ وہ غزوۂ احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں اور ہم کو پلاتی تھیں۔
بدعات کا استیصال
بدعت مذہب کے لیے بہ منزلہ گھن کے ہے، اس لیے بااثر صحابیات ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتی تھیں کہ نخلِ اسلام میں یہ گھن نہ لگنے پائے، مثلاً مسلمانوں میں غلاف کعبہ کی جو عزت و حرمت قائم ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب نیا غلاف چڑھایا جاتا ہے، تو پرانا غلاف چرا چھپا کر خادموں کو کچھ دے دلا کر لے لیتے ہیں، اس کو تبرک سمجھ کر لے آتے ہیں، اور مکانوں میں رکھتے ہیں، دوستوں کو بطور سوغات کے تقسیم کرتے ہیں، قرآن ان میں رکھتے ہیں، مسجدوں میں لٹکاتے ہیں اور مریض کو اس سے ہوا دیتے ہیں، لیکن قرن اول میں یہ حالت نہ تھی، متولی کعبہ یہ کرتا تھا کہ غلاف کو زمین میں دفن کر دیتا تھا کہ وہ ناپاک انسانوں کے کام کا نہ رہے، شیبہ بن عثمانؓ نے جو اس زمانہ میں کعبہ کے کلید بردار تھے، حضرت عائشہؓ سے اس واقعہ کو بیان کیا تو انھوں نے سمجھ لیا کہ یہ تعظیم غیر شرعی ہے، خدا اور رسول نے اس کا حکم نہیں دیا اور ممکن ہے کہ آیندہ اس سے سوء اعتقاد اور بدعات کا سرچشمہ پھوٹے، اس لیے شیبہ سے کہا ’’یہ تو اچھی بات نہیں تم برا کرتے ہو، جب غلاف کعبہ سے اتر گیا اور کسی نے اس کو ناپاکی کی حالت میں استعمال بھی کرلیا تو کوئی مضائقہ نہیں تم کو چاہیے کہ اس کو بیچ ڈالا کرو اور اس کی قیمت غریبوں اور مسافروں کو دے دیا کرو۔‘‘
احتساب
جو چیز مذہب و اخلاق کو صحیح اصول پر قائم رکھتی ہے، شریعت کی اصطلاح میں اس کا نام احتساب ہے اور خود رسول اللہﷺ نے اس کے تین درجے مقرر فرما دیے ہیں۔
’’تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے، اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے۔ اگر اس میں اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے اس کا انکار کرے اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتا تو دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔‘‘ (مسلم)
اور با اثر صحابیات نے پہلے دونوں طریقوں سے اس مذہبی خدمت کو انجام دیا ہے، ایک دفعہ حضرت عائشہؓ ایک گھر میں مہمان ہوئیں، میزبان کی دو لڑکیوں کو جو جوان ہو چلی تھیں دیکھا کہ بے چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں، تاکید کی کہ آیندہ کوئی لڑکی بے چادر اوڑھے ہوئے نماز نہ پڑھے۔ رسول اللہؐ نے یہی فرمایا ہے۔
ایک دفعہ ان کے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکرؓ ان کے پاس آئے اور معمولی طور پر جھٹ پٹ وضو کر کے چلے، حضرت عائشہؓ نے ٹوکا کہ عبد الرحمن! وضو اچھی طرح کیا کرو، رسول اللہ ﷺ کو میں نے کہتے ہوئے سنا ہے کہ وضو میں جو عضو نہ بھیگے، اس پر جہنم کی پھٹکار ہو۔
ایک بار انھوں نے ایک عورت کو دیکھا کہ اس کی چادر میں صلیب کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں، آپ نے اسے ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو، رسول اللہﷺ ایسے کپڑوں کو دیکھتے تھے تو پھاڑ ڈالتے تھے۔
ایک بار ان کی بھتیجی حفصہ بنت عبد الرحمن نہایت باریک دو پٹہ اوڑھ کر سامنے آئیں، آپ نے غصہ سے دو پٹہ کو چاک کر دیا، پھر فرمایا، تم نہیں جانتیں کہ سورہ نور میں خدا نے کیا احکام نازل فرمائے ہیں، اس کے بعد گاڑھے کا دوسرا دو پٹہ منگوا کر اوڑھایا۔ll۔ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں