[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

صحت بہتر کیسے ہو

ڈاکٹر ابو حذیفہ

کون ہے جو بیمار ہونا چاہتا ہے؟بیماری تو نہ صرف اِنسان کا جینا دوبھر کرتی ہے بلکہ یہ جیبیں بھی خالی کر دیتی ہے۔ اِس کی وجہ سے آپ کی طبیعت بیزار رہتی ہے، آپ کام پر یا سکول نہیں جا سکتے، کمائی نہیں کر سکتے اور اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال بھی نہیں کر سکتے۔ الٹا دوسروں کو آپ کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کو علاج اور دوائیوں پر بھاری رقم خرچ کرنی پڑے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے؟‘‘ کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن سے ہم بچ نہیں سکتے۔ پھر بھی آپ کچھ ایسی احتیاطی تدابیر کر سکتے ہیں جن سے بعض بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اِمکان یا تو کم ہو سکتا ہے یا پھر بالکل ختم ہو سکتا ہے۔ آئیں، پانچ ایسے طریقوں پر غور کریں جن پر عمل کرنے سے آپ اپنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

ہاتھ اچھی طرح دھوئیں

بہت سے صحت کے اِداروں کے مطابق ہاتھ دھونا بیماریوں اور اِن کے پھیلاؤ سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ عام طور پر لوگوں کو نزلہ، زکام اور فلو اِس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ گندے ہاتھوں سے اپنی ناک یا آنکھوں کو ملتے ہیں۔ اِن بیماریوں سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ دن میں اکثر ہاتھ دھوئیں۔ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے تو آپ زیادہ سنگین بیماریوں سے بھی بچ سکتے ہیں جیسے کہ نمونیا اور دست وغیرہ۔ ایسی بیماریوں کی وجہ سے ہر سال 20 لاکھ سے زیادہ بچے موت کا شکار ہوتے ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔ ہاتھ دھونے کی معمولی عادت اپنانے سے ایبولا جیسی جان لیوا بیماری کے پھیلنے کا اِمکان بھی کم ہو سکتا ہے۔

بعض صورتوں میں ہاتھ دھونا بہت ہی ضروری ہوتا ہے تاکہ ہماری یا دوسروں کی صحت کو خطرہ لاحق نہ ہو، مثلاً:

*ٹائلٹ اِستعمال کرنے کے بعد

*بچوں کے پیمپر بدلنے یا انہیں پیشاب یا پاخانہ کرانے کے بعد

*کسی زخم پر مرہمپٹی کرنے سے پہلے اور اِس کے بعد

*کسی بیمار شخص سے ملنے سے پہلے اور ملنے کے بعد

*سبزیاں یا گوشت وغیرہ کاٹنے، پکانے، کھانے اور دوسروں کو پیش کرنے سے پہلے۔

* چھینک مارنے، کھانسی کرنے یا ناک صاف کرنے کے بعد۔

*کسی جانور یا اس کے فضلے کو چھونے کے بعد۔

*کوڑا کرکٹ پھینکنے کے بعد۔

یاد رکھیں کہ ہاتھ دھونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے ہاتھ واقعی صاف ہو گئے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جو لوگ عوامی ٹائلٹ اِستعمال کرتے ہیں، اْن میں سے بہت سے یا تو ہاتھ دھوتے ہی نہیں اور اگر دھوتے ہیں تو صحیح طرح نہیں دھوتے۔ تو پھر ہاتھ دھونے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

*پہلے نلکے کے نیچے ہاتھ رکھ کر اِنہیں اچھی طرح گیلا کریں اور پھر صابن لگائیں۔

*ہاتھوں کو اچھی طرح مل کر جھاگ بنائیں، ناخن صاف کریں، انگوٹھے صاف کریں، ہاتھوں کی پشت اور اْنگلیوں کے درمیان خلا کو صاف کریں۔

*کم ازکم 20 سیکنڈ تک ہاتھ ملتے رہیں۔

*صاف پانی سے دھوئیں۔

*ٹشو یا صاف تولیے سے ہاتھ خشک کریں۔

یہ ساری باتیں معمولی لگتی ہیں لیکن یہ بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے اور لوگوں کو موت کے مْنہ میں جانے سے بچا سکتی ہیں۔

صاف پانی کا اِستعمال

بعض ملکوں میں لوگوں کو صاف پانی حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن جن ملکوں میں صاف پانی عام دستیاب ہے وہاں پر بھی سیلاب، آندھی طوفان، پانی کا پائپ پھٹنے یا پھر کسی اَور مسئلے کی وجہ سے صاف پانی حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر وہ جگہ صاف نہیں جہاں سے پانی آ رہا ہے یا پھر پانی کو صحیح طرح ذخیرہ نہیں کِیا جاتا تو ایسا پانی پینے سے آپ کے اندر خطرناک جراثیم داخل ہو سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ کو ہیضے، ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس یا دست کی جان لیوا بیماری ہو سکتی ہے۔ ہر سال تقریباً 1 ارب 70 کروڑ لوگ دست کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اِس کی ایک وجہ پینے کا آلودہ پانی ہے۔

آپ کچھ ایسی احتیاطی تدابیر کر سکتے ہیں جن سے بعض بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اِمکان یا تو کم ہو سکتا ہے یا پھر بالکل ختم ہو سکتا ہے۔

ہیضہ عام طور پر ایسا پانی پینے یا ایسا کھانا کھانے کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں ہیضے کے مریض کے فضلے کے جراثیم شامل ہوں۔

پانی چاہے اِس وجہ سے یا کسی اَور مسئلے کی وجہ سے آلودہ ہوا ہو، آپ ایسے پانی سے ہونے والی بیماریوں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

اِس بات کا خیال رکھیں کہ آپ پینے، دانت صاف کرنے، برف جمانے، سبزیاں دھونے، کھانا پکانے اور برتن دھونے کے لیے ہمیشہ صاف پانی اِستعمال کریں۔ بہت سے ملکوں میں سرکاری پانی یا اچھی کمپنی کا پانی اکثر محفوظ ہوتا ہے۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو پائپ کے ذریعے ملنے والا پانی آلودہ ہو گیا ہے تو اِسے اِستعمال کرنے سے پہلے اچھی طرح ابالیں یا پھر پانی صاف کرنے والی کوئی دوا اِستعمال کریں۔

جب آپ کلورین یا کوئی اَور دوا اِستعمال کرتے ہیں تو اِسے بنانے والی کمپنی کی ہدایات پر احتیاط سے عمل کریں۔

اگر آپ کو معیاری فلٹر دستیاب ہیں اور آپ اِنہیں خرید سکتے ہیں تو پانی صاف کرنے کے لیے اِنہیں اِستعمال کریں۔

اگر پانی کو صاف کرنے والی کوئی دوا یا فلٹر میسر نہیں تو پانی میں گھریلو بلیچ ملائیں۔ ایک لیٹر پانی میں صرف دو قطرے ملائیں۔ پھر اِسے اچھی طرح ہلائیں اور 30 منٹ کے لیے پڑا رہنے دیں۔ اِس کے بعد اِستعمال کریں۔

پانی کو ہمیشہ صاف برتنوں یا بوتلوں میں ڈھانپ کر رکھیں تاکہ یہ دوبارہ آلودہ نہ ہو جائے۔

اِس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ پانی کو برتنوں سے نکالنے کے لیے جو چیز اِستعمال کرتے ہیں، وہ بھی صاف ہو۔

پانی کے برتنوں یا بوتلوں کو پکڑنے سے پہلے ہاتھ دھوئیں۔ پینے کے پانی میں اپنے ہاتھ یا اْنگلیاں نہ ڈالیں۔

کھانے میں احتیاط برتیں

اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ آپ متوازن اور غذائیت بخش خوراک کھائیں۔ اِس بات کا خیال رکھیں کہ آپ بہت زیادہ نمک، چکنائی اور چینی اِستعمال نہ کریں اور ایک ہی وقت میں حد سے زیادہ کھانا نہ کھائیں۔ اپنی خوراک میں پھل اور سبزیاں ضرور شامل کریں اور کوشش کریں کہ آپ ہر روز ایک ہی طرح کی غذا نہ کھائیں۔ لال آٹے کی روٹی سفید آٹے کی روٹی سے زیادہ ریشے دار ہوتی ہے۔ اِسی طرح لال آٹے کی ڈبل روٹی، دلیہ اور پاستا، میدے سے بنی ہوئی چیزوں کی نسبت زیادہ ریشے دار اور غذائیت بخش ہوتے ہیں۔ اِس لیے اِنہیں خریدتے وقت اِن پر لکھی معلومات کو غور سے پڑھیں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ یہ لال آٹے سے بنی ہیں یا میدے سے۔ پروٹین حاصل کرنے کے لیے ایسا گوشت کھائیں جس میں زیادہ چربی نہ ہو۔ اِس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ حد سے زیادہ نہ کھائیں۔ اگر ممکن ہو تو ہفتے میں ایک دو بار مچھلی کھائیں۔ بعض ملکوں میں لوگ پروٹین حاصل کرنے کے لیے گوشت کے علاوہ ایسی اشیا بھی اِستعمال کرتے ہیں جو اناج سے بنی ہوتی ہیں۔

اگر آپ چکنائی سے بھرپور اور میٹھی غذائیں بہت زیادہ اِستعمال کرتے ہیں تو آپ موٹاپے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اِس لیے میٹھے مشروب پینے کی بجائے پانی اِستعمال کریں اور میٹھے پکوان کی جگہ پھل اِستعمال کریں۔ گوشت، مکھن، پنیر، کیک اور بسکٹ وغیرہ بھی کم لیں کیونکہ اِن میں بھی چکنائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور کھانا پکانے کے لیے گھی یا چربی اِستعمال کرنے سے بہتر ہے کہ آپ کوئی اچھا تیل اِستعمال کریں۔

کھانے میں بہت زیادہ نمک لینے کی وجہ سے بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے جو نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ اِس مرض میں مبتلا ہیں تو اپنے کھانے میں نمک کی مقدار کم کریں اور اگر آپ کوئی پیکٹ والا کھانا خریدتے ہیں تو اس کے لیبل پر نمک کی مقدار ضرور چیک کریں۔

صرف اِس بات کا خیال رکھنا ہی اہم نہیں ہے کہ آپ کس طرح کی غذا کھاتے ہیں بلکہ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ آپ کتنی مقدار میں کھاتے ہیں۔ اپنے کھانے سے لطف ضرور اْٹھائیں لیکن جتنی بھوک ہے، اْس سے زیادہ نہ کھائیں۔

اگر کھانا صحیح طرح پکایا نہیں گیا یا پھر اِسے اچھی طرح محفوظ نہیں کیا گیا تو اس سے فوڈ پوائزننگ یعنی شدید پیٹ خراب اور اْلٹیاں ہو سکتی ہیں۔ عالمی اِدارہ صحت کے مطابق ہر سال لاکھوں لوگ اِس طرح کا کھانا کھانے کی وجہ سے شدید بیمار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ تو جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں مگر کچھ اِس کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ آپ اِس سے بچنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

*سبزیاں اکثر کھاد ملی مٹی میں اْگتی ہیں۔ اِس لیے اِنہیں اِستعمال کرنے سے پہلے اچھی طرح دھو لیں۔

*سبزیاں یا گوشت وغیرہ کاٹنے سے پہلے اپنے ہاتھ، چھری، برتن اور اْس جگہ کو اچھی طرح دھوئیں جہاں رکھ کر آپ اِنہیں کاٹیں گے۔ اِس کے لیے گرم اور صابن والا پانی اِستعمال کریں۔

*پکے ہوئے کھانے کو ایسی جگہ یا پلیٹ میں نہ رکھیں جہاں آپ نے پہلے انڈے، کچا گوشت یا مچھلی رکھی ہوئی تھی۔ اْس جگہ یا پلیٹ کو پہلے اچھی طرح دھوئیں۔

*کھانا اس وقت تک پکائیں جب تک یہ اچھی طرح گل نہ جائے۔ اگر آپ کھانا فوراً نہیں کھائیں گے تو اِسے فریج میں رکھ دیں۔

اگر آپ کے کمرے کا درجۂحرارت 22 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور کھانا 2 گھنٹے تک کمرے میں پڑا رہا ہے تو اِسے پھینک دیں۔ لیکن اگر ہوا کا درجہ حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ گیا ہے تو پھر 1 گھنٹے بعد ہی کھانے کو پھینک دیں۔

باقاعدہ ورزش کریں

آپ کی عمر چاہے جو بھی ہو، صحت مند رہنے کے لیے باقاعدگی سے ورزش کرنا ضروری ہے۔ آج کل بہت سے لوگ اْتنی ورزش نہیں کرتے جتنی اْن کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ورزش کرنا اِتنا اہم کیوں ہے؟ ورزش کرنے سے:

*نیند اچھی آتی ہے۔جسم لچک دار رہتا ہے۔ہڈیاں اور پٹھے مضبوط رہتے ہیں۔وزن کم ہوتا ہے یا مناسب رہتا ہے۔ڈیپریشن ہونے کا خطرہ کم رہتا ہے۔کم عمر میں مرنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ورزش نہ کرنے کی وجہ سے …دل کی بیماری ہو سکتی ہے۔ذیابیطس ہو سکتی ہے۔بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔ کولیسٹرول بڑھ سکتا ہے۔فالج ہو سکتا ہے۔

آپ کو اپنی عمر اور صحت کے مطابق ورزش کرنی چاہیے۔ اِس لیے کوئی نئی ورزش شروع کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا اچھا ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو ہر روز کم ازکم ایک گھنٹہ کھیل کود کرنی چاہیے۔ بالغوں کو ہر ہفتے ڈھائی گھنٹے ہلکی پھلکی ورزش یا پھر سوا گھنٹہ سخت ورزش کرنی چاہیے۔

آپ ورزش کے طور پر کسی کھیل کا اِنتخاب کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر باسکٹ بال، چڑی چھکا اور فٹ بال وغیرہ۔ آپ دوڑنے جا سکتے ہیں، تیراکی کر سکتے ہیں، تیز تیز چل سکتے ہیں یا پھر سائیکل چلا سکتے ہیں۔ لیکن ہلکی پھلکی ورزش اور سخت ورزش میں کیا فرق ہے؟ ہلکی پھلکی ورزش وہ ہوتی ہے جس میں آپ کو پسینہ آتا ہے لیکن اِس دوران آپ دوسروں سے بات?چیت بھی کر سکتے ہیں جب کہ سخت ورزش میں ایسا کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

نیند پوری کریں

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری نیند کی مقدار بھی بدلتی جاتی ہے۔ نوزائیدہ بچے دن میں 16 سے 18 گھنٹے سوتے ہیں، ایک سے تین سال کا بچہ 14 گھنٹے سوتا ہے اور تین یا چار سال کا بچہ 11 یا 12 گھنٹے سوتا ہے۔ سکول جانے والے بچوں کو کم ازکم 10 گھنٹے، نوجوانوں کو تقریباً 9 یا 10 گھنٹے اور بالغوں کو 7 سے 8 گھنٹے کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم جتنے بھی گھنٹے سوئیں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ماہرین کے مطابق بھرپور نیند سونا …بچوں اور نوجوانوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔

*نئی باتیں سیکھنے اور یاد رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

*ہارمونز کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے جو ہمارے وزن اور جسم میں خوراک کو توانائی میں تبدیل کرنے کے عمل پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔

*دل کی صحت کے لیے ضروری ہے۔

*بیماریوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔

نیند کا پورا نہ ہونا موٹاپے، ڈیپریشن، دل کی بیماری، شوگر اور جان لیوا حادثوں کا باعث بنتا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھرپور نیند سونا کتنا اہم ہے۔

لہٰذا اگر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی نیند پوری نہیں ہوتی تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟

*ہر روز سونے اور جاگنے کا ایک وقت طے کریں۔

*سوتے وقت اپنے کمرے میں خاموشی اور اندھیرا رکھیں۔ کمرا زیادہ ٹھنڈ ا یا زیادہ گرم نہ ہو۔

*بستر پر لیٹنے کے بعد ٹی وی نہ دیکھیں یا موبائل فون وغیرہ اِستعمال نہ کریں۔

*بستر کو آرام دہ بنائیں۔

*سونے سے پہلے زیادہ کھانا نہ کھائیں اور چائے، کافی یا شراب نہ پئیں۔

اگر اِن تمام تجاویز پر عمل کرنے کے بعد بھی آپ کو رات میں اچھی نیند نہیں آتی یا دن کے دوران بہت زیادہ نیند آتی ہے یا پھر نیند کے دوران سانس اْکھڑنے کی وجہ سے آپ اْٹھ بیٹھتے ہیں تو کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔***

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں