صحابیات کی فعالیت اور اس کی عصری معنویت

شمشاد حسین فلاحی

اُمِّ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط اسلامی تاریخ کی روشن شخصیت ہیں۔ ابھی کنواری تھیں کہ اسلام کی محبت دل میں گھر کرگئی۔ ہجرت کر کے مدینہ آگئیں۔ گھر والوں نے آکر رسولؐ اللہ سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چوںکہ ام کلثوم نے بن پوچھے یہ قدم اٹھایا ہے، اس لیے انھیں خاندان کے حوالے کردیا جائے۔ آپؐ نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔
حضرت ابوطلحہ نے اُم سلیمؓ کو نکاح کا پیغام دیا اس وقت وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ وہ بولیں: ’’اے ابوطلحہ! کیا تم نہیں جانتے کہ تم اپنے جس معبود کی پرستش کرتے ہو وہ زمین سے اُگنے والا ایک درخت ہے جس کو فلاں حبشی نے کاٹا ہے؟ ابوطلحہ! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ جن خدائوں کی تم لوگ پوجا کرتے ہو، اگر تم ان میں آگ لگادو تو وہ جل جائیں گے؟ جس پتھر کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمھارا نہ نقصان کرسکتا ہے، نہ نفع پہنچا سکتاہے‘‘۔ نسائی کی روایت میں ہے، پھر ابوطلحہؓ نے اسلام قبول کرلیا اور ان کا اسلام لانا ہی اُمِ سلیمؓ سے شادی کے لیے مہر قرار پایا۔ (نسائی، کتاب النکاح)
بخاری اور مسلم میں ایک اور خاتون کا ذکر حضرت عمران بن حسینؓ کی روایت کے ذریعے سامنے آتا ہے کہ ایک سفر میں پانی کی سخت قلت ہوگئی ۔لوگوں کو ایک عورت ملی جس کے دونوں پائوں دو مشکیزوں کے درمیان تھے۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ پانی بہت دُور ایک رات اور ایک دن کی مسافت پر ہے۔ ہم اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو آپؐ نے حکم دیا کہ: اپنے برتن بھرلو۔ ہم نے چھوٹے بڑے برتن بھرلیے۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں کے پاس جو کچھ ہے معاوضے میں اس عورت کو پیش کرو۔ ہم نے کھجوریں وغیرہ جمع کرکے اسے دے دیں، جن کو لے کر وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی اور بولی: میں جس آدمی کے پاس سے آئی ہوں، وہ جادوگر ہے یا نبی۔ پھر اس عورت نے اسلام قبول کرلیا۔ مسلمان آس پاس کی مشرک آبادیوں سے لڑتے تھے، مگر اس عورت کی وجہ سے اس کے قبیلہ پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اس عورت نے اپنے قبیلہ کو توجہ دلائی کہ مسلمان تم پر جان بوجھ کر ہاتھ نہیں اٹھاتے، کیا اچھا ہو کہ تم سب اسلام قبول کرلو؟ روایات میں ہے کہ لوگ اس کی بات مان کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔
جنگ حنین میں اُمِ سلیمؓ مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرحم پٹی کے کام میں لگی تھیں۔ انہوں نےایک خنجر بھی اپنے جسم پر باندھ رکھا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا کہ: ’یہ کس لیے ہے؟‘کہنے لگیں: ’اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔
حضرت ام عمارہؓ جنگ احد میں شریک تھیں۔ فتح کے بعد جب مشرکین نے دوبارہ حملہ کردیا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی اور دشمن رسول کریم تک پہنچ گئے۔ اس وقت ام عمارہ نے جو داد شجاعت دی وہ تاریخ کا حصہ بن گئی۔ وہ خود بہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے لگ گئیں اور مردانہ وار عرب کے مشہور تلوار باز کا مقابلہ کیا۔ آپ ؐ نے ان کی دلیری اور شجاعت کی تحسین فرمائی اور فرمایا: ’’اُحد کے موقعے پر جدھر بھی رُخ کرتا اُمِ عمارہ کو سامنے موجود پاتا۔‘‘
یہ چند واقعات ہیں جو حدیث اور سیرت کی کتابوں میں ہمیں بہ کثرت ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ تجارت کرنے والی خواتین اور طب و جراحت کے میدان میں کام کرنے والی خواتین بھی ملتی ہیں۔ ایک نام ام شریک کا بھی ملتا ہے جو ایک خوشحال خاتون تھیں اور ان کا گھرمہمانوں کے لئے کھلا رہتا تھا۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے واقعات اور صحابیات کے نام اور کاموں کی تفصیل ملتی ہے جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں خواتین سماجی خدمت، دعوت و اصلاح کی فکر کے ساتھ ساتھ ان کا دینی و سیاسی شعور بھی پختہ ہوگیا تھا۔ مہر کی تحدید پر حضرت عمرؓ کا فرمان اور ایک عورت کی گرفت پر ان کا اس سے پیچھے ہٹ جانا اور حضرت اسما بنت ابو بکر کا حجاج سے مکالمہ اس کی دلیل کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگرچہ اس دور میں زندگی کے شعبہ آج کی طرح منظم اور ترقی یافتہ نہیں تھے مگر مسلم خواتین کسی میدان میں پیچھے نہ تھیں بلکہ ان کا مردوں کے ساتھ بھی اور الگ بھی ایک فعال رول تھا۔ ایسا اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے اسلام کے نظریہ خدمت خلق اور فریضہ دعوت و جہاد کی اہمیت اور نظریہ سیاست و حکومت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔
اسلامی لٹریچر میں جگہ جگہ خواتین کے جنگوں میں شرکت کے واقعات کی تفصیلات ملتی ہیں اور ان واقعات کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام خواتین کے رول کو گھر کی چہار دیواری تک محدود نہیں کرتا۔ یہ واقعات بعض اوقات اسلام پر عورت کے سلسلے میں کئے جانے والے اعتراضات کے جواب کے طور پر بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارا یہاں ان باتوں کے ذکر کرنے کا مقصد معترضین کے اعتراضات پر اسلام کے نظریہ کا دفاع ہر گز نہیں بلکہ مسلم سماج کی خواتین کو یہ بتانا ہے کہ صحابہ و صحابیات کی زندگیاں ہمارے لئے روشن نقوش ہیں جن کی ہمیں پیروی کرنی ہے اور کرنی چاہئے۔
موجودہ دور کی مسلم خواتین ذرا اس بات پر نظر ڈالیں کہ وہ صحابیات بھی بچوں کی پرورش کرتی تھیں اور شاید ہم سے زیادہ دینی فکر و شعور کے ساتھ کرتی تھیں مگر اسکے باوجود وہ دیگر شعبہائے حیات میں بھی مردوں کے شان بہ شانہ تھیں۔ ان کے ساتھ بھی اور ان سے الگ بھی ان کی دعوتی اور سماجی سرگرمیاں تھیں اور وہ ان تمام فریضوں کی ادائگی کے لئے حساس اور فعال تھیں جن کا دین ان سے مطالبہ کرتا ہے۔
اس دور کی خواتین کی زندگیاں کتنی مشقت بھری ہوتی تھیں اور آج ہماری خواتین کو سائنس وٹکنالوجی نے سہولیات فراہم کرکے ان کی زندگیوں کو کتنا آسان بنادیا ہے اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے ان کے پاس بھی دن رات میں محض چوبیس گھنٹوں کا ہی وقت تھا اور ہمارے پاس بھی وہی ہے مگر ان کی سرگرمیوں اور ہماری سرگرمیوں میں کتنا فرق ہے!!
موجودہ دور میں اسلام کی نظریاتی مخالف خواتین نے پوری دنیا میں کتنی منظم صورت اختیار کر رکھی ہے اور اسلام کا دم بھرنے والی خواتین ان کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہیں کبھی موقع ملے تو ضرور سوچئے گا۔
دعوت و اصلاح اور دین کو دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری ہر مومن مرد و عورت پر اللہ کی طرف سے عائد ہے اور یہ وہ ذمہ داری ہے جس کی انجام دہی پر ہماری آخرت کی فلاح منحصر ہے۔ دور نبوی کی خواتین اس سلسلے میں کتنی حساس تھیں اس کا اندازہ اوپر کے دو واقعات خصوصا ام سلیم کے دعوتی اپروچ سے لگایا جا سکتا ہے، مگر کیا مسلم سماج کی خواتین اس سلسلے میں بیدار اور حساس ہیں، اس پر انفرادی اور اجتماعی دونوںپہلوؤں سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس کی مخاطب اول وہ خواتین ہیں جن کو اللہ تعالی نے علم و شعور سے نوازا ہے۔
ایک اور بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ام عمارہ نے جنگ احد میں رسول اللہ کے دفاع میں بے مثال تلوار بازی کی اور جس کے مقابلے میں کی وہ مشہور تلوار باز تھا۔ کیا یہ تلوار بازی کا فن بغیر سیکھے ان کو حاصل ہو گیا تھا؟ ہمارا خیال ہے نہیں! ایسے دور میں جب خواتین کے خلاف جرائم کا سیلاب مشرق و مغرب کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے، نسلی تشدد، مذہبی منافرت اور صنفی تفریق نے دنیا کے مختلف گوشوں میں عورت کو نشانہ بنا رکھا ہے تو کیا محض ام عمارہ کے تذکرے سے خواتین اپنا دفاع کر سکتی ہیں۔ خود ہمارے ملک میں اب حکومت خواتین و طالبات کو سیلف ڈیفنس کی تربیت کے لئے پروگرام چلاتی ہے تو کیا ام عمارہ کی زندگی ہمارے لئے کسی جذبہ کو ابھارنے کا ذریعہ بنتی ہے؟
اوپر کے واقعات کا تذکرہ صرف اس لئے کیا گیا تاکہ ہم غور کریں کہ صحابیات کی زندگیوں کے ان واقعات کا ہماری اپنی زندگی سے کیا تعلق قائم ہوتا ہے اور ان عظیم خواتین کے کاموں کی موجودہ زمانے میں کیا معنویت ہے!ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں