صفائی کے متعلق نبی ﷺ کے ہدایات

محمد جرجیس کریمی

گھروں اور راستوں کی صفائی کا حکم

شریعت اسلامیہ میں جسم کی ظاہری صفائی ستھرائی کے احکام کے ساتھ گھروں اور راستوں کی بھی صفائی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی کا جسم تو صاف ستھرا ہو لیکن جس گھر میں وہ رہتا ہو، اس میں اس کے ارد گرد گندگی کے ڈھیر پڑے ہوں اور اس سے بدبو اور تعفن اٹھ رہی ہو۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے:

’’اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے۔ نظافت والا ہے اور نظافت کو پسند کرتا ہے۔ کریم ہے اور کرم کو پسند کرتاہے۔ سخی اور داتا ہے اور سخاوت کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا تم بھی اپنے گھروں کے صحن پاک صاف رکھو اور گندگی میں یہودیوں کے مثل نہ ہوجاؤ۔‘‘ (ترمذی)

آدمی اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کا تو کسی درجے میں اہتمام کرتاہے لیکن راستوں اور گلیوں کی صفائی کی زیادہ فکر نہیں کرتا بلکہ وہاں وہ کوڑا کرکٹ اور گندگی ڈال دیتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے نزدیک یہ بات انتہائی نازیبا ہے اور حدیث میں اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:

’’ان دو لعنت بھیجے جانے والے کاموں سے بچو۔ پوچھا گیا کہ وہ دو لعنت والے کام کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: لوگوں کے راستے میں یا سایہ دار جگہ میں رفع حاجت کرنا۔‘‘(مسلم)

ایک دوسری حدیث میں تین مقامات کا ذکر کیا گیا ہے جہاں غلاظت نہیں ڈالنی چاہیے۔ ارشاد ہے:

’’لعنت بھیجے جانے والے تین مقامات سے بچو۔ وہ ہیں (۱) گھاٹ (۲)عام راستہ (۳)سایہ دار جگہ میں پاخانہ کرنا۔‘‘ (ابوداؤد)

بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ تالاب یا ٹھہرے ہوئے پانی کے اندر پیشاب کردیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے تالاب یا اس پانی کی طہارت میں کچھ فرق نہ آئے گا لیکن یہ چیز صفائی ستھرائی کے بالکل خلاف ہے۔ حدیث میں اس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:

’’تم میں سے کوئی ہرگز ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی (تالاب) میں پیشاب نہ کرے اور پھر اس میں وضو کرے۔‘‘(ترمذی)

صفائی ستھرائی کے بعض دیگر پہلو

بعض لوگوں کے بار بار تھوکنے، ناک صاف کرنے یا کھنکھارنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ ایسی جگہ پر بھی اپنی عادت کے بہ موجب ناک صاف کرنے یا تھوکنے سے باز نہیں آتے جہاں عام لوگوں کی نگاہیں پڑتی ہیں۔ شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث میں ہدایت ہے:

’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد کے اندر تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو چھپا دیا جائے۔‘‘ (ابوداؤد)

مسجد میں تھوکنے کی بات اس وقت تھی جب اس کا فرش کچا ہوتا تھا۔ اب جب کہ مسجدیں پکی اور مزین ہیں تو ان میں تھوکنا صحیح نہ ہوگا۔

بعض اوقات کتا برتن میں منھ ڈال دیتا ہے۔ ایسے موقعے پر شریعت کا حکم ہے کہ برتن کو کم از کم سات بار دھوکر صاف کیا جائے تاکہ دوبارہ اسے استعمال کرنے میں کوئی ضرر لاحق نہ ہو یا کراہت محسوس نہ ہو۔ حدیث میں ارشاد ہے:

’’جب تمھارے برتن میں کتا منھ ڈال دے تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے سات بار دھویا جائے۔ البتہ پہلی مرتبہ مٹی سے دھویا جائے۔‘‘ (ابوداؤد)

کھانے پینے کے برتن کو ڈھک کر رکھنا طبی نقطۂ نظر سے ضروری ہے۔ کھلے برتن میں جراثیم یا کوئی بھی ضرر رساں چیز پڑسکتی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں اس کی تاکید کی گئی ہے کہ برتنوں کو ڈھک کر رکھا جائے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

’’حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دروازے کو بند کردو اور اللہ کا نام لو۔ بے شک شیطان کے اندر بند دروازے کو کھولنے کی تاب نہیں ہے۔ چراغ بجھادو اور اللہ کا نام لو۔ برتن ڈھانپ دو اگرچہ لکڑی کی کوئی ڈنڈی ہی کیوں نہ ہو، اسی سے ڈھانپ دو۔ اور اللہ کا نام لو اور پانی کے برتن کا منہ بند کردو اور اللہ کا نام لو۔‘‘ (ابوداؤد)

کھانا پینا انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔ آدمی کو بھوک لگی ہو تو وہ بسا اوقات کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے اور ضروری صفائی ستھرائی کا اہتمام نہیں کرتا ہے۔ شریعت میں کہا گیا ہے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ منھ دھو لینا چاہیے تاکہ کھانے کے ساتھ ہاتھ کی گندگی یا میل کچیل منہ اور پیٹ میں نہ جائے۔ ارشاد نبویؐ ہے:

’’کھانے کی برکت اس میں ہے کہ کھانے سے پہلے وضو کیا جائے اور کھانے کے بعد بھی وضو کیاجائے۔‘‘ (ابوداؤد)

کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ ان اعضا سے کھانے کے اجزا صاف ہوجائیں۔ حدیث میں اس کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ہے:

’’حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کھانا کھانے کے بعد ہاتھ منھ دھوئے بغیر سوجائے اور اس کے ہاتھ میں کھانے کے اجزا موجود ہوں تو اگر اسے کوئی ضرر لاحق ہو تو وہ اپنے آپ ہی کو کوسے، کسی دوسرے کو ذمہ دار نہ ٹھہرائے۔‘‘ (ابوداؤد)

کھانے کے بعد ہاتھ منھ دھونے کے علاوہ حدیث میں رومال یا تولیہ استعمال کرنے کی بھی ضرورت بتائی گئی ہے، جس سے اسلام میں صفائی ستھرائی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ حدیث میں ارشاد ہے:

’’حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اس وقت تک ہاتھ کو رومال سے نہ صاف کرے جب تک اس کو وہ خود چاٹ نہ لے یا کسی سے چٹوا نہ لے۔‘‘ (ابوداؤد)

بعض لوگ پیاس کی شدت سے یا عادت کے بہ طور پانی پینے کے دوران برتن ہی کے اندر سانس لیتے ہیں۔ شریعت میں یہ طریقہ بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے کیوں کہ یہ نہ صرف انسانی وقار کے خلاف ہے بلکہ اس سے ضرر پہنچنے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ اس لیے حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث پاک ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ پانی پیتے وقت برتن کے اندر منہ سے ہٹائے بنا سانس لی جائے۔ یا پینے والی چیز میں پھونک ماری جائے۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں