صحت و تندرستی اور اسلام

حافظؔ کرناٹکی

صحت اور تندرستی سب سے بڑی نعمت ہے۔زندگی میں جو لطف، امنگ، جوش اور خوشی ہمیں محسوس ہوتی ہے وہ سب کی سب صحت و تندرستی کا طفیل ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ ان پانچ میں ایک صحت ہے کہ صحت کو بیماری سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیے۔
اس لیے اپنی صحت سے کبھی غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ کیوں کہ ایک بار جب صحت خراب ہو جاتی ہے، تو پھر بڑی مشکل سے سنبھلتی ہے۔
مومن ہمیشہ ہشاش، بشاش، تروتازہ اور چاق و چوبند رہتا ہے۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ تازگی، شگفتگی اور مسکراہٹ رقصاں رہتی ہے۔ غم و غصّہ، رنج والم اور فکر و حسد سے وہ پاک رہتا ہے۔ اس لیے ان کی صحت بھی قابل رشک ہوتی ہے۔ حضورؐنے فرمایا:طاقت ور مومن کمزور مومن کے مقابلے اللہ کو زیادہ محبوب ہے حالانکہ دونوں میں خیر ہے۔
قبیلہ بابلہ کی ایک خاتون حضرت حبیبہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میرے والد محترم حضورﷺ سے ملنے اور دین کا علم حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے اور پھر گھر واپس آگئے اور ایک سال کے بعد پھر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن حضورﷺ نے انہیں بالکل نہیں پہچانا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟ حضورﷺ نے کہا نہیں۔ میں نے تمہیں نہیں پہچانا۔ اپنا تعارف کراؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں قبیلہ بابلہ کا ایک فرد ہوں۔ پچھلے سال بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تب حضورﷺ نے فرمایا یہ تمہاری کیا حالت ہوگئی ہے؟ پچھلے سال جب تم آئے تھے تو بہت بہتر حالت میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے میں آپﷺ کے پاس سے گیا ہوں اس وقت سے اب تک برابر روزے رکھ رہا ہوں۔ صرف رات میں کھانا کھاتا ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا تم نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالا اور اپنی صحت برباد کرلی۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام نے میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ کھانے میں ، سونے میں، خرچ کرنے میں ، محنت کرنے میں ، عبادت کرنے میں، مشقت کرنے میں، غرض یہ کہ زندگی کے ہر مسٔلے میں انسان کو متوازن رہنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام انسان کو عملی زندگی میں کام کرنے کے لائق بنانے کا داعی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان جسمانی اعتبار سے چست اور درست نہیں ہوگا تو وہ دنیا کی بھلائی اور دنیا میں بسنے والی اللہ کی مخلوقات کی بھلائی کے کام نہیں کرپائے گا۔ اسی لیے اسلام حرکت اور قوّت کی تائید کرتا ہے۔ مردہ دلی، بزدلی، کمزوری، بیماری سے بچنے اور صحت کو بحال رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔
اسلام میں تو بعض عملی اقدامات کی اہمیت کئی طرح کی عبادتوں سے بڑھ کر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا جس نے خطرے کے موقع پر مجاہدین کی پاسبانی کی اس کی یہ رات شب قدر سے زیادہ افضل ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ؛ بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو اپنے گھوڑے کی باگیں پکڑے ہوئے خدا کی راہ میں اس کواڑاتاپھرتا ہے۔ جہاں کسی خطرے کی خبر سنی گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر دوڑ گیا۔ قتل اور موت سے ایسا بے خوف ہے گویا اس کی تلاش میں ہے۔
گھوڑ سواری ایک ایسی چیز ہے جو کسی بھی کمزور صحت والے انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر انسان کا جسم ہر طرح فٹ، چست، درست اور صحت مند نہ ہو تو گھوڑسواری تو دور کی بات ہے وہ اس کی سواری بھی زیادہ دیر تک نہیں کرسکتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ حضورﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ بھی چکی پیستی تھیں اور گھریلو زندگی کے جو بھی کام تھے سب اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ اس سے واضح پیغام اور کیا ہوگا کہ خواتین بھی محنت کش بنیں۔ اپنے آپ کو مضبوط بنائیں۔ محنت کریں، سستی اور کاہلی سے بچیں۔ آرام طلبی اور عیش کوشی کے چکر میں نہ پڑیں۔اسی طرح اسلام نے یہ بھی کہا ہے کہ بچے بھی اپنا کام خود کریں۔ ملازموں، اور نوکروں کے محتاج نہ بنیں۔
اسلامی طرز زندگی میں سحر خیزی کی خاص اہمیت ہے کیوں کہ فجر کی نماز صبح سویرے ہی ہوتی ہے۔ اس لیے صبح جاگنے کی عادت ہونی چاہیے۔ نماز کے بعد باغ میں یا کھلی ہوا میں سیر کرنا چاہیے۔ صبح کی تازہ ہوا صحت کے لیے مفید ہوتی ہے۔ روزانہ اپنی عمر اور جسمانی قوّت کے حساب سے ورزش کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضورﷺ کو باغ کی سیر پسند تھی۔ اسلامی طرز معاشرت کے مطابق عشاء کی نماز کے بعد سوجانا چاہیے۔ اور فجر کے وقت جاگ جانا چاہیے۔ یہ اسلام کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے صحت کو بگاڑنے والی نشیلی چیزوں کو حرام قرار دے دیا ہے۔ نشہ آور چیزوں سے دل کی دنیا ویران ہوجاتی ہے۔ دماغ کی قوّت معدوم ہوجاتی ہے۔
ہماری صحت کا دارو مدار کھانے پینے پربھی ہے۔ بہت زیادہ کھانا اور مسلسل کھاتے رہنا اور حریصانہ انداز میں کھانے سے صحت تباہ ہوجاتی ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ؛ مومن ایک آنت کھاتا ہے اور کافر سات آنت کھاتا ہے۔ اسلام میں سادگی پر زور دیتے ہوئے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ کھانا سادہ کھانا چاہیے۔ بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھانی چاہیے۔ یعنی میدے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسلام نے بتایا ہے کہ کھانا نہایت اطمینان سے خوب چباچباکر کھانا چاہیے۔ غم، غصّہ اور گھبراہٹ میں جو کھانا کھایا جاتا ہے وہ معدہ پر برا اثر ڈالتا ہے۔ اور جب معدہ متأثر ہوتا ہے تو پورا جسم متأثر ہوتا ہے۔ امام بیہقی نے کہا ہے کہ معدہ بدن کے لیے حوض کی مانند ہے اور رگیں اس حوض سے سیراب ہونے والی نالیاں ہیں۔ پس اگر معدہ صحیح اور تندرست ہے تو رگیں بھی سیراب لوٹیں گی اور اگر معدہ ہی خراب اور بیمار ہے تو رگیں بیماری چوس کر لوٹیں گی۔
یہ اسلام نے ہی بتایا ہے کہ دوپہر کا کھانا کھا کر تھوڑی دیر لیٹ جائیے اور رات کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑی چہل قدمی کیجئے۔ کھانے کے فوراً بعد کوئی سخت دماغی کام مت کیجئے۔ اسی طرح اسلام نے جسم کے ایک ایک اعضا کی حفاظت کے طریقے بتائے ہیں۔ آنکھوں کی کس طرح حفاظت کرنی چاہیے۔ دانتوں کی صفائی کس طرح کرنی چاہیے۔ موسم کے حساب سے کھانے پینے اور سونے کا اہتمام کس طرح کرنا چاہیے۔ غرض یہ کہ حفظان صحت کے معمولی معمولی نکتوں سے لے کر حکیمانہ طریقوں تک سے اسلام نے آگاہ کیا ہے۔
اسلام نے تو پاکی کو آدھا ایمان قرار دیا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی انسان مومن بھی ہوگا اور اس کا کھانا پاک نہ ہوگا۔ اس کا کپڑا پاک نہ ہوگا۔ اس کا بستر، اس کاگھر پاک نہ ہوگا۔ اس کا لباس، اس کا چہرہ، اس کے دانت، اس کے بال پاک وصاف نہ ہوں آپ اور ہم آج اچھی طرح جانتے ہیں کہ صحت و تندرستی کا مول منتر متوازن زندگی ہے۔ پاکی اور صفائی ہے۔ میانہ روی ہے۔ نہ حد سے زیادہ کھانا ہے اور نہ بھوکے رہنا ہے۔ نہ نفس کی خواہش کی تکمیل میں مرغن غذائیں کھاتے رہنا ہے۔ اور نہ نفس کشی کی نیت سے روزے پر روزے رکھتے چلے جانا ہے۔
اس لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر ہم صحت کے معاملے اسلامی طریقوں کو اپنا لیں تو ہم اللہ کے فضل سے ہزار طرح کی بیماریوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔ اور ان شاء اللہ زندگی میں کبھی معذوری کا اور صحت کی بگاڑ کا شکار نہ ہوں گے۔ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں