صنفی عدل پر بحث سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ عدل کسے کہتے ہیں؟ کیا مکمل مساوات، عدل کی لازمی شرط ہے؟ کیا عدل کے لئے یہ ضروری ہے کہ سماج کے ہر فرد کے حقوق و فرائض ہر حال میں بالکل مساوی ہوں؟ قانون کے فلسفیوں نے اس کا جواب عام طور پر نفی ہی میں دیا ہے۔ سماج میں ہر فرد کو مساوی عزت، احترام اور مساوی مقام ملنا چاہیے۔سب کو بھر پور آزادی میسر ہونی چاہیے۔ مساوی مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔ اور فرائض و اختیارات اور وسائل کے معاملہ میں ’’زیادہ سے زیادہ ممکنہ مساوات‘‘ کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کہیں کوئی نابرابری ہو تواس کے پیچھے کوئی بڑا تمدنی یا سماجی مقصد ہونا چاہیے۔ بڑے سماجی مفاد کی خاطر ہونے والی نابرابری کو عدل کے تقاضہ کے خلاف نہیں سمجھا جاتا۔یہی عدل کا مسلمہ تصور ہے۔سماجی رول، پوزیشن، اور افراد اور گروہوں کی کمزوریوں اور طاقت کو نظر انداز کرکے عدل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہوائی جہاز میں بیٹھنے والے تمام لوگ یہ مطالبہ کریں کہ ان کو کاک پٹ پر ویسا ہی مساوی اختیار ملنا چاہیے جیسا پائلٹ کو حاصل ہے، تو اس مطالبہ کی تکمیل کا نتیجہ انہی کی ہلاکت پر منتج ہوگا۔پائلٹ کے مخصوص رول کی وجہ سے اسے دیئے گئے اضافی اختیارات، تصور عدل کے خلاف نہیں ہیں۔مخصوص صورتوں میں ایک ڈاکٹر کو مریض کے جسم پر، انجنیر کو بھاری بھرکم اور غیر معمولی تباہی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں پر بلکہ ایک معمولی ٹرافک کانسٹبل کو ہزاروں بیش قیمت گاڑیوں پر مشتمل ٹریفک پر، جو اضافی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، وہ دوسروں کو نہیں دیئے جاسکتے۔ اس عدم مساوات کو کہیں بھی خلاف عدل نہیں سمجھا جاتا۔ سماج کے کمزور طبقات کے ساتھ مثبت تفریق Positive Discriminationکوبھی اسی وجہ سے عدل کے خلاف نہیں سمجھا جاتا۔اس لئے بعض لوگوں نے عدل کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ’’ایک جیسی صورت حال سے دو چار لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک‘‘Equal treatment with similarly situated individuals
کسی فرد یا گروہ کے ساتھ عدل کیا جارہا ہے یا نہیں، اس بات کا انحصار دو سوالات پر ہے۔ اول یہ کہ کیا اس کو سماج میں مساوی عزت، مقام اور مرتبہ حاصل ہے؟ اور دوم یہ کہ اگر کسی معاملہ میں اس کے فرائض و اختیارات سماج کے کسی دوسرے گروہ سے کم یا زیادہ ہیں تواسکی کوئی معقول وجہ موجود ہے یا نہیں اور کیااس کے پیچھے سماج اور انسانیت کا کوئی بڑا مفاد ہے یا نہیں ہے؟ کیا واقعی دونوں گروہوںکی صورت حال الگ الگ ہے؟آج صنفی عدل کے حوالہ سے انہی سوالات کو ہم زیر بحث لائیں گے۔
خواتین کے بارے میں اسلام کا تصور
مقام و مرتبہ اور بنیادی حقوق کے لحاظ سے، اسلام میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔عام طور پر دیگر مذاہب اور روایتی فلسفوں نے عورت اور مرد کے درمیان واضح تفریق کی ہے۔کہیںعورت کو مرد کی ملکیت قرار دیا گیا تو کہیں اس کے آزادو جود ہی کو تسلیم نہیں کیا گیا۔اس کے فہم اور قوت فیصلہ پر شک کیا گیا۔اس کی رائے اور اپنی ذات سے متعلق اس کے فیصلوں کو بھی کسی نہ کسی مرد کی رائے کے تابع رکھا گیا۔ اسے تمام سماجی حقوق سے محروم رکھا گیا ۔ حق ملکیت جیسے بنیادی حقوق کا اسے حقدار نہیں سمجھا گیا۔اسلام نے ان سب تصورات کی بیخ کنی کی اور عورت کو مکمل آزادی بخشی۔ اس کو مرد کے برابر یکساں احترام اور حقوق دیئے۔ کہیں فرق رکھا تو اس کی وجہ سماجی رول کا فرق ہے ورنہ اصولی طور پر مرد و عورت دونوں اللہ کے نزدیک یکساں مقام کے حامل اور احترام کے مستحق ہیں۔ اللہ کے نزدیک بڑائی کا معیار صرف تقوٰیٰ ہے۔ ’’تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ (الحجرات) دونوں کو اللہ تعالی نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔
’’لوگو اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیااور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایااور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے۔‘‘ (النساء) ’’شوہر، بیوی دونوں ایک دوسرے کے لباس ہیں۔‘‘َ
’’وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔‘‘ (البقرہ) اگر بیوی شوہر کا لباس ہے تو شوہر بھی بیوی کا لباس ہے۔یعنی دونوں کو ایک دوسرے کے لئے تحفظ و طمانیت، رازداری وپردہ پوشی اور زینت و خوش نمائی کا ذریعہ بننا چاہیے۔ آخرت میں اجر کے معاملہ میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔
’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت۔تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔‘‘(آل عمران) دین کے کاموں میں بھی مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار ہیں۔
’’مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘(التوبہ) دنیا میں بھی بحیثیت ایک انسان اور فرد کے ان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں۔ نہ عورت مرد پر ظلم کرسکتی ہے اور نہ مرد عورت پر۔ عورت کے مال پر اس کو مکمل مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔’’جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا، اس کے مطابق ان کا حصہ ہے۔‘‘ (النساء) جتماعی زندگی میں اس کو بھی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ وغیرہ۔ اس طرح اصولی طور پر مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
صنفی عدل کے حوالہ سے اسلام کے اور جدید نسائی تحریکات (feminist)کے تصورات میں جو اصل فرق ہے، اس کا تعلق درج ذیل تین سوالات سے ہے۔
۱۔مرد اور عورت مل کر ایک خاندان بنائیں، کیا یہ ایک تمدنی ضرورت ہے؟ کیا بچوں کا یہ حق ہے یا نہیں کہ انہیں پرورش کے لئے ایک شفیق خاندان کا آسرا میسرہو۔
۲۔ کیا خواتین کا علحدہ تشخص ہے یا نہیں؟ کیا جنسی فرق صرف جسمانی ساخت کا فرق ہے یا سماجی اور نفسیاتی سطحوں پر بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ یعنی کیا دونوںکی صورت حا ل ایک جیسی (similarly situated)ہے یا الگ الگ ہے؟
۳۔اگر خاندان کی ضرورت ہے تو وہ کیسے چلے؟ اس میں مرد اور عورت کا الگ الگ رول ہو یا نہ ہو؟ کیا مرد اور عورت کے الگ الگ رول، مصنوعی طور پرسماج کے پیدا کردہ ہیں یا فطری حقائق کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں؟
بہت سے فیمینسٹ ان سوالوں کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خاندان ایک پدرشاہی (Patriarchal) ادارہ ہے۔ اس لئے مساوات کا تقاضہ ہے کہ اسے ختم کردیا جائے۔مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق صرف حیاتیاتی ہے۔ اور یہ حیاتیاتی فرق بھی ختم ہونا چاہیے۔ مشہور فرانسیسی فیمینسٹ سیمون ڈی بیور اپنی کتاب ’سیکنڈ سیکس‘ ( Second Sex) میں عورت کے جسم اور اس کے حیاتیاتی وجود ہی کو عورت کے ساتھ ناانصافی قراردیتی ہے۔ اس کے بقول چونکہ تولید کے عمل میں جن مشقتوں سے عورت کو گذرنا پڑتا ہے، اُن سے مرد نہیں گذرتا اس لئے مساوات کے لئے ضروری ہے کہ اس حیاتیاتی رکاوٹ پر قابو پایا جائے۔ حقیقی انصاف اس وقت ہوگا جب افراد کو اپنی جنس منتخب کرنے کا حق حاصل ہو۔ ان فلسفیوں کے نزدیک، مردوں اور عورتوں کے الگ الگ سماجی رول، روایتی سماج کے پیدا کردہ ہیں۔ روایتی سماجوں میں ہمیشہ مردوں کا تسلط رہا ہے اس لئے عورتوں کے استحصال کے لئے انہوں نے یہ تصورات گھڑ رکھے ہیں۔ اول تو خاندان ضروری نہیں ہے، لیکن اگر مرد اورعورت مل کر ہی خاندان بنائیں تو اس میں مرد کا الگ رول اور عورت کا الگ رول ضروری نہیں۔ ہر کام جو مرد کرسکتا ہے وہ عورت بھی کرسکتی ہے۔ فطرت نے مرد و عورت کو مساوی پیدا کیا ہے۔ اس لئے سماج کا پیدا کردہ ہر فرق ختم ہونا چاہیے۔ان افکار کے نتیجہ میں صنفی عدل کا جو تصور تشکیل پاتا ہے، وہ یقینا اس تصور سے مختلف ہوگا جو خاندان کے ادارہ کی اہمیت اور اس کے لازمی اور فطری تقاضوں کے شعور کے نتیجہ میں تشکیل پاتا ہے۔ ان نسائی تصورات نے مغربی معاشروں میں عورتوں اور مردوں کے درمیان غیر فطری مساوات تو قائم کردی لیکن خاندان اور خود عورت کی ذات کو اس کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات اب بہت واضح ہوچکے ہیں۔
صنفی رول اور صنفی عدل
اسلام کے مطابق مرد اور عورت کو اللہ نے الگ الگ سماجی رول کے لئے پیدا کیا ہے۔دونوں اصناف سماجی حیثیت کے لحاظ سے یقینا برابر ہیں لیکن ان کے جسم، نفسیات اور سماجی رول میں فرق ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے تکمیل کنندہ (complementary) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیاتیاتی لحاظ سے بھی اور سماجی لحاظ سے بھی۔مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر۔ اللہ نے ان کے درمیان حیاتیاتی فرق پیدا کیا ہے، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ان دونوں سے الگ الگ حیاتیاتی رول بھی متوقع ہیں اور الگ الگ سماجی رول بھی۔نہ مرد اکیلے بچے پیدا کرسکتا ہے اور نہ بچوں کی پیدائش میں وہ کردار ادا کرسکتا ہے جو عورت کے لئے مخصوص ہے۔اس فرق کی وجہ سے خود بخود سماجی فرق بھی واقع ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں بھی بعض رول ایک عورت ہی ادا کرسکتی ہے۔ مرد ادا نہیں کرسکتا۔وہ اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاسکتا۔ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اور اس کا دودھ پینے کی وجہ سے جو ُانس اور قربت بچے ماں کے تئیں محسوس کرتے ہیں وہ باپ کے سلسلہ میں نہیں کرتے۔بچوں کے باپ سے تعلق اور محبت کی نوعیت اور ماں سے تعلق کی نوعیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فطرت نے صرف جسمانی فرق نہیں رکھے بلکہ مزاج اور نفسیات کے بھی واضح فرق رکھے ہیں۔ عام طور پر ایک مرد، عورت سے زیادہ جسمانی طاقت رکھتا ہے۔ عام طور پر شیر خوار لڑکے بھی ٹرک اور کار کے کھلونے اٹھاتے ہیں اورشیر خوار لڑکیاں، گڑیاں اٹھاتی ہیں۔ اسکول میں لڑکے کچھ اور مضامین میں اچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں کچھ اور مضامین میں۔ ان کے دماغ واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں سماجی رول کے اعتبار سے بھی فرق ہے۔
جدید فیمینسٹ تصور میں اور اسلام میں اصل فرق یہی ہے کہ اسلام کے نزدیک خاندان ایک بڑی انسانی ضرورت ہے۔ اور اس ادارہ کا تحفظ ہونا چاہیے۔ خاندان کے اس ادارہ کے تحفظ کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مرد اور عورت اپنے فطری دائروں میں اپنے اپنے رول ادا کریں۔ دونوں کے رول چونکہ الگ الگ ہیں، اس لئے اس حوالہ سے انصاف کے تقاضوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہوگا۔ کچھ خصوصی مراعات عورت کو اس کے رول کی وجہ سے حاصل ہوں گی تو کچھ اضافی اختیارات مرد کو اس کے رول کی وجہ سے۔ ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں۔ بیوی کو خصوصی معاشی مراعات حاصل ہیں۔بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیوں کی پرورش کا زیادہ ثواب ہے۔دوسری طرف مرد کو قوام کی حیثیت میں بعض اضافی اختیارات حاصل ہیں۔ اس فرق کا مقصد یہ ہے کہ دونوں اصناف اپنے اپنے دائروں میں اپنے تمدنی فرائض انجام دے سکیں اور اس کے نتیجہ میں ایک خوش حال خاندان اور ایک خوشحال سماج وجود میں آسکے۔ اسلام میں صنفی عدل کے تصور کو سمجھنے کے لئے ان بنیادی تصورات کو سمجھنا ضروری ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو خاندان کے سلسلہ میں اسلام کے وژن میں اور جدید فیمنسٹ وژن میں پایا جاتا ہے۔
چوںکہ اسلام کے نزدیک خاندان سماج اور تمدن کی بنیادی ضرورت ہے اس لئے اس ضرورت کی تکمیل کے لئے اس نے مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں بعض فرق رکھے ہیں۔ تولید و تناسل کی اہم تمدنی ضرورت کی تکمیل کے لئے عورت کو پر مشقت مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔یہ فرق سماج کا پیدا کردہ نہیں ہے، فطری ہے۔ بچوں کی یہ ضرورت ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی پرورش ماں کے شفیق آنچل کے زیر سایہ ہو۔ماں سے جو قربت وہ محسوس کرتے ہیں اور جس طرح اس کا اثر قبول کرتے ہیں اس کاتقاضہ ہے کہ ان کی شخصیت ساز ی میں وہ اہم رول ادا کرے۔ خاندان کی اہم اکائی اور ادارہ کا نظم و انتظام بھی وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا کام اسلام نے عورت کے سپرد کیا ہے۔ ان کاموں میں اور اس کی جسمانی و نفسیاتی خصوصیات میں گہری مطابقت ہے ۔ یہ مطابقت سماجی اور تاریخی عوامل کی پیدا کردہ نہیں ہے، فطرت کی پیدا کردہ ہے۔چناںچہ اسلام نے ان فرائض کی انجام دہی کے لئے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ہے۔ خاندان کی کفالت شوہر کے ذمہ ہے۔ بیوی اگر مال دار ہو تب بھی اس کی کفالت شوہر ہی کے ذمہ ہے۔ مالی ضروریات کی تکمیل کے علاوہ بیوی کا تحفظ اور اس کی دلجوئی بھی شوہر کی ذمہ داری ہے۔ قوّام کی حیثیت سے اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ خاندان کی تمام ذمہ داری قبول کرے اور اسے ادا کرے۔اسلام نے عورت کو معاشی مصروفیت سے منع نہیں کیا۔ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اور شریعت کے حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے وہ معاشی مصروفیت بھی اختیار کرسکتی ہے لیکن یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔اس طرح اسلام کی خاندانی اسکیم میں سماج اور تمدن کی اہم ضروریات کا لحاظ بھی ہے اور مرد ، عورت اور بچوں کے ساتھ مکمل انصاف بھی۔
صنف کی بنیاد پریہ تقسیم کار مغرب زدہ خواتین کو اس لئے کھٹکتی ہے کہ فیمینسٹ تصورات کی ایک اہم بنیاد نسوانی شخصیت اور نسوانی رول حقیر سمجھنا ہے۔ان کے نزدیک ہوائی جہاز میں مسافروں کی خدمت اور استقبالیہ پر مہمانوں کی دلجوئی تو قابل احترام مصروفیت ہے لیکن نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور خاندان جیسے بنیادی ادارہ کا نظم و انصرام حقیر کام ہے۔ان تصورات نے عورت کے تشخص، اس کے جذبات و نفسیات اور اس کے رول کی قدر و منزلت کو اتنا گھٹا دیا کہ عورت اپنے عورت پن پر شرمندہ رہنے لگی۔ اسلام نے عورت ہی کو نہیں اس کے نسوانی وجود کو عزت و احترام بخشا ہے۔عورت کو سماج میں قدر و منزلت حاصل کرنے کے لئے یہاں مرد بننا ضروری نہیں ہے۔
مغربی دنیا میں ، مرد وزن کے درمیان غیر فطری مساوات کی کوششوں نے سب سے زیادہ خاندان کے ادارہ کو تباہ کردیا۔ خاندان کی تباہی نے سماجی زندگی کے ہر پہلو پر اثر ڈالا۔ چناںچہ اب مغربی دنیا میں بھی عورت اور مرد کے الگ الگ رول کا تصور عام ہونے لگا ہے۔ چند سال پہلے برطانوی ماہر نفسیات سائمن بیرن کوہن کی کتاب The Essential Difference: Men, Women and the Extreme Male Brain پینگوئن پبلشرز نے شائع کی تھی۔ یہ کتاب بہت مشہور ہوئی اس میں مصنف نے مرد اور عورت کے دماغوں کے فرق پر روشنی ڈالی ہے اور ثابت کیا ہے کہ دونوں جنسوں کو الگ الگ رول کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔مئی ۲۰۱۷ میں نیو یارک ٹائمز نے خاندان سے متعلق مطالعات کے ایک اہم ادارہ کے حوالہ سے سروے کی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق امریکہ میں اب نئی نسل یعنی ۱۷ سال سے ۳۴ سال کے درمیان کی عمر کے افراد (Millenials) روایتی صنفی رول کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے قبل کی نسلوں میں فیمینسٹ تصورات مقبول تھے لیکن اب نئی نسل کے امریکی، خاندان کے روایتی تصور کی طرف تیزی سے پلٹ رہے ہیں۔
نکاح کے اصول و قوانین اور صنفی عدل
خاندان کی بنیاد عقد نکاح کے ذریعہ پڑتی ہے۔ اسلام نے عقد نکاح کو بہت اہمیت دی ہے اور چند نہایت اہم اصولوں کے ذریعہ اس کو منضبط کیا ہے۔اس سلسلہ میں درج ذیل اصول، بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔جنسی تعلق صرف نکاح کے ذریعہ ہی ممکن ہو۔ نکاح کی حیثیت ایک معاہدہ کی ہو جس کے ذریعہ مرد و عورت ایک دوسرے سے جڑیں۔ آزادانہ تعلقات کی سہولت حاصل ہو تو نکاح کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور خاندان کا وجود ہی خطرہ میں پڑجاتا ہے۔
۲۔نکاح کے معاہدہ کے ساتھ خاندان کی ذمہ داریاں لازماً وابستہ ہوں۔ یعنی مرد اور عورت اپنے اپنے رول ادا کرنے کے پابند ہوں۔
۳۔نکاح انتہائی آسان ہو۔ جو مرد و عورت بھی ایک دوسرے سے نکاح کرنا چاہیں اور اس کے نتیجہ میں آنے والی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار ہوں وہ بڑی آسانی سے عقد نکاح کا معاہدہ کرسکیں۔ حکومت کی دفتری کاروائیوں یا سماج کی غیر ضروری روایتوں کے ذریعہ یہ معاہدہ مشکل کام نہ بنے۔
۴۔اگر کسی وجہ سے بعد میں نباہ مشکل ہوجائے تو اس معاہدہ کو ختم کرنا بھی آسان ہو۔ اس میں بھی سماج یا حکومت کی غیر ضروری کاروائیوں سے مشکل نہ پیش آئے۔
جدید سماج میں نکاح اور طلاق کی مشکلات کی وجہ سے بغیر نکاح کے ساتھ رہنے یعنی لیو ان رلیشن شپ (live in relationship)کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ اس طرح کا تعلق عورت کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اس کے معاشی حقوق کا اس میں کوئی تحفظ نہیں ہے۔ اگر اولاد ہوتی ہے تو یہ عورت کے ساتھ بھی نا انصافی ہے، اس لئے کہ اکثر صورتوں میں اولاد کا بوجھ عورت ہی پر پڑتا ہے اور بچوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہے کہ ان کی پرورش کی ذمہ داری کسی مرد پر عائد نہیں ہوتی اور ان کی بے شمار مالی اور جذباتی ضرورتیں پوری نہیں ہوپاتیں۔یہ صنفی عدل ہی کا تقاضہ ہے کہ اسلام نے نکاح کو live in relationship لیو ان رلیشن شپ ہی کی طرح انتہائی آسان رکھا ہے، جسے قائم کرنا بھی آسان ہے اورختم کرنا بھی۔ البتہ ذمہ داریاں واضح طور پر متعین کردی ہیں۔ لیو ان رلیشن شپ ذمہ داریوں اور پابندیوں (commitment)کے بغیر ہوتی ہے جو بہت سی نا انصافیوں کے دروازے کھولتی ہے جبکہ نکاح کا معاہدہ آسان ہونے کے باوجود مرد کو اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے قانوناً پابند کرتا ہے۔
قانون طلاق اور صنفی عدل
یہ صحیح ہے کہ اسلام نے طلاق کا اختیار عام حالات میں مرد کو دیا ہے۔ عورت بھی خلع یا فسخ نکاح کے ذریعہ اپنا نکاح ختم کراسکتی ہے لیکن یہ اختیار یک طرفہ unilateral نہیں ہے، بلکہ یا تو شوہر کی مرضی پر منحصر ہے یا عدالتی مداخلت پر۔ اس بات کو اسلام کے معترضین صنفی عدل کے خلاف سمجھتے ہیں۔یہ در اصل اسلام کی پوری اسکیم کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔اسلامی سوسائٹی میں نکاح نہایت آسان ہوتا ہے۔ اسلام نے مردوں کو ایک سے زیادہ نکاح کی بھی اجازت دی ہے۔بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے نکاح کی بھی ہمت افزائی کی ہے۔ ان اصولوں کی وجہ سے اسلامی معاشروں میں قابل نکاح عورتوں کا ڈیمانڈ ، سپلائی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ان کی آسانی سے دوسری شادیاں ہوجاتی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں طلاق کی عدت کے بعد فوری عورت کو پیغام آنے شروع ہوجاتے تھے۔ اور وہ جلد ہی دوسرا نکاح کرلیتی تھی۔ آج بھی بہت سے مسلم سماجوں میں یہی صورت حال ہے۔ ان وجوہ سے اسلامی سماجوں میں طلاق اصلاً مرد کے لئے نقصان اور مشکل کا باعث ہوتی ہے۔ طلاق کے نتیجہ میں وہ سارے اثاثے جو اس نے بیوی کو مہر کے طور پر یا تحفہ کے طور پر دیئے تھے، ان سے وہ محروم ہوجاتا ہے۔ بچوں کا نان نفقہ اس کو الگ سے دینا پڑتا ہے۔ اس لئے طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے۔ اسلام کے قوانین طلاق اور نکاح کے اصول و قوانین میں گہرا تعلق ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اگر ہمارے سماج میں طلاق عورت کے لئے شدید مشکلات پیدا کررہی ہے تو اس کی وجہ طلاق کے قانون کا نقص نہیں بلکہ نکاح کے اصولوں سے عملی انحراف ہے۔ اگر نکاح نہایت آسان ہوجائے، بیواؤں اور مطلقہ عورتوں سے نکاح کا چلن عام ہوجائے، اور مردوں کے لئے دوسرا نکاح معیوب نہ رہے تو اس کے نتیجہ میں خود بخود عورتوں کا ڈیمانڈ بڑھے گا اور ان کا نکاح نہایت آسان ہوجائے گا۔ایسا ہوجائے تو پھر طلاق سے انہیں وہ غیر معمولی مشکلات پیش نہیں آئیں گی جو اب آتی ہیں۔
دوسری اہم بات یہ سمجھنا چاہیے کہ طلاق کا اختیار صرف مرد کے پاس رکھنے کا اصول کوئی لازمی شرط (mandatory condition)نہیں ہے بلکہ افتراضی شرط (default condition) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات کے لئے ایک اصول شریعت نے دیا ہے۔ لیکن اگر عورت چاہے تو نکاح کے وقت وہ شرط لگاکر اسے بدل سکتی ہے اور خود بھی طلاق کا حق حاصل کرسکتی ہے۔ اسے تفویض طلاق کہتے ہیں۔ اگر عورت سماج کے حالات کے پیش نظر یہ محسوس کرے کہ اپنے تحفظ کی خاطر اسے بھی طلاق کا حق ملنا چاہیے تو وہ نکاح کے وقت یہ شرط لگاسکتی ہے ۔ اس شرط کی وجہ سے اسے بھی خود کو طلاق لینے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ حق ویسا ہی یک طرفہ ہوتا ہے جیسے مرد کو حاصل ہے، یعنی عدالت یا کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر اور شوہر کی بھی مرضی کے خلاف وہ طلاق لے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ چاہے تو ایسی شرائط بھی لگاسکتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے طلاق کی صورت میں مالی تحفظ حاصل ہو۔ مثلاً وہ شرط لگاسکتی ہے کہ عام حالات میں اس کا مہر پچاس ہزار روپیے ہوگا لیکن طلاق کی صورت میں مہر پچیس لاکھ ہوگا۔ اسے اشتراط فی المہر کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلامی فقہ اکیڈمی نے ایسی شرطو ں کو درست اور قابل تنفیذ قرار دیا ہے۔اگر عورت نے نکاح کے وقت ایسی کوئی شرط نہیں لگائی تو یہ مانا جائے گا کہ وہ افتراضی شرط (default condition) پر راضی ہے اور یہی نافذ ہوجائے گی۔ یہ دنیا کے تمام قانونی نظاموں کا مسلمہ قاعدہ ہے۔
تعدّد ازدواج اور صنفی عدل
اسلام نے مرد کو ایک سے زیادہ یعنی زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ یہ محض اجازت ہے، لزوم نہیں ہے۔ اسلام کے ناقدین اسے بھی صنفی عدل کے خلاف سمجھتے ہیں۔ حالاںکہ حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس قانون کا اصل مقصد بھی عورت کو انصاف فراہم کرنا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں اور ہر سماج میں، بعض مرد ایک سے زیادہ عورتوں کے حاجت مند رہے ہیں۔ جدید دور سے پہلے، تعدد ازدواج کی روایت ہر مہذب سماج میں رہی ہے۔ مشہور ماہر سماجیات جارج مرڈوک نے 1960سے 1980کے درمیان دنیا بھر کے سماجوں کا جو مطالعہ کیا ہے اس کے مطابق جملہ 1231 معاشروں میں سے 1041معاشرے ( یعنی پچاسی فیصد!)تعدد ازدواج پر عامل تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعدد ازدواج انسانی فطرت میں شامل ہے۔ جدید مغربی معاشروں نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ قانونی طور پر تعدد ازدواج کو ممنوع کیا گیا لیکن بغیر شادی کے ایک سے زیادہ عورتوں سے تعلق پر کوئی روک نہیں ہے۔امریکہ اور برطانیہ میں قانون کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ رہنا، یعنی کثیر زوجگی بطور امر واقعہ( Defacto Ploygyny)غیر قانونی نہیں ہے بلکہ اسے شادی کے طور پر رجسٹر کرنا غیر قانونی ہے۔چند سال پہلے امریکہ کی مرکزی عدالت نے ریاست اٹا کے اس قانون کو غیر دستوری قرار دے کر منسوخ کردیا جس کے تحت ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ رہنے (Cohabitation)کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ ان سارے سماجوں میں داشتائیں رکھنا نہ صرف یہ کہ غیر قانونی نہیں ہے بلکہ قابل فخر ہے۔ ہمارے ملک میں سیاست دانوں سے لے کر فلمی اداکاروں تک، ہر طبقہ میں ایسے افراد موجود ہیں جو علانیہ داشتائیں رکھتے ہیں۔ امریکہ کے مشہور میگزین پلے بوائے نے نومبر 2005کے شمارہ میں سر ورق پر میگزین کے مالک ہیوگ ہیفنر کی تین داشتاوئں کی تصاویر شائع کی تھیں۔ یعنی بیک وقت تین تین عورتوں کے ساتھ رہنا، امریکہ میں بھی ناپسندیدہ نہیں ہے، ناپسندیدہ ان کے ساتھ قانونی طور پر شادی کا بندھن باندھنا ہے۔ ان داشتاؤں کو وہ قانونی حقوق نہیں ملتے جو شادی شدہ بیوی کو ملتے ہیں۔ بلکہ اکثر صورتوں میں ان کے بچے بھی مساوی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ یہ افسوس اورحیرت کی بات ہے کہ صنفی عدل کے نام نہاد علم برداروں کو ان عورتوں کے ساتھ ہورہی اس نا انصافی کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔
اسلام نے بھی مرد کے لئے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے۔لیکن اس نے اس بات کا شدت سے لحاظ رکھا ہے کہ یہ کثیر زوجگی کسی خاتون کے ساتھ نا انصافی کا سبب نہ بننے پائے۔ تعدد ازدواج کی اجازت ہی عدل کے ساتھ مشروط ہے۔ اور اگر نا انصافی کا اندیشہ ہو تو قرآن کا حکم ہے کہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو۔ ’’اگرتمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔‘‘ النساء)۔ بیویوں کے درمیان مکمل مساوات اور عدل کا یہ اسلامی حکم، داشتاؤں کا مظلوم طبقہ پیدا ہونے نہیں دیتا۔ داشتائیں عزت و تکریم سے بھی محروم ہوتی ہیں اور عام مالی و دیگر حقوق سے بھی۔ اسلام کا تعدد ازدواج کا قانون اس نا انصافی کو ختم کرتا ہے۔ اب یہ طئے کرنا کامن سینس کا کام ہے کہ عورت کو داشتہ بنانا صنفی عدل ہے یاعزت و احترام اور مساوی حقوق کے ساتھ دوسری بیوی بنانا؟
اب جدید مغربی معاشروں میں بھی تعدد ازدواج کی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔ مشہور فیمینسٹ وینڈی میکلرائے Wendy McElroy تعدد ازدواج کی کھلے عام حمایت کرتی ہے اوراسے عورتوں کے حق میں مفید قرار دیتی ہے۔ امریکی ماہر بشریات فلپ کلبرائڈ Philip Kilbride کی کتاب Plural marriages for our Time بہت مشہور ہوئی جس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ کثیر زوجگی امریکہ میں ٹوٹتے خاندانوں کو بچانے اور بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کی موثر تدبیر ہے۔معروف ماہر معاشیات ڈیوڈ فرائیڈ مین نے اپنی مشہور کتاب Hidden Order: The Economics of Everyday Life میں تعدد ازدواج کے معاشی پہلووں پر دلچسپ بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ تعدد ازدواج عورتوں کے حق میں ہی مفید ہے۔ اس کا فائدہ بالآخر عورتوں ہی کو ہوتا ہے اور نقصان مردوں کو۔امریکہ کی سیاسی جماعت لبرٹین پارٹی تعدد ازدواج پر قانونی بندش کو ختم کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔lll